Saturday, September 7, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بلیو اکنامی

دورحاضر میں پوری دنیا نیلی معیشت یا بلیو اکانومی سے مستفید ہورہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے مقتدر حلقوں کی عدم دلچسپی کے باعث سمندری قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جارہا جیسے کرنا چاہئے تھا
ثناء طارق گل
خالق کائنات نے سب سے پہلے آسمان سے پانی اتارا پھر پانی سے ہی زندگی کی ابتدا ہوئی اور ہر ایک زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا۔ پانی کے بغیر زندگی کا یہ نظام کسی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ سمندر کرہ ارض پر زندگی کی بقاء کا بڑا ذریعہ ہے اور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، تاہم یہ نعمت دنیا کے ہر ملک میں میسر نہیں۔ دنیا میں 44 ایسے ممالک ہیں جو سمندر جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں برپا ہونے والی تیسری بڑی عالمی جنگ پانی کی وجہ سے ہوگی۔
سمندر دنیا کے 3 حصوں پر مشتمل ہونے کے ساتھ 50 فیصد آکسیجن فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ پانی کا یہ ذخیرہ جو حیات انسانی کے لئے بے حد ضروری ہے، زمین کے لئے دل اور پھیپھڑے کی مانند ہے۔ گلوبل وارمنگ اور دنیا بھر میں رونما ہوتی موسمی تبدیلیاں سمندروں کو ایک خاموش تباہی کی جانب لے کر جارہی ہیں۔ انسانی غفلت کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ قدرتی ذخیرہ آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دورحاضر میں پوری دنیا نیلی معیشت یا بلیو اکانومی سے مستفید ہورہی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے مقتدر حلقوں کی عدم دلچسپی کے باعث سمندری قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جارہا، جیسے کرنا چاہئے تھا۔
پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آبی اشیاء بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 45 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیر صفائی کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ، زہریلے کیمیکل وغیرہ ہے۔ پاکستان کی صنعتوں اور رہائشی علاقوں کا استعمال شدہ نصف سے زائد پانی سیوریج کے ذریعے ندیوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں بہایا جاتا ہے، جس سے سمندر آلودہ ہوتے ہیں، سمندری آلودگی سے آبی حیات بُری طرح متاثر ہوتی ہے، خاص طور پر سمندر سے حاصل ہونے والی خوراک، مچھلیاں، جھینگے، کیکڑے وغیرہ اس کے علاوہ سمندری نباتاتی حیات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے سمندر جیسی بڑی نعمت کو ہم نے کوڑا دان سمجھ لیا ہے۔ کراچی کا تقریباً 500 ملین گیلن آلودہ پانی سمندر میں جا رہا ہے۔ تقریباً 4 سے 5 ہزار ٹن سولیڈ ویسٹ (کوڑا) سمندر میں جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ماہی گیری کے غیرقانونی طریقے سمندر میں حیاتیاتی نوع کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2008ء میں باضابطہ طور پر ”عالمی یومِ بحر“ یا ”’ورلڈ اوشن ڈے“ منانے کا اعلان کیا۔ یہ دن 1992ء میں ”ریوڈی جینرو“ میں زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ کے تحت 2008ء سے ہر سال سمندر کے تحفظ کا شعور اُجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ عالمی یومِ بحر یا سمندروں کا عالمی دن ہر سال 8 جون کو ایک نئے عنوان کے تحت منایا جاتا ہے۔ اس سال کا عنوان ”سمندر اور ماحول کے لئے اقدامات میں تیزی“ ہے، جس کا مقصد ایسی بحری اور ماحولیاتی تبدیلیاں لانا ہے جن سے ہم اس زمین کو نہ صرف انسانوں بلکہ زیرآب مخلوق کے لئے بھی صاف اور شفاف بنا سکیں۔
اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت کو اُجاگر کرنا، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کو کم کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کُل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلومیٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لئے انتہائی اہم ہے۔ سمندری آلودگی نہ صرف ساحل پر مقیم انسانوں بلکہ سمندر میں موجود نباتات اور سمندری حیات کے لئے سنگین ہے۔
عالمی یوم بحر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پاکستان نیوی سمندری وسائل کے محفوظ اور دیرپا استعمال کے فروغ میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہے۔ وہ ”ورلڈ اوشن ڈے“ بہت جوش و خروش سے مناتی ہے اور اس دن کی مناسبت سے مختلف پروگرام ترتیب دیتی ہے، جس میں سیمینارز، ورکشاپس، ساحل سمندر اور بندرگاہوں کی صفائی، شجرکاری مہم، ماہی گیری میں ممنوع جال کے استعمال کی روک تھام، سمندر میں تیل سے پیدا ہونے والی آلودگی سے نمٹنے اور صنعتی برادری کے ساتھ ہم آہنگی وغیرہ شامل ہیں۔
دینا بھر میں بڑھتی ہوئی بحری تجارتی سرگرمیوں، بحری وسائل کے بے دریغ استعمال اور بحری آلودگی میں اضافے نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سطح سمندر کی اپنی اہمیت ہے پر زیرسمندر بھی ایک دنیا بستی ہے اور انسانی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے سطح آب کے ساتھ ساتھ زیر آب بھی آبی حیات، سمندری اور ماحولیاتی نظام تباہی کے دہانے پر ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک اس مسئلے پر سنجیدگی سے اقدامات کررہے ہیں جن میں میرین پروٹیکٹڈ ایریاز کا قیام، پلاسٹک مصنوعات سے پیدا ہونے والی آلودگی میں کمی، ماہی گیری کے بہتر طریقے اپنانا، گندے پانی کو صاف بنا کر مختلف کاموں کے لئے قابل استعمال بنانا، غیرقانونی ماہی گیری کی روک تھام، بحری آگہی کا فروغ اور عوام الناس میں اس حوالے سے زیادہ زیادہ شعور پیدا کرنا شامل ہیں۔
الغرض آلودہ سمندروں سے کرۂ ارض کے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے براہ راست منفی اثرات انسانی حیات پر پڑتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر سمندری تحفظ کو ذمہ داری جان کر اپنے دائرہ کار میں تبدیلی اور بہتری کے لئے کاوش کی جائیں تاکہ سمندری وسائل کے دیرپا استعمال اور تحفظ دونوں کو یقینی بنایا جا سکے۔

مطلقہ خبریں