جو دانا ہے، وہ سودائی نہیں ہے
مگر یہ کوئی دانائی نہیں ہے
وہاں تک تو ہمارے ساتھ چلئے
جہاں تک خوفِ رُسوائی نہیں ہے
تْمہیں بھی ہے اگر دعویٰ وفا کا
تو پھر کوئی بھی ہرجائی نہیں ہے
وہ آئینے اُٹھائے پِھر رہے ہیں
سِرے سے جن کی بینائی نہیں ہے
بہت سستے میں انساں بِک رہے ہیں
ہمارے ہاں تو مہنگائی نہیں ہے
غزل کہتے زمانہ ہو گیا ہے
غزل کہنی مگر آئی نہیں ہے
کہاں کے شہر، قصبے، گاؤں نصرتؔ
مِرا تو گھر بھی آبائی نہیں ہے
نصرت ؔصدیقی