پاکستان کو گزشتہ 6 سال سے سخت معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں سیکیورٹی کے نئے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ معاشی مشکلات تو بتدریج ختم ہوجائیں گی لیکن مغربی سرحد پر سیکیورٹی کے مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ان سے نمٹنے کے لئے بروقت حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی تو یہ آہستہ آہستہ مشکل ہوتے جائیں گے۔ ہمیں طالبان حکومت سے بیٹھ کر بات کرنا ہوگی کہ وہ پاکستان سے مزید کیا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان سفری پالیسی کو عالمی قوانین کے مطابق ترتیب دے رہا ہے تو اس میں افغانیوں کے لئے کیا مشکل ہے۔ ایک ملک کے شہری کسی دوسرے ملک میں علاج، کاروبار یا کسی اور وجہ سے جاتے ہیں، تو انہیں ویزا اور سفری دستاویزات کی مکمل پابندی کرنا ہوتی ہے۔ بھارت اور نیپال میں دیرینہ تعلقات کے باوجود آنے جانے کے لئے ویزا اور سفری دستاویزات کا ہونا لازمی ہے۔ یہی کچھ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہے۔ اس پر نہ تو نیپال، بنگلہ دیش اور نہ بھارت کو کو ئی اعتراض ہے اور نہ ہی ان ملکوں کی جھڑپ ہوتی ہے۔ افغانیوں کو سرحدی تقسیم کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ڈیورنڈلائن کو نہ ماننا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب روس اور اس کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت پاکستان ہی ان کے کام آیا۔ اس کی سرحدوں کو افغان پناہ گزنیوں کے لئے کھول دیا گیا تھا۔ افغانیوں کی جس انداز سے پاکستان نے مدد کی ہے اس کی نذیر ملنا مشکل ہے۔ آج افغان طالبان ملک کے حکمران بنے بیٹھے ہیں، تو اس میں کلیدی کردار پاکستان کی بے لوث حمایت کا ہے۔ طالبان کی جو قیادت دوحہ مذاکرات میں شریک رہی ہے، وہ امریکی بمباری کی نذر ہوچکی ہوتی اگر پاکستان ان کی جان بچانے اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کروانے میں سہولت نہ دیتا۔ کوئٹہ شوریٰ تو سب کو یاد ہوگی، جنگ کے زمانے میں طالبان قیادت کوئٹہ میں بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دیتی رہی ہے۔ افغان طالبان کو یہ سب یاد رکھنا چاہئے، تحریک طالبان پاکستان کو روکنے اور کنٹرول کرنے میں انہیں فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف کارروائی کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ پاکستان بار بار اپنی شکایات اور احتجاج ریکارڈ کروا رہا ہے۔ ورنہ پاکستان کے لئے سرحدپار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ایئر اسٹرائیک کے ذریعے ایک بھرپور آپریشن کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان اپنے برادر دوست ملک کی سرحدی حدبندی کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا۔ کابل حکومت کو اپنے رویے میں نظرثانی کرنا ہوگی۔ اپنے فیصلوں سے رجوع کرنا ہوگا۔ 22 جولائی کو دیر کی سرحد سے افغانستان میں بیٹھے دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر دراندازی کی کوشش کی۔ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے تین دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ اس سے قبل اپریل میں بھی دہشت گردوں نے سرحدی خلاف ورزی کی اور 30، 31 دسمبر 2023ء کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ پاکستان نے رواں سال 17، 18 مارچ کی درمیانی
