Sunday, September 8, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نیشنل کانفرنس

رابطہ فورم انٹرنیشنل اور ایریا اسٹیڈی سینٹر فار یورپ کے زیراہتمام
باہمی اعتماد ہوگا تو علاقائی تعلقات پر مثبت اثرات پڑیں گے، ڈاکٹر خالد عراقی، خطے کے ممالک سے تعلقات پر حالیہ بھارتی انتخابات کے نتائج کے اثرات پڑیں گے، مودی کا ہندوتوا ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، نجم الدین شیخ، تنازعات ختم کرکے خطے میں باہمی روابط کو بڑھایا جاسکتا ہے، نصرت مرزا، آر سی ڈی، سی پیک اور قراقرم پاکستان کی ریجنل کنکٹیویٹی کی کاوشوں کی زندہ مثالیں ہیں، قاضی ایم خلیل اللہ، سارک کے پلیٹ فارم سے جنوبی ایشیا کے ملکوں کو قریب لایا جاسکتا ہے، ڈاکٹر شائستہ تبسم، کانفرنس کا موضوع پالیسی میکرز کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد، ملکوں کے درمیان باہمی تجارت بڑھانے سے کشیدگی کم ہوگی اور خطے میں استحکام آئے گا، ڈاکٹر عظمیٰ شجاعت، پاکستان اور بھارت کے فلم میکرز خطے کے ملکوں کو قریب لاسکتے ہیں، حیا فاطمہ
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل اور ایریا اسٹیڈی سینٹر فار یورپ کے زیراہتمام انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے آڈیٹوریم میں نیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
Future Prospects of Regional Connectivity Through Dialogue in South Asia: Global and Strategic Perspectives
کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر خالد ایم عراقی نے کہا کہ معاشی ترقی کے ثمرات عام انسان تک پہنچنا ضروری ہیں، ہم نے آج تک صرف مختلف تنظیمیں بنائی ہیں جو عملی میدان میں نظر نہیں آتیں، اپنے ہمسایوں سے تنازعات حل کئے بغیر ترقی ممکن نہیں، عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے لیڈر کو اگر بڑا رسک اٹھانا پڑے تو بھی اسے ہچکچانا نہیں چاہئے۔
سابق سیکریٹری خارجہ سنیئر سفیر نجم الدین شیخ نے کہا کہ ہمیں انڈیا کے ساتھ اپنے بنیادی تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے راہ نکالنی ہوگی تب ہی ہم انڈیا کے ساتھ علاقائی رابطہ کی صحیح معنوں میں تکمیل کر پائیں گے، افغانستان کو باہمی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے تعلقات پاکستان کے ساتھ بہتر بنانا ہوں گے، اس مقصد کے لئے پاکستان کو بھی اپنی پالیسز پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے مقررین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ خطے میں موجود ممالک کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات قائم کرکے ہم جنوبی ایشیا کو ترقی کی نئی منازل تک لے جاسکتے ہیں۔ تجارت، معیشت، سیاحت اور اقتصادیات کے فروغ سے ان مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سی آئی ایس ایس ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سابق سفیر ریٹائرڈ قاضی ایم خلیل اللہ نے سیمینار کے پہلے سیشن کی صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کی بدلتی دنیا میں پاکستان کو حالات کے حساب سے اپنی اسٹریٹجیز کو لائن اپ کرنا ہوگا، اپنی جغرافیہ اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ آر سی ڈی (آر سی ڈی)، سی پیک (سی پیک) اور قراقرم پاکستان کی علاقائی رابطہ کی کاوشوں کی زندہ مثالیں ہیں۔
ڈین آف آرٹس فیکلٹی یونیورسٹی آف کراچی ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ سارک تنظیم نے علاقائی رابطہ میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جو مشترکہ ہے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے باہمی تعاون کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ انرجی کرائسس کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بھی علاقائی رابطہ ان مسائل کے حل کے لئے بنیادی جز ہے۔ کرتارپور کوریڈور پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں اٹھایا گیا ایک مثالی قدم ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان باہمی اعتماد اور بھروسے کی عدم موجودگی دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد نے نیشنل کانفرنس کے آخری سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ موضوع بہت اہم ہے، اس میں ماہرین نے جو نظریات پیش کئے ہیں اس سے ہمارے پالیسی سازوں کو رہنمائی مل سکتی ہے، خطے میں استحکام و ترقی کے لئے ملکوں کے درمیان باہمی روابط ضروری ہیں۔
ایریا اسٹیڈی سینٹر فار یورپ یونیورسٹی آف کراچی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمیٰ شجاعت نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہیں اور بھارت کے ساتھ جو تناؤ ہے خصوصاً کشمیر کے مسئلہ پر اس کا حل ضروری ہے۔
حبیب یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسدالرحمان نے برصغیر کے لئے معاشی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات کو ختم کرنا ہوگا، چین معاشی سرگرمیوں کے ذریعے خطے میں اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن اس سے پاکستان کی صنعت کو فروغ ملنا چاہئے۔
بحریہ یونیورسٹی کے عامر سلطان کا کہنا تھا کہ علاقائی روابطہ قائم کر نے کی بہترین مثال یورپی یونین ہے۔ 17 سے 19ویں صدی تک یورپ کے ممالک آپس میں جنگیں کرتے رہے لیکن پھر انہوں نے ترقی و خوشحالی کے لئے امن کا راستہ اپنایا، آج یورپ کے ممالک کی باہمی تجارت ان کی خوشحالی کا باعث ہے، اسی انداز میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کو بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ سارک کے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا جاتا تو امن بھی قائم ہوتا اور خوشحالی بھی آتی۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کے ڈاکٹر فیصل جاوید نے کہا کہ خطے میں روس اور چین بڑی طاقتیں ہیں، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے خطے کے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، اسی طرح روس اسلحہ کی برآمدات میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، اس نے بھی ایشیا اور یورپ کو جوڑنے کے لئے یوروایشین پالیسی (Eurasin Policy) اختیار کی۔ روس مغرب کی پالیسی سے اختلاف رکھتا ہے اسی لئے اس نے بھی BRICS اور مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے ملکوں کے درمیان باہمی روابطہ بڑھانے پر کام کیا ہے، گرم پانی تک پہنچنے کے لئے روس نے ایک پُرامن راستہ اختیار کیا، جس کے مثبت نتائج آنے لگے ہیں۔
حبیب یونیورسٹی کی حیا فاطمہ کا کہنا تھا کہ ملکوں کے درمیان ثقافتی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، میں ایک فلم میکر بھی ہوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم سے جو فاصلے بڑھے اسے باہمی بات چیت سے اور آرٹ کو فروغ دے کر کم کیا جاسکتا ہے، خطے میں امن ہوگا تو ترقی اور خوشحالی آئے گی۔
زیبسٹ کی ڈاکٹر سیدہ فضا بتول نے کہا کہ پاکستان خطے کے ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا اور یورپ کے درمیان باہمی ربط کو بڑھانے میں پاکستان قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے، پاکستان کے چین سے قریبی تعلقات ہیں اور روس سے روابط مثالی ہونے کی طرف گامزن ہیں۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے ریسرچ آفیسر سید سمیع اللہ نے نیوکلیئر توانائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے بھی ملکوں کو قریب لایا جاسکتا ہے، دیر پا اور سستا توانائی کا ذریعہ وقت کی اہم ضرورت ہے، پاکستان دیگر ذرائع کے ساتھ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ذریعے بھی توانائی کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

مطلقہ خبریں