Wednesday, January 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یوم تکبیر 28 مئی 1998ء کے یادگار موقع پر سینٹر انٹرنیشل اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (CISS) کے زیراہتمامگول میز کانفرنس

پاکستان کا ایٹمی پروگرام 1998ء سے: مواقع، چیلنجز، جوابات اور مستقبل کی راہ کے موضوع پر
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نشانِ امتیاز، ہلالِ امتیاز، ہلالِ امتیاز (ملٹری) مشیر برائے ترقیات نیشنل کمانڈ اتھارٹی، اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن (SPD) کا دوسرے دور کے ایٹمی پروگرام کے ارتقاء کی تاریخ اور اس کی اہمیت پر خطاب
خطاب کے چند اہم نکات
٭….بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو بے اثر کرکے اس کو بے بسی کا احساس دلانا۔
٭….شاہین III اور MIRV جیسے میزائلوں کی موجودگی سے بھارت کے تمام علاقہ جات پاکستان کے مختلف ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں آجانا۔
٭….مجموعی طور پر پاکستان کے پاس ایک زبردست بڑی مقدار کی خوفناک اور دشمن کو ڈراوا دینے والی جوہری طاقت NCA/SPD کا دستیاب ہونا جو پاکستان کے خلاف دشمن کو جنگ کے مؤثر انداز میں پہلے اور دوسرے حملے سے روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
٭….پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا مکمل اسپیکٹرم تین زمروں میں موجود ہے: اسٹرٹیجک، عملیاتی اور ٹیکٹیکل، وسیع بھارتی زمین کا چپہ چپہ اس کی مکمل زد میں ہے۔ جس نے بھارت کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے لئے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے۔
٭….پاکستان کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں خاص طور پر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو ”امن کے ہتھیار“ کہا جائے گا۔
٭….جنوبی ایشیائی اسٹرٹیجک توازن کی موجودہ حقیقت کے خلاف بھارت کے سیاسی، فوجی اختیارات کے بتدریج خاتمے اور پسپائی کو دیکھا جائے تو مجھے مضحکہ خیز یا خیالی پلاؤ بنانے والا لگتا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور دفاعی وزیر راج ناتھ سنگھ یہ دھمکی دیتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا پیچھا کرے گا۔
٭….بھارت اور پاکستان اس منطق کو چیلنج کرنا نہیں چاہیں گے یعنی بد ترین قسم کی باہمی یقینی تباہی (ایم اے ڈی) کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ ایم اے ڈی کی غیرمنطقی منطق جنوبی ایشیا کے لئے اتنی ہی متعلقہ ہے جتنی یورپ اور اٹلانٹک کے پار۔
٭….پاکستان کی ایٹمی اسلحہ کے پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی نہیں ہے۔ بھارتی قیادت کو شاید اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھی شک نہیں ہونا چاہیے، دوست یا دشمن، کہ پاکستان کی عملی طور پر تیار ایٹمی صلاحیت ہر پاکستانی رہنما کو یہ آزادی، وقار اور حوصلہ دیتی ہے کہ وہ بھارتی آنکھ میں آنکھ ڈالے اور کبھی پلک نہ جھپکائے۔
خطاب کا مکمل متن
لیفٹیننٹ جنرل مظہر جمیل صاحب، سفیر علی سرور نقوی صاحب، خواتین و حضرات۔ السلام علیکم
سینٹر انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز (سی آئی ایس ایس) نے مجھے 26 ویں یومِ تکبیر کے موقع پر گفتگو کرنے کی دعوت دی، جو میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ تمام پاکستانی 28 مئی اور 30 مئی 1998ء کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے یہ دو دن اور حساس تاریخیں ہیں۔ ان دونوں تاریخوں پر پاکستان کے ذہین سائنسدانوں اور انجینئروں کے ذریعہ کئے گئے ایٹمی تجربات جنوبی ایشیا میں اسٹرٹیجک توازن کے مضبوط قیام کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس وقت تک پاکستان اس کی صلاحیت سے دور تھا۔ ایک خفیہ ایٹمی صلاحیت، جس کا سفر 1972ء میں شروع ہوا تھا، ان دنوں میں دنیا کے سامنے ایک کھلی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کے طور پر اعلان کیا گیا، خاص طور پر ہمارے مشرقی مخالف کے لئے تاکہ وہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اسٹرٹیجک توازن کی بحالی اور روایتی عدم توازن کی تلافی پر غور کریں۔
