Friday, October 18, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قائداعظم اور تخلیقِ پاکستان

پاکستان کا حصول جہاں قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور اعلیٰ سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا، وہیں اس بے مثال قومی یکجہتی کا بھی مظہر تھا، جس کی تعلیم قائداعظم اپنی قوم کو دیا کرتے تھے
خواجہ رضی حیدر

بانی پاکستان، قائداعظم، محمّد علی جناح فکر تدبّر اور فہم وفراست کا مجسمہ تھے۔ آپ کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ جو اقدام کرتے، اُس پر پہلے اچھی طرح غور و فکر کرتے اور پھر اُسے عملی صورت دیا کرتے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران متعدّد مواقع پر آپ نے فیصلوں میں تاخیر کا مظاہرہ کیا، جس سے جزوی طور پر مسلمانوں میں مایوسی بھی پیدا ہوئی، لیکن جب انہوں نے فیصلے کا اعلان کیا، تو سب نے اُن کے تدبّر اور فراست کی داد دی۔ خصوصاً 1928ء میں ”نہرو رپورٹ“ کے موقع پر قائداعظم کی طویل خاموشی مسلمانوں کے لئے تشویش کا باعث تھی۔ اس دوران اکتوبر 1928ء میں انگلستان سے واپسی پر جب اخباری نمائندوں نے اُن سے ”نہرو رپورٹ“ پر اظہارِ خیال کے لئے کہا، تو انہوں نے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ ”ابھی مجھے اس رپورٹ کے تفصیلی مطالعے کا وقت نہیں ملا ہے۔“ لیکن اُنہوں نے اس موقع پر مسلمانوں سے اپیل کی کہ ”وہ پریشان نہ ہوں اور متحد رہیں، کیوں کہ مسائل حل ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔“ پھر 31 دسمبر 1928ء میں کلکتہ میں منعقدہ ”آل پارٹیز کنونشن“ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آئینی اور قانونی طور پر نہرو رپورٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور واضح طور پر کہا، ”نہرو رپورٹ کو جناح کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی تائید کی ضرورت ہے۔ اگر اقلیتوں کا مسئلہ آج حل نہیں کیا گیا، تو اسے کل تو لازماً حل کرنا پڑے گا۔ ہندو اور مسلمان اِسی ملک کے باشندے ہیں۔ اگر ان کے درمیان باہمی اختلافات ہیں بھی، تو ان اختلافات کی وجہ سے دشمنی اور عداوت مول نہ لیجئے۔ اگر وہ باہم اتفاق اور یگانگت پیدا کرنے سے معذور ہیں، تو کم اَز کم اتنا تو کریں کہ دشمنوں کی مانند ایک دوسرے کا سَر پھوڑ کر نہیں، بلکہ دوستوں کی طرح آپس میں مصافحہ کرکے جدا ہوں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد اور متفق دیکھنا، میری زندگی کی ایک بڑی آرزو ہے۔ اس اتحاد کے راستے میں کسی منطق، ناانصافی اور کسی کشمکش کو حائل نہ ہونے دیں۔“ اس دردمندانہ اپیل کے باوجود، کانگریس کی ہندو قیادت نے قائداعظم کی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے ”نہرو رپورٹ“ کی، جس میں مسلمانوں کے آئینی حقوق کو نظرانداز کردیا گیا تھا، منظوری دے دی۔ مسلمانوں کے مسائل اور مطالبات کے سلسلے میں ہندو قیادت کا رویّہ ہمیشہ ہَٹ دھرمی اور ناانصافی پر مبنی رہا، جس کی بنا پر مسلمانوں کے ہاں یہ خیال تقویت پکڑتا چلا گیا کہ ”مسلمانوں کو اپنے حقوق اور مفادات کے تحفّظ کے لئے ایک علیحدہ مسلم ریاست تشکیل دینا پڑے گی“۔ آل پارٹیز کنونشن سے واپسی پر قائداعظم نے اپنے ایک دوست سے فرمایا، ”آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہورہے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی باہم متحد نہیں ہوں گئے۔“ قائداعظم کا یہ تجزیہ ایک پیش گوئی ثابت ہوا اور مارچ 1940ء میں مسلمانانِ ہند نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ نہ صرف پیش کیا، بلکہ اس مطالبے کی منظوری کے لئے من حیث القوم خود کو وقف کردیا۔ قائداعظم نے اپنے تجربے کی روشنی میں ہمیشہ کانگریس کو ایک ہندو جماعت قرار دیا اور کانگریس بھی برابر اپنے ہندو جماعت ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہی۔ قائداعظم نے اپنے اسی مشاہدے کی روشنی میں جون 1940ء میں وائسرائے ہند سے واضح طور پر کہا کہ ”آئندہ جو بھی دستوری خاکہ مرتّب کیا جائے، اُس میں دو خودمختار آزاد ریاستوں کا اصول شامل کیا جائے۔“ اسی اصول کی بنیاد پر قائداعظم نے مارچ 1946ء میں برطانیہ کے وزیراعظم کو ایک خط میں لکھا ”ہندوستان کے مسلمان، ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام چاہتے ہیں اور یہی ہندوستان کے آئینی مسئلے کا واحد حل ہے۔“
