پہلے الفت دل میں انساں کے جگاتی ہے زمیں
پھر مسلسل زندگی کو آزماتی ہے زمیں
حادثوں کی پرورش کرتی ہے خود ہی صبح و شام
آدمی کو روز آئینہ دکھاتی ہے زمیں
اختلافِ روز و شب کا تذکرہ چھڑتا ہے جب
وقت کا احساس لوگوں کو دلاتی ہے زمیں
غرق ہوتی جارہی ہیں کیسی کیسی ہستیاں
بے بسی کا ایک دلدل بنتی جاتی ہے زمیں
شکل مہر و ماہ کو آنکھیں دکھاتی ہے زمیں
کب کس مریخ کو خاطر میں لاتی ہے زمیں
سازِ وحشت چھیڑنے والے خدا کا خوف کر
نغمہئ تعمیر ہستی روز گاتی ہے زمیں
اے فریدیؔ دُکھ تو یہ ہے امنِ عالم کے بغیر
ابتدا سے نامکمل خود کو پاتی ہے زمیں
اسلم فریدیؔ