سی آئی ایس ایس کی جانب سے منتخب کردہ موضوع: 1998ء کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام: مواقع، چیلنجز، جوابات اور مستقبل کی راہ، ایک طرف چیلنجنگ اور دوسری طرف بہت زیادہ چیلنجنگ نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے چیلنجنگ ہے کیونکہ یہ 25 سال پہلے کے واقعات اور مسائل کی میری یادداشت کی صلاحیتوں کا ایک امتحان ہے اور بہت زیادہ چیلنجنگ اس لئے نہیں ہے کیونکہ ایک بار یاد آنے پر، چیزیں میرے ذہن میں کافی وضاحت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ یہ سب میری نگرانی میں ہوئی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر ہمارے اپنے اقدام پر اور ہماری اپنی SPD میں میرے 15 سال سے زیادہ کی طرف سے مجھ پر ڈالے گئے چیلنج میں سے یہ ہے کہ سب کچھ ہماری طے کردہ عمل، کاوشوں اور ہماری توجہ کے ساتھ ہوئی ہیں۔ تاہم حقیقی چیلنج، یہ ہے کہ ان سب کو 30 منٹ کے اندر سمیٹوں۔ اس چیلنج سے نمبردآزما ہونے کا موقع دینے پر میں نقوی صاحب اور سی آئی ایس ایس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
خواتین و حضرات، جب آپ 1972ء میں صدر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے طلب کئے گئے ملتان کے مشہور سائنسدانوں کے اجلاس سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، جوکہ 52 سال پہلے کی بات ہے، تو آپ دو ادوار کے درمیان ایک بہت واضح لائن کی تمیز کرسکتے ہیں:
ایٹمی پروگرام 28 مئی 1998ء کے دور سے پہلے
ایٹمی پروگرام 28 مئی 1998ء کے دور کے بعد 28 مئی 1998ء کے دو تاریخی دنوں میں پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئروں کے ذریعہ جو کچھ حاصل کیا گیا تھا وہ ایک بہادر، عہد اور وقف شدہ قومی سائنسی اور انجینئرنگ کوشش کا حاصل تھا جسے ایک مسلسل سخت سیاسی ارادے، عہد اور قومی عزم نے حکومتی سطحوں پر، ان دنوں کی سیاست کے باوجود، پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی طاقت بنانے کے لئے جدوجہد کی۔ پاکستانیوں نے شاید گھاس نہیں کھائی ہوگی لیکن پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئروں کی کہکشاں نے ان دو دنوں میں کامیاب تجربات کے ذریعہ دنیا کو ایک بنیادی پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا کیونکہ انہوں نے 11 اور 13 مئی کو ہندوستانی ایٹمی تجربات کا شاندار جواب دیا۔
دوسری جانب، 1998ء کے مئی کے بعد کا دور، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے کچھ کو 26 سال کے عرصہ دراز کے لئے چنا تھا کہ ہم سائنسدانوں کے اچھے کام کو آگے بڑھائیں، پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی مکمل عمل کاری، استحکام اور اسے محفوظ بنانے اور سفارتی طور پر محفوظ بنانے کی نمائندگی کرتا ہے، ابتدا میں قابلِ اعتبار کم سے کم خوف کی پالیسی کے مطابق اور بعد میں دشمن کے لئے مکمل اسپیکٹرم خوف ڈراوا پیدا کرنے کی صلاحیت کے حصول پر جا کر منتج ہوا۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے، میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مختصر طور پر ریکارڈ پر لاؤں کہ کس طرح قسمت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو ایک ایسی پوزیشن میں رکھا جہاں یہ ہماری ذمہ داری بن گئی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو 1998ء کے بعد آگے بڑھائیں اور اسے اس کے اختتامی حالت کے ویژن کے مطابق شکل دیں۔
اپریل 1998ء کے آخری دنوں میں چیف آف دی آرمی اسٹاف (سی اواے ایس) نے مجھے میجر جنرل کے عہدہ پر ترقی دے کر سی اواے ایس سیکرٹریٹ میں (EA&R) یعنی تخمیہ، تجربتی اور ریسرچ شعبہ ڈائریکٹر جنرل بنا دیا۔ یہ شعبہ جنرل جہانگیز کرامت جو اس وقت میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے اور چیف آف دی اسٹاف کے سیکرٹریٹ میں چھوٹا سا تھنک ٹینک خصوصی مسائل پر توجہ دینے کے لئے قائم کیا تھا اور مجھ سے پہلے اس کے سربراہ میجر جنرل احسان سلیم حیات تھے، جو بعد میں وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف بنے۔ انہوں نے دوسرے مسائل پر کام کیا مگر ایٹمی معاملات پر خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔
