گردش میں نہ ہوں کیوں یہ مُقدر کے ستارے
ہر ایک ہی میدان میں تُم نِکلے اُدھارے
اَب کیسے کوئی تُم پہ دِل و جان کو وارے
تُم میچ بھی کھیلو تو دُعاؤں کے سہارے
ہر آن قیامت تھی وہ اِک حشر سماں تھا
اِس کھیل کی خاطر جو لمحے بھی گذارے
بدنام کیا تُم نے جو شاہین پھر اِک بار
ہم کس کو کہیں جا کے یہ دِل کس کو پکارے
ہر بار ہی روئے ہیں ہم اِس بات پہ طاہرؔ
کوؤں سے بھی بد نکلے ہیں شاہین ہمارے
سید محمد طاہرؔ شاہ