Sunday, September 8, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ترکیب کارگر ثابت ہوئی۔۔

ڈاک خانے میں ایک بزرگ شخص ہرماہ اپنے بیٹے کے ساتھ پنشن کی رقم لینے آتے تھے
ظہیر انجم تبسم
یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب میں جی پی او، خوشاب میں ملازم تھا۔ ڈاک خانے میں ایک بزرگ شخص ہرماہ اپنے بیٹے کے ساتھ پنشن کی رقم لینے آتے تھے۔ وہ جب کمرے میں داخل ہوتے تو اُن کے لگائے ہوئے پرفیوم سے پورا کمرا مہک اُٹھتا جبکہ اُن کے صاف ستھرے لباس سے یوں محسوس ہوتا کہ اُن کا بیٹا خاص طور پر اُن کی حجامت کروا کر، نہلا دھلا کر انہیں ڈاک خانے لاتا ہے۔ رقم کی ادائیگی کے دوران وہ متانت سے کھڑے رہتے، لیکن اُن کے پُروقار چہرے پر چھائی اُداسی بہت کچھ کہتی تھی، جسے میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے اُن سے ہمدردی ہوگئی۔ ایک روز وہ آئے تو میں نے انہیں اپنے پاس بلا کر پوچھا، ”بزرگوار! پنشن تو 10 سال کی نوکری پر بنتی ہے جبکہ آپ کی پنشن بک پر 3 سال سروس درج ہے، تو پنشن کیسے بن گئی؟“ کہنے لگے، ”میں 7 سال جاپان کی قید میں رہا، وہ سات سال بھی سروس میں شمار ہوئے۔“ خیر، کچھ عرصے بعد میرا اُن کے گاؤں سے گزر ہوا، تو مکانات اور کھیتوں کے درمیان ایک گندی نالی کے اوپر خستہ حال چارپائی پر میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک بزرگ لیٹے نظر آئے، جن کی داڑھی بھی خاصی بڑھی ہوئی تھی۔ قریب جا کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی پنشنر ہیں، جو ہر ماہ صاف ستھرے لباس میں پنشن لینے آتے ہیں۔ میں نے سلام کیا، تو انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ اُن کی حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، ذہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگے، ابھی میں اُن سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ میرے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا کر کہنے لگے، ”بیٹا! جب میری پنشن آتی ہے، تو میرے بچّے پنشن کے حصول کے لئے مجھے صاف ستھرا لباس پہنا کر، موٹرسائیکل پر بٹھا کر ڈاک خانہ، خوشاب لے جاتے ہیں اور پنشن ملنے کے بعد گھر آکر ساری رقم ہتھیا لیتے ہیں، پھر پورا مہینہ میرا خیال رکھتے ہیں، نہ کوئی خدمت کرتے ہیں۔ میلے کچیلے کپڑوں میں یہاں بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں، میں شکایت کرتا ہوں تو جھڑک دیتے ہیں، محلّے والوں نے بھی کافی سمجھایا کہ باپ کی پنشن کھا جاتے ہو اور اُن کا خیال نہیں رکھتے، مگر وہ کسی کی نہیں سنتے، لہٰذا اب میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ اپنی اولاد کو ایسی سزا دوں گا کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔“
مجھے اُن کی حالتِ زار پر بہت افسوس ہوا، لیکن میں کیا کرسکتا تھا، ہمدردی کے رسمی جملے بول کر اور تسلّی دے کر بوجھل دل سے چلا آیا۔ پھر ایک دن اچانک مجھے اُن کی وفات کی اطلاع ملی۔ میں تعزیت کے لئے گاؤں گیا، مگر وہ تو زندہ سلامت، صاف ستھرا لباس پہنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا معاملہ ہے، میں نے استعجاب کے عالم میں حیرانی سے ان سے پوچھا، تو علیحدہ لے جاکر کہنے لگے، ”میں نے اپنے بچّوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے تنگ آکر آس پاس کے گاؤں اور مساجد میں اپنے انتقال کا اعلان کروا دیا تھا۔
ہمارے یہاں یہی رواج ہے، کسی کا انتقال ہوجائے، تو تین دن تک تمام مہمان تعزیت کے لئے آتے ہیں، اس دوران اُن کے کھانے پینے اور رات بسر کرنے کے لئے بستر وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ جب مَیں نے اپنی وفات کی جھوٹی خبر دی، تو اطلاع ملتے ہی پوری برادری جمع ہوگئی، جنہیں کھانا کھلانے کے لئے میرے بیٹوں نے کئی بکرے ذبح کئے۔
مجھے زندہ سلامت دیکھ کر برادری کے لوگوں نے مجھ سے اصل مسئلہ پوچھا، تو میں نے بتا دیا کہ ”بیٹے میری خدمت نہیں کرتے، انہیں سزا دینے کے لئے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔“ بہرحال، پوری برادری میں بیٹوں کی بے عزتی ہوئی اور انہوں نے پوری برادری کے سامنے آئندہ اپنے والد کی خدمت کرنے اور اُن کی پنشن اْن پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا۔
اس واقعے کے بعد بھی اکثر اُس گاؤں جانا ہوا، تو بابا جی کو درخت کے نیچے عمدہ چارپائی پر صاف ستھرے لباس میں بیٹھے دیکھ کر خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ کس طرح باباجی کی ترکیب سے اُن کی دیکھ بھال کے مسئلے حل نکل آیا۔

مطلقہ خبریں