جب میں 30 مئی 1998ء کے ایٹمی تجربہ کے چند دن بعد چیف کو رپورٹ کرنے گیا، تو انہوں نے مجھے یہ کام سونپا کہ پاکستان کے لئے قومی کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کے قیام کے لئے تجاویز سے بھرپور مسودہ تیار کروں، اب جبکہ پاکستان نے اپنی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کا کھلا اعلان کردیا ہے۔ میری چھوٹی ٹیم اور میں نے مل کر اپنے پیشہ ورانہ قابلیت کے مطابق اس کام کو مکمل کیا۔ تاہم، جنرل جہانگیر کرامت کو اس پر نظر ڈالنے سے پہلے، انہیں استعفی دینا پڑا۔ ان کے بعد جنرل پرویز مشرف سی اواے ایس مقرر ہوگئے اور جنرل پرویز مشرف نے ہماری تجاویز اور چند پیشکش میں شرکت کرنے کے بعد، ہمارے پیش کردہ سفارشات کو منظور کیا، جس میں اسٹرٹیجک پلانز ڈویزن (ایس پی ڈی) کا ایک ڈائریکٹر جنرل کے ماتحت قیام عمل میں لانا تھا اور پھر انہوں نے مجھے ورطہئ حیرت میں ڈال دیا، جب مجھے پہلے ڈی جی ایس پی ڈی کے عہدہ پر فائز کردیا۔ اس کے ساتھ 15 سال سے زیادہ کی وابستگی کا سفر شروع ہوا، مئی 1998ء کے بعد کا دوسرا دور شروع ہوا یعنی پہلا ایٹمی پروگرام کو مکمل کرنا اور دوسرا اسے ترقی دینا تھا۔ جب ہم اپنے نئے احاطے میں چکلالہ گیریژن میں آباد ہوئے، تو نئے قائم کردہ ایس پی ڈی نے اپنے پاؤں جمانا شروع کیا، ضروری افرادی قوت کو بھرتی کیا اور اپنی تمام تر سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام شروع کیا، اس اعتماد کے ساتھ جو کم مائیگی سے جنم لیتا ہے۔ اس طرح بغیر جھجک کے سب سے پہلے جس چیلنج کو میں ذکر کرنا چاہوں گا وہ ہماری ایٹمی معاملات کی کم عملی پر قابو پانے کا تھا، چاہے وہ اسٹرٹیجک، سائنسی، تنظیمی، عملیاتی یا مختلف اسٹرٹیجک تنظیموں کے مقامات، شخصیات اور افراد کے بارے میں ہو۔ یہ واقعی ایک پُراسرار دنیا تھی اور رازداری کی سطح اتنی زیادہ تھی کہ سوال پوچھنے پر بھی بعض اوقات اشاروں میں جواب ملتے تھے۔
دوسری طرف، یعنی سائنسدان اور انجینئرز بھی اس بارے میں پُریقین نہیں تھے کہ نئے شریف آدمی کے ساتھ چاہے وہ ڈی جی ایس پی ڈی ہی کیوں نہ ہو کتنی زیادہ معلومات شیئر کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں نئے ماحول، حال ہی میں ابھرنے والے قومی ہیروز، نئے سائنسی اصطلاحات اور سب سے اہم پروگرام کی موجودہ حالت اور اس سے آگے کے کام کو سمجھنے اور واقفیت حاصل کرنے میں وقت لگا۔ ایک چیز واضح تھی کہ ایس پی ڈی نے تیزی سے کام شروع کیا تھا اور مزید ترقی اور عمل کاری کے مرحلے کو شروع کرنے میں زیادہ وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ پھر بھی صبر اور اچھے آداب نے ہمیں کچھ ذہنی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مدد دی۔ وہاں سے ہم ان کی ٹیم کا ایک معزز حصہ بن گئے اور اس وقت پیدا ہونے والا باہمی احترام، ہم آہنگی اور یہاں تک کہ دوستیاں آج تک موجود ہیں۔ پہلا چیلنج حاصل کرلیا گیا تھا۔
آغاز میں، اگلا چیلنج، جو ایک موقع میں تبدیل ہوا جو ہمارے دوسرے دور میں کئے گئے کام کا تھا، جو ایک ابتدائی شناخت اور ایک ویژن کی تصور پر مبنی تھا اور پھر سات اہم حصوں میں سر جھکا کر مرکوز کام کیا اور چند اضافی معاون حصے، جو سب ایک ساتھ چل رہے تھے، کیونکہ زیادہ تر کام آپس میں منسلک تھے۔ یہ جب آہستہ آہستہ ایک جامع فورس اور کم سے کم اسلحہ کی موجودگی میں معرض وجود میں آگئی اور ساتھ ساتھ چل رہے تھے جس کی وجہ سے ایک تین خدماتی اسٹرٹیجک صلاحیت حاصل کرلی گئی، ایک اصطلاح جو میں نے اپنے بحری دوستوں سے وار کالج میں سیکھی، پر مبنی تھا جس میں ”قابلیت“ کی عناصر کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی ”کم از کم“ تعداد کی تشخیص شامل تھی، دشمن کی جارحیت کے ”ڈٹیرنس“ (خوف) کے اسٹرٹیجک اثرات کو بے اثر کرتے تھے۔ یاد رہے، کوئی اسٹاف کالج یا وار کالج آپ کو قومی ایٹمی صلاحیت کے تصورات اور ترقی کے چیلنج کے لئے تیار نہیں کرتا ہے۔ ان سب کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے بہترین پیشہ ورانہ فیصلوں اور آن جاب ٹریننگ کی بنیاد پر انحصار کریں۔ یہ سات اہم عناصر، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی چیلنج کا حامل تھا، جس میں ایس پی ڈی کے اندر ایک، قومی کمانڈ اور کنٹرول (این سی اے) کے ڈھانچے کا قیام جو قومی کمانڈ اتھارٹی واحد ونڈو سیکرٹریٹ اور تین سہ خدماتی اسٹرٹیجک فورسز کو قومی ایٹمی صلاحیت کو سنبھالنے کے لئے شامل کرتا ہے۔ یہ تجویز وہ تھی جوکہ چیف آف دی آرمی اسٹاف کو پہلے پیش کی گئی تھی اور بعد میں دوسرے سی اواے ایس نے اس کو منظور کرلیا تھا۔ جو ہمارے ابتدائی پیپر میں دی گئی تھی جو اس کے علاوہ دو دوسرے فورسز پر بھی مبنی تھی جو این ایس سی اور قومی سلامتی کونسل (جے سی ایس سی) فورمز یعنی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پر مبنی تھی۔ اصل میں یہ منظوری اُن سفارشات کی وجہ سے ہوئی جو ہمارے ابتدائی پیپر میں دی گئی تھیں اور جو سی اواے ایس کو پیش کی گئی تھی، بعد میں دو دیگر فورمز یعنی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (جے سی ایس سی) اور قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کو پیش کی گئی تھی۔