شب میں افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ آئندہ بھی پاکستان اپنی سالمیت کے لئے ایسی کارروائی کرسکتا ہے۔ افغان طالبان کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اپنی سرحد پر لڑائی چاہتے ہیں یا امن کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں۔ دوحہ معاہدے پر پاکستان کے شدید تحفظات ہیں کیونکہ اس کے کچھ پوشیدہ نکات ہیں، جو خطے کے امن کے لئے خطرناک ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان امن کے لئے کابل حکومت کے ساتھ مثبت رویے سے پیش آتا رہا ہے اور افغانستان میں استحکام کے لئے ہرممکن تعاون کررہا ہے۔ اس کے جواب میں کابل حکومت کو بھی مثبت رویے کا اظہار کرنا ہوگا۔ جرمنی میں پاکستانی قونصلیٹ پر افغان شہریوں کا حملہ بھی افسوسناک ہے۔ اگر پاکستان بھی اسی انداز میں جواب دینے پر اتر آیا تو کسی ملک میں افغان سفارتخانہ محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ افغان حکومت یاد رکھے کہ اس کے ترجمان پاکستان پاسپورٹ پر سفر کرتے رہے ہیں۔ افغان حکومت کو گزشتہ 2 عشروں کے حالات کا ازسرِنو جائزہ لینا ہوگا۔ ہمارے پالیسی سازوں کو بھی افغانستان سے متعلق پالیسی پر غور کرنا ہوگا۔ پاکستان کو اس کے ساتھ معاشی مسائل کا سامنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے ساتھ ادائیگیوں کے نظام کو بحال رکھنا ہے۔ آئی ایم ایف کے 37 ماہ کے لئے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کو حاصل کرنے کے لئے امریکا کے علاوہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا تعاون درکار ہے۔ 23 مارچ 2018ء کو پیپلز بینک آف چائنا نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے 2 ارب ڈالر کا قرضہ دیا تھا، اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسٹیٹ بینک میں بالترتیب 2 اور ایک ارب ڈالر ڈیپازٹ کروایا تھا۔ ہر سال اس قرض کو پاکستان کی درخواست پر رول اوور کیا جاتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ رواں سال مارچ میں اس قرض کو واپس کرنا تھا لیکن 29 فروری 2024ء کو اس پر دوست ممالک سے مذاکرات ہوئے اور رول اوور کروایا گیا۔ رواں سال تینوں ملکوں کے 9 ارب ڈالر کو رول اوور ہونا ہے۔ اس سال پاکستان کو 20 ارب 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے۔ مختلف پروجیکٹس کی فناسنگ کی مد میں 10 ارب 70 کروڑ ڈالر آنے کی امید ہے لیکن اس کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا زرمبادلہ پاکستانی معشیت کے لئے آکسیجن ہے، جو بیرون ادائیگیوں کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔ بیرونی قرضوں کا 44 فیصد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلمنٹ بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کا ہے۔ ان قرضوں کو رول اوور نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کمرشل بینکوں کا قرضہ 14 فیصد ہے، اسے بھی رول اوور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ادائیگی لازمی ہے۔ پاکستان کے لئے ان قرضوں کی واپسی اور سود ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے مزید قرض لینا ہوگا۔ حکومت آئی ایم ایف کا پیکیج حاصل کرنے کے لئے ٹیکس کی شرح بڑھا رہی ہے۔ بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کررہی ہے۔ ساتھ ہی آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی عوام پر ڈال رہی ہے، جس سے اندرون ملک بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اس پر حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے نتیجہ خیز مذاکرات کرنا ہوں گے۔ ورنہ حالات اتنے بگڑنے کے امکانات ہیں، جو سوچے بھی نہیں جاسکتے۔ پالیسی سازوں کو سیکیورٹی اور معاشی پالیسیوں کے باہمی رابطہ کو سمجھنا ہوگا۔ ملک کو گرداب سے نکالنے کے لئے ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جس کے اثرات عام آدمی تک منتقل ہوں۔ پاکستان کو زرعی اور صنعتی شعبے کی جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ زراعت گزشتہ سال کی نسبت تیز ہوئی ہے۔ صنعت کو بھی بڑھانا ہوگا، اس کے لئے بجلی کے نرخ کم اور پیداوار کی لاگت بڑھنے کے دیگر عوامل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کی اشرافیہ کو شاہانہ انداز چھوڑنا ہوگا۔ ورنہ جو کچھ آج معاشی گرداب میں گھرے ملک سے وصول کررہے ہیں، اس سے تو ہاتھ دھونا ہی پڑیں گے، ساتھ ہی سب کچھ کا حساب بھی دینا ہوگا۔