بانی پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح نے حصولِ پاکستان کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں کی مرحلہ وار سیاسی تربیت کی۔ اگر ہم اُن کی 1937ء سے 1947ء تک کی سیاسی زندگی دیکھیں، تو اُن کی تقاریر اور بیانات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قائداعظم کے ذہن میں ابتدا ہی سے مسلمانوں کی آخری منزل تھی۔ 1934ء میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی، بلکہ مسلمانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ متحد ہوجائیں اور کسی حتمی لائحہئ عمل کے لئے تیار رہیں۔ فروری 1936ء میں انہوں نے لاہور میں ایک تقریر کے دوران مسلمانوں سے کہا، ”میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ سکون اور امن سے رہیں اور میری کوششوں میں مجھ سے تعاون کریں تاکہ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ آپ کی خدمت کرسکوں۔“ 1937ء میں ایک موقع پر انہوں نے فرمایا، ”اِس وقت پورے ہندوستان میں مسلم یکجہتی کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ قومی اصولوں پر یقین رکھتی ہے، اس لئے وہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے مسلم حقوق کا تحفّظ چاہتی ہے۔“ فروری 1940ء میں ”اینگلو اورینٹل کالج، دہلی“ میں ایک تقریر کے دوران فرمایا، ”جب میں یہ محسوس کروں گا کہ مسلمان جدوجہد کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں، تو پھر انہیں آگے بڑھنے کا حکم دوں گا۔ کسی پر بھی انحصار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں اپنی قوّت پر انحصار کرنا ہے۔“ قائداعظم محمّد علی جناح کی مسلسل حوصلہ افزائی اور سیاسی تربیت کے نتیجے میں مسلمانوں نے 23 مارچ 1940ء کو ایک علیحدہ خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ بعد میں یہ مطالبہ ”مطالبہئ پاکستان“ کے نام سے معروف ہوا اور اس مطالبے کو منظور کروانے کے لئے مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ 3 نومبر 1940ء کو قائداعظم نے ممبئی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”مجھے اُمید ہے کہ مسلمان یہ بات ذہن نشین کرلیں گے کہ وہ اقلیت نہیں ہیں، وہ ایک قوم ہیں اور اس لحاظ سے ہمارا ایک علاقہ اور ایک علیحدہ ملک ہونا چاہئے۔“ دسمبر 1940ء میں ممبئی ہی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”کسی بھی فرقے یا قوم کی طاقت کا انحصار تین چیزوں پر ہوتا ہے (1) تعلیم، (2) ترقّی یافتہ تجارت اور (3) شجاعت۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان اوصاف سے خود کو لیس کرلیں۔“ 3 جنوری 1941ء کو اُنہوں نے فرمایا، ”میں نے آج تک پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں سُنی۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے قیام سے ہندوستان کی فضا اور صورتِ حال مزید بہتر ہوجائے گی۔“ مارچ 1941ء میں کانپور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”پاکستان کا قیام بہت ضروری ہے۔ اس بات پر جس قدر اصرار کیا جائے، کم ہے۔“ جنوری 1942ء میں کلکتہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”گزشتہ دو صدیوں کے دوران مسلمانوں نے بہت کچھ کھویا اور سختیاں برداشت کیں، لیکن اب کھوئی ہوئی چیزوں کو واپس لینے کا وقت آگیا ہے۔ وقت ہمارے دعوے کی صداقت کا ثبوت دے گا۔“

پاکستان کا حصول جہاں قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور اعلیٰ سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا، وہیں اس بے مثال قومی یکجہتی کا بھی مظہر تھا، جس کی تعلیم قائداعظم اپنی قوم کو دیا کرتے تھے۔ انہوں نے بار بار مسلمانوں سے فرمایا ”ہماری نجات ہمارے مکمل اتحاد، باہمی اتفاق اور نظم و ضبط میں ہے، ہم امنِ عالم کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ حکمتِ عملی، تمام اقوام کے لئے بہت دوستانہ ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت کسی منظّم قوم کے درست فیصلے کی مزاحمت نہیں کرسکتی۔“ 30 اکتوبر 1947ء کو انہوں نے یونیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ”کوئی قوم ابتلا اور ایثار کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ ہم شدید دشواریوں اور ناگفتہ بہ مصائب میں گِھرے ہوئے ہیں۔ ہم خوف اور اذیّت کے تاریک ایّام سے گزرے ہیں، لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اتحاد، حوصلے، خوداعتمادی اور اللہ کی تائید سے کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔“ قائداعظم محمد علی جناح ہر مشکل مرحلے پر اپنی قوم کا حوصلہ بڑھاتے رہے، اس کے اندر عزم اور یکجہتی کی روح پھونکتے رہے، کیوں کہ اُن کا ایمان تھا کہ ہم جس قدر عظیم قربانیاں دیں گے، اُسی قدر بہتر عمل اور کردار کا مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتوبر 1947ء کو اُنہوں نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا، ”آپ سب کے لئے میرا پیغام اُمید، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ آئیے ہم باقاعدہ اور منظّم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کریں اور درپیش سنگین مسائل کا ایسے عزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریں، جو ایک عظیم قوم کا وتیرہ ہوتا ہے۔“ 30 اکتوبر 1947ء کو ریڈیو پاکستان، لاہور سے نشر ہونے والی تقریر میں قائداعظم نے فرمایا، ”ایک متحد قوم کو، جس کے پاس ایک عظیم تہذیب اور تاریخ ہے، کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ کام، کام اور کام کریں۔ آپ یقیناً کامیاب ہوں گے۔ اپنا نصب العین یعنی اتحاد، ایمان اور تنظیم کبھی فراموش نہ کیجئے۔“ 8 نومبر 1947ء کو اُنہوں نے ایک بیان میں فرمایا، ”میں چاہتا ہوں کہ باوجود اُن خطرات کے، جو ہمیں درپیش ہیں، آپ سب کامل اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کا وقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کئے ہوئے ان خطرات کے درمیان سے کامیابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔“
بانی پاکستان محمد علی جناح کی سیاسی جدوجہد، اُن کا عزمِ صمیم، دردمندی اور تدبّر و حکمت کے پیشِ نظر اکثر سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے یہ بات کہی ہے کہ ”قائداعظم محمد علی جناح بیس ویں صدی کی ملّتِ اسلامیہ اور خصوصاً برّصغیر کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام تھے۔“ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جب کسی قوم کی تقدیر بدلنا ہو اور اسے دیگر اقوام کے مقابلے میں سربلندی و سرفرازی کے مقام پر پہنچانا ہو، تو وہ اُس قوم میں ایسے باکمال اور بلند مرتبت انسان پیدا کرتا ہے، جو اپنی جرأت و ہمّت، تدبّر و خلوص اور اصابتِ رائے سے اُس قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور وہ قوم، زندہ اقوام میں ایسا مقام حاصل کرلیتی ہے، جس پر دُنیا رشک کرتی ہے۔ بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح بھی ایک ایسے ہی انسان تھے، جنہوں نے مایوسی اور نااُمیدی کی فضا میں عزم و حوصلے کا چراغ جلایا اور اپنی لیاقت و ہمّت، معاملہ فہمی، استقامت اور استقلال سے ایک ایسی مملکت وجود میں لانے کا عظیم کام سرانجام دیا، جو آج بھی بین الاقوامی اُمور میں اپنا ایک اہم وجود رکھتی ہے۔ قائداعظم کے نزدیک پاکستان کا قیام، ملّتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کی سمت میں ایک اوّلین قدم تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد پورے عالمِ اسلام کو متحدومنظّم کرکے اس کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ اُن کی تقاریر، بیانات اور مختلف تحریروں سے ثابت ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا، ”یاد رکھئے کہ قیامِ پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی تاریخِ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاریخِ عالم کی عظیم ترین مسلم مملکتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا شاندار کردار ادا کرنا ہے۔ صرف شرط یہ ہے کہ ہم دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔ مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے کہ وہ ہر موقع پر خود کو اسلامی تاریخ، عظمت اور روایات کا امین ثابت کرے گی۔“ قیامِ پاکستان کو 77 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران ہم نے قائداعظم کی ہدایت اور خواہش کے مطابق قومی اور بین الاقوامی امور میں کیا وہی کردار ادا کیا، جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے تھے؟ اس سوال پر ہمیں بہ حیثیت قوم ضرور غور کرنا چاہئے۔

مطلقہ خبریں