دوسرے یہ کہ ایک قومی ایٹمی پالیسی کی تصور کے ساتھ بنالی گئی کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو کم از کم ایک دہائی تک، مئی 1998ء کے سائنسی تجربات کے بعد، یعنی 2010ء تک، کے لئے کہاں ہونا چاہئے۔ یہ آنے والی دہائی میں متوقع جغرافیائی، سیاسی اور اسٹرٹیجک ماحولیات، ترقی پذیر خطرے کی نوعیت کے معائنہ کے ساتھ ساتھ اپنے تکنیکی، عملیاتی اور مالی صلاحیتوں اور صلاحیتوں کی تشخیص پر مبنی تھی۔
تیسرے، مذکورہ بالا تشخیص کی بنیاد پر، قومی ایٹمی پالیسی یا ویژن کو تین سہ خدماتی اسٹرٹیجک فورسز کے تربیت، سامان، ہاؤسنگ اور تربیت کے لئے ایک مضبوط فورس ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی میں مرتب کیا جائے، جو قابلِ اعتبار آخری استعمال کرنے والے کی اس وقت کی منظور شدہ پالیسی کے مطابق ہو۔
چوتھا عنصر یہ ہے کہ فورس ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی کے مطابق، اسٹرٹیجک اداروں کے ذریعہ محنت اور سخت مشقت کے ذریعے پہلے اور دوسرے ایٹمی حملہ کے لئے تین سہ خدماتی اسٹرٹیجک فورسز کے لئے مختلف اقسام کے ایٹمی ہتھیاروں کی کافی تعداد میں تیاری اور فراہمی ہے۔

پانچواں عنصر یہ ہے کہ جوکہ کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹرز، انٹیلی جنس، سی412ایس آر کا ایک محفوظ اور مؤثر سسٹم کی تصور اور ترقی کا منصوبہ ہے جو ایک سی412ایس آر معلومات، نگرانی، شناخت و نگرانی کے لئے موجود ہے۔ اس جدید اسٹرٹیجک نظام میں اس کے اندر آٹھ سی412ایس آر تکنیکی اور عملیاتی چیلنج تھا۔ جیسا کہ آپ سی412ایس آر کے مخفف کے صوتی اثرات نوٹ کرسکتے ہیں۔
جن میں سے ہر ایک ایک جامع نظام ہے، جسے تصور، ترقی،تجزیہ اور مربوط بناکر اور ایٹمی اسٹرکچر میدان جنگ کی لمبائی اور چوڑائی میں صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں اور پھر ایٹمی انفرااسٹرکچر اور اسٹرٹیجک فورسز کو فول پروف کمانڈ اور کنٹرول کی صلاحیت کو ایس پی ڈی، این سی اے اور اسٹرٹیجک فورسز کو فراہم کرسکیں۔
چھٹے عنصر کے مطابق پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے تمام مذکورہ بالا عناصر کو ہر قسم کے بیرونی یا داخلی خطرے کے خلاف محفوظ کرنا جو کہ جوہری سلامتی کے وسیع تر دائرے میں آتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 9/11 کے عالمی سیاسی، فوجی اثرات، امریکا کی افغانستان اور عراق پر حملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے شدید اندرونی اثرات کے سائے میں، جوہری سلامتی خاص طور پر ایک اولین ترجیحی علاقہ بن گیا۔ اس وقت کے منفی جغرافیائی، سیاسی ماحولیات بشمول پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سلامتی پر شدید بین الاقوامی توجہ اور دشمنوں کی طرف سے مزید تقویت یافتہ بین الاقوامی بیانیے کے تحت کہ پاکستان کے جوہری اثاثے غلط ہاتھوں میں جا سکتے ہیں، کے تحت، غلطی کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہم نے ان مشکل دنوں میں احساس کیا کہ جب اندرونی دہشت گرد حملے خاص طور پر پاکستان کے دائرے میں کسی بھی واقعے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو مگر وہ ایس پی ڈی کے فوجی اداروں پر اثرانداز نہیں ہوسکے بلکہ یہ ادارے نسبتاََ آزادی کے ساتھ کام کئے جارہے تھے۔
اگر کوئی چھوٹا ہو یا بڑا واقعہ ہر ایک کے لئے وہ صرف ایک موقع ہونا چاہئے تھا۔ جس کا بین الاقوامی میڈیا اور ہمارے دشمن انتظار کررہے ہوں گے کہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں، اور یہ کہنے کا دعویٰ کریں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار محفوظ نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ ترجیح دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتا تھا کہ ہم نے جوہری سلامتی کو یقینی بنانے میں بہت وقت، محنت اور فنڈز لگائے تاکہ یہ انسانی، پیشہ ورانہ اور مالی لحاظ سے ممکن حد تک فول پروف ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس خاص مشکل مرحلے سے محفوظ اور بے داغ نکلے۔ نتیجتاً، یہ بہت اطمینان بخش تھا کہ وقتاً فوقتاً، مؤثر بین الاقوامی آوازیں جو کسی آزادانہ طریقے سے یہ تصدیق کرسکتی تھیں، باضابطہ طور پر اعلان کررہی تھیں کہ (NTMs) یعنی قومی تکنیکی ذرائع کے ذریعے پاکستان کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیوڈ سانگر کی کتاب:

CONFRONT AND CONCEAL:OBAMA’S SECRET WARS AND SURPRISING USE OF AMERICAN POWER.
