Monday, September 16, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

روزناہ ”امت“ اور رفیق افغان

رفیق افغان ”امت“ کو آب و تاب کے ساتھ شائع کرتے رہے تاہم اس کے پیچھے جو مشکلات تھیں کم ہی لوگ جانتے ہیں
نصرت مرزا
روزنامہ ”امت“ ایک عوامی اخبار ہے، جو پاکستان میں بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس اخبار کا انداز، اس کے مضامین، اس کے رنگین صفحات کے تبصرے اور تجزیہ خصوصی توجہ کا باعث ہیں۔ زبان سلیس اور پُرکشش اور توجہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خبروں کا چناؤ اور اس کو نمایاں کرنا امت اخبار کا خاصہ ہے، یہ اخبار جناب رفیق افغان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس اخبار کے اجراء کے لئے جو کاوشیں کیں، وہ اپنے اندر جدوجہد اور جانفشانی کی ایک داستان ہے، جو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔ یہ اخبار مقبولیت کی اعلیٰ سطح کو چھو چکا ہے اور آج بھی جب اخبارات کو پڑھنے میں عوام کی دلچسپی کم ہوگئی ہے، تب بھی یہ اخبار اپنی مقبولیت کو کافی حد تک سنبھالے ہوئے ہے۔ رفیق افغان ایک اچھے ایڈیٹر، اچھے لکھاری اور افسانہ و واقع نگاری کے علاوہ کرداروں کی تخلیق کے ماہر تھے۔ وہ اس طرح سے کہانی سازی کرتے تھے، جیسے وہ حقیقت پر مبنی ہو۔ صلاح الدین مرحوم جو ایک معتبر ایک ہفت روزہ رسالہ ”تکبیر“ نکالتے تھے، جو پاکستان کے محب وطن حلقوں اور خصوصاً حکمرانوں اور یہاں تک کہ ہمارے حساس اداروں میں بہت مقبول تھا اور اس رسالے میں جو تحقیقی مواد ہوتا، سب لوگ اور ادارے اس کے لئے بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ایک دفعہ رفیق افغان نے اس رسالے میں ایک جاسوس کی کہانی اس تفصیل سے شائع کی کہ وہ کس ہوٹل اور کس کمرے میں ٹھہرا اور پھر اس نے کس کس سے ملاقات کی۔ ایسا لگا کہ یہ ساری کہانی بہت تحقیق کے بعد لکھی ہوئی ہے اور کیونکہ ”تکبیر“ ایک معتبر رسالہ تھا، اس لئے سب نے اس کو سچ جانا۔ اس کے شائع ہونے کے دوسرے دن اس وقت کور 5 کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش کا فون آیا کہ آپ صلاح الدین کے علم میں یہ بات لائیں کہ یہ صریحاً غلط ہے، جنرل بنگش صاحب صلاح الدین صاحب کو مجاہد کہا کرتے تھے اور میں ان کا احترام کرتا تھا اور ہمارے تعلقات بھی مخلصانہ اور قربت کے تھے، اس وقت جب ”تکبیر“ میں یہ چھپا تو صلاح الدین صاحب پاکستان میں موجود نہیں تھے، جب وہ آئے تو میں نے اُن کو پیغام دیا۔ انہوں نے رسالے میں اسٹوری پڑھی اور کہا کہ یہ رفیق افغان کا کام ہے، رفیق افغان، صلاح الدین صاحب کے داماد تھے اور ان کا کمرہ صلاح الدین صاحب کے کمرے کے قریباً ملحق تھا۔ مگر انہوں نے میرے سامنے تو کچھ نہ کہا البتہ بعد میں ضرور کہا ہوگا اور پھر ایسی افسانوی اسٹوری نہیں چھپی۔ اس کے سچ نہ ہونے کی بات الگ ہے البتہ اس سے ان کی صلاحیتوں کا ضرور اظہار کیا کہ وہ عوام الناس اور خصوصاً اپنے اخبار یا رسالے کے قاری کو مسحور کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کا پھر اظہار امت اخبار میں اُن کی تحریر میں ہوا، جو جامع ہوتی تھی اور پُرکشش بھی، وہ اپنے نام سے نہیں لکھتے تھے بلکہ انہوں نے قلمی نام رکھا ہوا تھا۔ میرا اور رفیق افغان کا احترام کا رشتہ تھا، میں محترم صلاح الدین کے دوستوں میں تھا تو وہ اُن کے داماد، تاہم ہمارے درمیان رابطہ آسانی سے ہوجاتا تھا۔ وہ مجھے احترام کے ساتھ جب چاہے فون کر لیتے تھے اور کوئی خاص اطلاع دینا ہوتی تو وہ مجھے دے دیتے تاکہ اس سے میں صلاح الدین صاحب کو مطلع کردوں۔ ایک انتہائی اہم واقعہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ صلاح الدین صاحب آج کے گلبہار کا علاقہ جو پہلے گولیمار کہلاتا تھا میں رہائش پذیر تھے اور اس وقت ایم کیو ایم الطاف حسین کی ریشہ دوانیاں اور اُس کا ظلم و ستم اور خون خرابہ عروج پر تھا۔ اُن دنوں ”تکبیر“ میں ایک مضمون چھپ گیا جو ذرا متنازع تھا، ”تکبیر“ ایم کیو ایم کے خلاف حقائق لکھنے سے ذرا نہیں ڈرتا تھا جبکہ اس وقت سارے اخبارات، رسائل و جریدے الطاف حسین نے یرغمال بنا لئے تھے۔ یہاں تک کے ”ڈان“ اخبار جس کے ایڈیٹر احمد علی خان جیسے شریف النفس انسان تک کی توہین کردی تھی۔ الطاف حسین کے کارندے ”تکبیر“ کے مقابلے میں بھی باز نہ آئے، ”تکبیر“ کی اپنی شان تھی وہ کبھی اُن کے دباؤ میں نہ آئے، اگرچہ وہ اُن کے اثرورسوخ میں مبتلا علاقہ میں رہتے تھے۔ جب مضمون چھپا تو اس وقت کی ایم کیو ایم نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے گھر پر حملہ کردیا اور گھر کو جلا دیا۔ میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ جنرل عارف بنگش کا فون آیا کہ مجاہد کا گھر جلا دیا گیا ہے، میں نے پوچھا صلاح الدین کدھر ہیں، انہوں نے کہا وہ تو گھر پر نہیں تھے البتہ اُن کی بیگم اور بچے اپنی چھت سے دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ ان کو حفاظت سے لانے کا بندوبست کرسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم ایسا کررہے ہیں۔ چنانچہ میں نے فون کرکے صلاح الدین صاحب سے بات کی ان کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد وہ ڈیفنس میں اپنے ایک دوست کے بنگلے میں شفٹ ہوگئے۔ جب وہ رہائش پذیر تھے تو ایک روز مجھے رفیق افغان صاحب کا فون آیا کہ صلاح الدین صاحب کی جان کو خطرہ ہے۔ آج رات پولیس کے بھیس میں کچھ دہشت گرد آئیں گے یا گھر کے اندر بلائیں گے یا خود باہر جائیں گے تو اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جائے گی۔ میں نے کہا کہ آپ یہ بات صلاح الدین صاحب کو بتا دیں تو انہوں نے کہا کہ وہ میری بات نہیں مانیں گے، شاید آپ کی بات مان لیں، میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ اطلاع مصدقہ ہے تو انہوں نے ذریعہ بتا دیا۔ میں ڈیفنس خیابان سحر پر رہتا تھا اور اُن کا قیام خیابان شمشیر کی آخری گلیوں میں سے ایک میں تھا۔ کوئی دس منٹ میں اُن کے گھر پہنچا اور اُن کو صورتِ حال سے آگاہ کرکے میں نے اُن کو اپنے گھر چلنے کو کہا، انہوں نے کہا کہ گرفتاری سے نہیں ڈرتا، اگر گرفتار کرنے آئے تو میں گرفتاری دے دوں گا۔ اُن کو سمجھایا گیا کہ نہ وہ پولیس والے ہوں گے اور نہ ہی وہ گرفتار کرنے آرہے ہیں بلکہ وہ گولیوں سے آپ کے جسم کو چھلی کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال کافی بحث و مباحثہ کے بعد وہ میرے ساتھ میرے گھر ایک رات قیام پر راضی ہوئے تھے۔ رات میرے گھر قیام کیا اور وہ دہشت گرد، صلاح الدین صاحب کو گھر نہ پا کر مایوس ہو کر چلے گئے۔ وہ بڑا خراب دور تھا، اندھیر نگری چوپٹ راج والا۔ دوسرا واقعہ بھی اُن کے اس مضمون سے متعلق تھا، ایم کیو ایم نے اس ناکامی کے بعد عام ہڑتال کی کال دے دی کہ صلاح الدین نے ان کے مقابلہ میں مداخلت کی۔ اس کا توڑ میں نے یہ کیا کہ تمام بریلوی علمائے کرام کو اپنے گھر میں احترام کے ساتھ دعوت دی اور صلاح الدین صاحب بمعہ رفیق افغان کے میرے گھر جمع ہوئے۔ صلاح الدین صاحب نے اپنا موقف پیش کیا، علمائے کرام نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ میری کاوش سے ایک معاہدہ طے پا گیا، اس مو قع پر علمائے کرام صلاح الدین صاحب پر برہم تھے جس پر رفیق افغان نے صلاح الدین صاحب کے حق میں بولنا چاہا تو منع کردیا کہ جب علمائے کرام ہیں ان کے سامنے نہ بولا جائے۔ میں نے وہ معاہدہ لکھا اور روزنامہ ”جنگ“ کی دوسرے روز سپر لیڈ تھی، جس کی وجہ سے جو ہڑتال ہونا تھی وہ رک گئی اور خون بہنے سے بھی بچ گیا، ورنہ خدشہ تھا کہ 20/25 آدمی بے گناہ مار دیئے جاتے۔
رفیق افغان صاحب روزنامہ ”امت“ آب و تاب کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ تاہم اس کے پیچھے جو مشکلات تھیں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ مگر وہ صلاح الدین صاحب کے نقش قدم پر چلتے رہے اور حق و صداقت کا علم بلند کرتے رہے۔ اُن کے انتقال سے دو سال پہلے مجھے ان سے کافی لگاؤ ہوگیا تھا اور شاید 2019ء میں ہمارے مشترکہ دوست طارق شاداب کے ساتھ اُن کی دعوت پر اُن سے ملنے گیا، یہ تین چار گھنٹے کی ملاقات تھی مگر اس ملاقات میں اس تمام عرصے کے حالات واقعات، مشکلات، رکاوٹیں، خوشیاں اور کامیابوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ کچھ اطمینان ہوا، اس ملاقات میں انہوں نے مجھے امت اخبار میں کالم لکھنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کرلی، ان کے انتقال سے پہلے اور اس کے بعد بھی امت اخبار میں لکھتا رہا ہوں اور اب جب لکھنے کی خواہش ہوتی ہے لکھ دیتا ہوں۔ ایک روز طارق شاداب نے مجھے بتایا کہ اُن کی حالت بگڑ گئی اور ساؤتھ سٹی اسپتال میں داخل ہیں، ہم سب کے دوست حنیف خان اُن کے ہمراہ ہیں۔ میں نے اُن سے ملنے کی خواہش کی تو عمر اور کرونا کی صورتِ حال دیکھ کر منع کردیا اور ایک دن وہ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ جو افتاد اس خاندان پر خصوصاً حمزہ رفیق افغان کو امت اخبار سنبھالنے میں لگی، الگ داستان ہے مگر ستائش اُن کو اور اُن کی والدہ کو جہنوں نے بالآخر صورتِ حال پر قابو پا لیا۔ آج بھی امت اخبار آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے، صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ کئی شہروں میں۔ جہاں میں رفیق افغان کی مغفرت کی دعا کئی مرتبہ کے بعد اس بار بھی کررہا ہوں وہاں میں حمزہ رفیق افغان اور امت اخبار کی کامیابی کی بھی اللہ کے حضور دعا گو ہوں۔

مطلقہ خبریں