کے عمل نے تاثر دیا ہے کہ پاکستانی جوہری سلامتی کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں، شاید دنیا میں کسی اور ملک کے ذرائع یا کسی حکمران کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی سے۔ چیلنجوں کے بارے میں بات کریں تو جوہری سلامتی یقینی طور پر سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک تھا۔
ساتواں عنصر اور آخری مگر کم اہم نہیں ہے کہ لیکن کم از کم، جوہری سفارت کاری کا انعقاد فارن آفس اور ہمارے کلیدی سفارتکاروں کے ساتھ بیرون ملک خاص طور پر جنیوا، ویانا، واشنگٹن اور نیویارک میں، بین الاقوامی کوششوں کے کسی بھی منفی اثرات کو روکنے اور کرنے کے مقصد کے ساتھ جو پاکستان کے جوہری پروگرام کی ترقی اور اس کے مقاصد کے لئے مضر ہوسکتے ہیں۔ ہمارے اداروں نے کامیابی کے ساتھ دفاع کیا، مذکورہ بالا حصوں کے وسیع حدود کے اندر رہتے ہوئے، فورس ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی کے آخری مرحلے کی بڑی تصویر کو دیکھنے کا میرا ذاتی طریقہ یہ تھا کہ آخری شکل میں بڑی تصویر کو مکمل کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے حصے، پروجیکٹس کہہ لیں، کو ان کی صحیح جگہوں پر رکھنا۔ یہ چھوٹے حصے آڑاکٹا معمہ (JIGSAW) کی طرح ترقیاتی ایجنسیوں یا اسٹرٹیجک تنظیموں کو بطور اسٹرٹیجک پروجیکٹس تفویض کئے جاتے تھے ہر ایک کے ساتھ واضح طور پر تعریف شدہ ٹائم لائنز اور سال بہ سال مختص شدہ فنڈنگ۔ جب بھی کوئی پروجیکٹ تجویز کسی اسٹرٹیجک تنظیم کی طرف سے پیش کی جاتی، تو میرا ذہن اس پروجیکٹ کی آخری مرحلے کی بڑی تصویر میں اس کی مطابقت اور کردار کو پڑھنے کی کوشش کرتا۔ چاہے پروجیکٹ انفرااسٹرکچر کی ترقی کے زمرے میں ہو یا ایک نئے ہتھیار کے نظام کے زمرے میں ہو، یا ایک نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے زمرے میں ہو، لٹمس ٹیسٹ ہمیشہ اس پروجیکٹ کی آخری مرحلے کی بڑی تصویر میں اس کی جگہ کا جواز اور مطابقت تھی۔ اگر جواز اور مطابقت تھی تو پروجیکٹ ایک ”گو“ تھا، ورنہ ایک مودبانہ ”نو گو“۔
اس تناظر میں، ایک اور بڑا چیلنج جو ایک موقع میں تبدیل ہوگیا وہ نہ ختم ہونے والی پابندیاں اور انکار کی کہانی تھی جو بین الاقوامی عناصر کی طرف سے پاکستان پر عائد کی جاتی رہی ہیں تاکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی مزید ترقی کو روکنے اور اسے جتنا ممکن ہو سکڑنے کی کوشش کی جا سکے۔ یہ پابندیاں اور انکار اتنے مضحکہ خیز، غیرتفریق کرنے والے اور کسی منطق سے خالی تھے کہ ان کا اطلاق کیا جا رہا تھا۔ پابندیوں کی فہرست میں اکثر اوقات ایسی ادارے بھی شامل ہوتے تھے جو جوہری پروگرام سے کوسوں دور تھے۔
ہمارا جواب اور معیاری پالیسی بہت سادہ تھی کہ خودانحصار ہوجاؤ۔ اس میں وقت، فنڈنگ اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا گیا لیکن، میری بات پر یقین کریں کہ ہمارے سائنسدان اور انجینئر زاسٹرٹیجک تنظیموں میں بالکل مختلف کلاس کے ہوتے ہیں، چیلنجز پسند کرتے ہیں۔ میں ایک بھی پروجیکٹ یاد نہیں کرسکتا جسے ہم نے خودانحصار بننے کا فیصلہ کیا اور جس کو انہوں نے مکمل نہ کیا ہو۔ پابندیاں اور انکار ہمیشہ ہمارے فائدے میں کام کرتے تھے جس سے ہمیں خودانحصاری کی طرف مجبور کیا جاتا تھا۔ ہمارے زمانے کی بہت سی کامیابی کہانیوں میں سے ایک، جوہری انفرااسٹرکچر کی خودانحصاری کی کوشش نہیں تھی بلکہ یہ کہانی پاکستان کے جوہری پروگرام کے ابتدائی دنوں سے شروع ہو کر ایس پی ڈی کے بن جانے اور ترقیات کی ایک بڑی کہانی ہے۔ دونوں دور جن کا میں نے ذکر کیا ہے، 52 سالوں کے مجموعی طور پر، کامیابی کہانیوں سے بھرپور ہیں جب پابندیوں کے تحت مقامی سطح پر پروجیکٹس اور سہولیات کو ترقی دی گئی۔ شاید ہمیں اپنے مخالفین کا ایک چھوٹا ووٹ آف تھینکس دینا چاہئے۔
بھارت کی جانب سے کی جانے والی آپریشن پوکھران ایک اہم واقعہ تھا جس نے 2001-02ء فورس ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی کو متاثرکن حد تک جلا بخشی۔ دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے نتیجے میں، بھارت نے پاکستان پر بلاثبوت الزام لگا دیا اور اپنی پوری فوج کو پاکستان کی مشرقی سرحد پر جنگی تیار حالت میں، حملہ آور تیار حالت میں تعینات کردیا۔ پاکستان نے بھی اس کے جواب میں اپنی روایتی فوجی دستوں کی آپریشنل مخالف تعیناتیاں کیں۔ 10 ماہ تک بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کی اور اپنی فوجوں کو گرم صحرا میں اپنے نوجوانوں، اسلحہ اور ساکھ کے نقصان کے بعد واپس بلا لیا۔ یقینی طور پر، بھارت کے روکنے میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا ایک بڑا حصہ تھا۔
ان سالوں میں، بھارت کے تجربے کے بعد 1986-87ء کے ناکام ایکسرسائز براس ٹیکس کے بعد، بھارت نے آخرکار نتیجہ نکالا کہ مکمل جنگ اب جنوبی ایشیا میں موجودہ ایٹمی سائے کے تحت کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس نے محدود جنگ کی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا جس میں کم گہرائی کے اہداف کی شروعاتی ٹیکٹیکل تشکیلوں سے ہوتی ہے۔ نتیجتاً، کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن نامی ایک نیا نظریہ اپنایا گیا تاکہ تیزی سے مگر محدود جنگ لڑنے کے لئے تیار ہوسکے۔ بھارت کو نئی حکمت عملی کے تحت لڑنے کے لئے تقریباً 10 سے 12 سال لگے۔

اس ڈاکٹرائن نئے اسٹرٹیجک اور آپریشنل ترقیات نے نیا چیلنج پیش کیا۔ ہماری آپریشنل اور اسٹرٹیجک تجزیہ ایس پی ڈی نے نتیجہ نکالا کہ بھارت مکمل جنگ کی حکمت عملی سے پیچھے ہٹ گیا تھا لیکن بھارتی فوجی جنون اب ٹیکٹیکل سطح پر محدود روایتی جنگ لڑنے کی تیاری میں حوصلہ افزا تھا کیونکہ پاکستان کی جوہری انوینٹری میں ٹیکٹیکل سطح پر ایک مبینہ خلا تھا۔ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کے ذریعے آپریشن شروع کر نے پر (آئی بی جی ایس) بھارتی فوج کی ٹیکٹیکل سطح پر آزاد جنگی گروپس بناکر چھوٹے پیمانے پر جنگ کرسکتا تھا۔
جب کہ پاکستان کے بڑے جوہری ہتھیار، جن کی درجہ بندی ان کی رینج اور نقصان کے دائرے کے مطابق اسٹرٹیجک اور آپریشنل کے طور پر کی گئی تھی، بڑے پیمانے پر آپریشنز کو روک رہے تھے، بھارتی فوجی نے غالباً سمجھا کہ پاکستان کے خلاف ٹیکٹیکل سطح پر لڑنے کی جگہ ابھی بھی موجود ہے۔ ہمارے نتیجے میں یہ بات سادہ تھی، مبینہ خلا کو پُر کریں اور شارٹ رینج محدود پیمانے پر جوہری ہتھیاروں کی ترقی کرکے مکمل اسپیکٹرم بنائیں۔ یہ نتیجہ نکالنا آسان تھا لیکن وہاں پہنچنا ایک بڑی چیلنج تھی جس میں وقت، تکنیکی چیلنجز، سفارتی چیلنجز اور یقیناً مالی چیلنجز شامل تھیں۔
تاہم ہم نے پھر بھی ریسرچ کرنے کا فیصلہ لیا اور باقی تاریخ ہے۔ ایس پی ڈی اور اس کے اداروں نے کام کی شناخت کی اور اس پر کام شروع کیا۔ آخرکار نتیجہ یہ تھا کہ ”نصر“ شارٹ رینج ملٹی ٹیوب ہتھیاروں کا نظام، مناسب محدود ایٹمی نقصان پہنچانے آن فورسز کے لڑائیوں کو مکمل طور پر انڈیا آئی بی جی ایس کے جواب دینے کی صلاحیت کا حصول جس سے بھارت بے بسی محسوس کرے۔ چھوٹے ہتھیاروں کے لئے پلوٹونیم کی ضرورت تھی جیسا کہ فیزائل مٹیریل (ایٹمی افزدہ مواد) اس لئے، پلوٹونیم پیدا کرنے والے ری ایکٹرز اور ری پروسیسنگ پلانٹس کو تیزی سے تعمیر کیا گیا۔ مستعد جوہری سفارت کاری نے اس بات کو یقینی بنایا کہ درکار وقت یعنی سالوں کے دوران فراہم کردیا گیا۔
اس دوران 2011ء میں یعنی مئی 1998ء کے بعد سے ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں، جب ہمیں اپنی فورس ڈویلپمنٹ اسٹریٹجی میں اتنا اعتماد حاصل ہوا کہ ہم پاکستان کی جوہری پالیسی کو قابلِ اعتبار کم سے کم ممانعت سے مکمل اسپیکٹرم ممانعت یعنی ”خوف“ میں منتقل کرسکتے تھے۔ اس دہائی سے زائد کے دوران، مختلف قسم کی بیلسٹک میزائلوں کی ترقی کے ساتھ، ”نصر“ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کے ساتھ کم پرواز کرنے والے کروز میزائلوں کے خاندان ”بابر“ اور ”رعد“ مختلف زمینی، ہوائی، سمندری اور زیرسمندری پلیٹ فارمز اور ”ابابیل“ کے ساتھ شاہین III پلیٹ فارموں کے لئے 2750 کلومیٹر کی رینج کے ساتھ طویل فاصلے والے شاہین کی صلاحیت، 2011ء تک پورا جوہری ہتھیاروں (MIRV) MULTIPLE INDEPENDENTLY RE-ENTRY VEHICLE کا اسپیکٹرم افقی اور عمودی طور پر کور ہوچکا تھا۔ بھارت کی وسیع مشرقی اور جنوبی جغرافیائی جہات، بشمول اس کی باہر نکلے علاقہ جات، پاکستان کے مختلف جوہری ہتھیاروں کی مکمل طور پرزد میں آ چکے تھے۔
آج الحمدللہ، پاکستان کی مکمل اسپیکٹرم ڈراوے کی صلاحیت، جو عمومی طور پر قابلِ اعتبار کم سے کم خوف کے بڑے فلسفہ کے اندر رہتی ہے، افقی طور پر مختلف جوہری ہتھیاروں کی ایک مضبوط تین خدماتی انوینٹری پر مشتمل ہے، جسے ایک تین جہتی فورس کہہ سکتے ہیں، یہ زمین پر آرمی اسٹرٹیجک فورس کمانڈ کے (اے ایس ایف سی) ساتھ اور ہوا میں ایئر فورس اسٹرٹیجک فورس (اے ایس ایف سی) اور سمندر میں (این ایس ایف سی) نیوی اسٹرٹیجک فورس کمانڈ کے ساتھ۔ عمودی طور پر جوہری اسپیکٹرم میں بتدریج بڑھتی ہوئی تباہ کن ہتھیاروں کی خوفناک تباہ کن صلاحیت اور تین سطحوں پر رینج کا احاطہ کیا گیا ہے: اسٹرٹیجک، عملیاتی اور ٹیکٹیکل، 2750 کلومیٹر تک تاکہ بھارت کی وسیع مشرقی اور جنوبی جغرافیائی جہات، بشمول اس کی سرزمین کے مکمل علاقہ جات کو زد میں لایا جاسکے۔
مجموعی طور پر پاکستان کے پاس ایک زبردست بڑی مقدار کی خوفناک اور دشمن کو ڈروا دینے والی جوہری طاقت این سی اے/ایس پی ڈی کو دستیاب ہے۔ جو پاکستان کے خلاف دشمن کو جنگ کے مؤثر انداز میں پہلے اور دوسرے حملے سے روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ صلاحیت زمانہ امن اور قبل جنگ میں جوابی حملے میں پاکستان کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتی ہے۔ ترقیاتی حکمت عملی کو ایک طاقتور مکمل اسپیکٹرم خوف فراہم کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا اور یہ نظام اس نظام نے جنگ کرنے کی صلاحیت کے ذریعے دشمن کو خوفزدہ رکھ کر حاصل کرلی ہے۔
خصوصی طور پر، مکمل اسپیکٹرم ممانعت / خوف کی پالیسی کا مطلب یہ ہے
کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا مکمل اسپیکٹرم تین زمروں میں موجود ہے: اسٹرٹیجک، عملیاتی اور ٹیکٹیکل، وسیع بھارتی زمین کا چپہ چپہ اس کی مکمل زد میں ہے، جس نے بھارت کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے لئے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے۔
کہ پاکستان کے پاس ہتھیاروں کی مکمل رینج کو نشانہ بنانے کے صلاحیت موجود ہے جو اطراف اور فاصلوں کے حوالے سے بھی ایٹمی دھماکہ کی کوریج میں ہے اور تعداد مضبوطی سے محفوظ ہیں، تاکہ مخالف کی بڑے پیمانے پر جواب دینے کی پالیسی کو روک سکے، پاکستان کاجوابی حملہ اسی شدت سے ہوگا کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور دشمن کو اچھی طرح معلوم ہے۔
کہ پاکستان کے پاس بھارتی اہداف تک پہنچنے کی صلاحیت کی مہارت موجود ہے وہ بھارت کی ہر جگہ کو نشانہ بنانے کے لئے آزاد ہے۔ انڈیا کے پاس BMD یا روسی S-400 کی موجودگی کے باوجود پاکستان کاؤنٹر ویلویا کاؤنٹر فورس اصل جنگی میدان کے سارے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

مکمل اسپیکٹرم ممانعت / خوف کی صلاحیت کو ترقی دے کر، ہم نے تمام سطحوں پر ممانعت/ خوف Deterrence کو مضبوط کیا، بگڑے ہوئے اسٹرٹیجک توازن کو دوبارہ بحال کیا، اس طرح یقین دلایا کہ امن عام طور پر غالب رہے گا۔ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن یا پرو ایکٹیو آپریشنز کو نہ صرف چیک کیا گیا ہے بلکہ بڑے بھارتی فوجی کی عملیاتی اختیارات کو سختی سے محدود کیا گیا ہے تاکہ آج 2024ء میں، پانچ سال سے آخری بھارتی ذلت کے بعد بالاکوٹ اور راجوڑی کے بعد 27 فروری 2019ء میں، ایک نئے انداز کی جنگ سے سبق سکھایا ہے جس کے بارے میں بھارتی فوجی منصوبہ سازوں کے ذریعے ایک ڈی آر ایس ڈانامک اسٹرٹیجک ریسپنوس فارمولے پر مبنی تیار کرنے کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔ ڈی آر ایس یعنی Dynamic Response Strategy نیا متحرک جواب دینے کی حکمت عملی پاکستان کی مضبوط جوہری صلاحیت کی وجہ سے بھارت کے اسٹرٹیجک اور ڈی آر ایس میری رائے میں، عملیاتی اختیارات پر عائد حدود اور پابندیوں کی ایک واضح عکاسی ہے اور اس وجہ سے میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں خاص طور پر ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو ”امن کے ہتھیار“ کہا جائے گا۔ جب جنوبی ایشیائی اسٹرٹیجک توازن کی موجودہ حقیقت کے خلاف بھارت کے سیاسی، فوجی اختیارات کے بتدریج خاتمے اور پسپائی کو دیکھا جائے تو مجھے مضحکہ خیز یا خیالی پلاؤ بنانے والا لگتا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور دفاعی وزیر راج ناتھ سنگھ یہ دھمکی دیتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا پیچھا کرے گا اور ہندوتوا کے پجاری اور دوبارہ وزیرخارجہ بنے والے جے شنکر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت کو نظرانداز کیا جانا چاہئے، جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان لینے کا منصوبہ بنائیں۔ ایسے بیانات اعلیٰ سیاسی سطح پر صرف سیاسی بیان بازی اور فریب کے زمرے میں آسکتے ہیں جو کہ پاکستان کی مضبوط جوہری صلاحیت کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی فوج میں سے ایک کو روکنے کی مایوسی کی وجہ سے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ آخری بار جب بھارتی پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے آئے تھے، انہیں ابھینندن کو ”شاندار چائے“ پیش کی گئی تھی۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھمکیوں کو پاکستان کی روایتی فوجوں کی طرف سے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ مجھے اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ جوہری پروگرام کے مقابلے میں انتہائی قابل اور پیشہ ور لوگوں پر ایس پی ڈی پروگرام کے مستقبل کی راہ کیا ہوگی۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو پاکستان کے جوہری پروگرام کے مستقبل کی راہ کا ایک ویژن رکھتے ہیں۔ وہ موجودہ خطرے کی نوعیت اور موجودہ جغرافیائی، سیاسی ماحولیات کے بارے میں بہت اچھی طرح واقف ہیں جیسا کہ مستقبل میں شکل اختیار کرنے کا امکان ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ نہ صرف پروگرام کی حفاظت کریں گے بلکہ اس سے بھی آگے، پاکستان کی تمام خطرات کے خلاف حفاظت کریں گے اور اس لئے پاکستان کی سلامتی کے بہترین مفاد میں مستقبل کی راہ کے بارے میں بہترین فیصلے کریں گے۔ مجھے اپنے تمام جانشینوں پر مکمل اعتماد ہے جو اعلیٰ پیشہ ور تھے اور ہیں اور جنہوں نے پاکستان کی جوہری صلاحیت کو طاقت سے مزید طاقت کی طرف لے جانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم ان سب کے شکرگزار ہیں۔ اللہ انہیں برکت دے۔ ایک چیز جو یقینی طور پر ناگزیر ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیشرفتیں، بشمول وہ جنہیں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کہا جاتا ہے، پاکستان کی قومی سلامتی کے حساب و کتاب میں مناسب طریقے سے اپنی جگہ بناتی رہیں گی۔ جوہری پروگرام بھی ان سے فائدہ اٹھا کر اتنا ہی این سی اے معتبر اور مضبوط ہوجائے گا۔ نیز، میں بہت خوش ہوں گا اگر ایک توانائی کی کمی سے دوچار پاکستان کی منظوری شدہ نیوکلیئر انرجی وژن2050-ء سے فائدہ اٹھا سکے جوکہ 2050ء تک 42000 میگا واٹ نیوکلیئر انرجی فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور یہ ذہن میں رہے کہ یہ دس کالا باغ ڈیمز کے برابر ہے۔ میں اپنی گفتگو کا اختتام چاہتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی جغرافیائی، سیاسی اور فوجی تاریخ کے تقریباً 80 سال عالمی حکمت کو تقویت دیتے ہیں کہ ایٹمی طاقتیں براہ راست جنگیں نہیں لڑتی ہیں۔ میں کوئی وجہ نہیں کہ ایک دوسرے کو خود تباہ کرنا۔ ایم اے ڈی، بھارت اور پاکستان اس منطق کو چیلنج کرنا نہیں چاہیں گے یعنی بدترین قسم کی باہمی یقینی تباہی (ایم اے ڈی) کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ ایم اے ڈی کی غیرمنطقی منطق جنوبی ایشیا کے لئے اتنی ہی متعلقہ ہے جتنی یورپ اور اٹلانٹک کے پار۔ پاکستان کی ایٹمی اسلحہ کے پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی نہیں ہے۔ بھارتی قیادت کو شاید اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھی شک نہیں ہونا چاہئے، دوست یا دشمن، کہ پاکستان کی عملی طور پر تیار ایٹمی صلاحیت ہر پاکستانی رہنما کو یہ آزادی، وقار اور حوصلہ دیتی ہے کہ وہ بھارتی آنکھ میں آنکھ ڈالے اور کبھی پلک نہ جھپکائے۔

مطلقہ خبریں