اسرائیل سے فلسطین میں ظلم ختم کرنے کی اپیل کرنا بے سود ہے، اس کا واحد حل مسلمانوں کے اتحاد میں پوشیدہ ہے
میر افسر امان
یہودی دو ہزار سال سے دُنیا میں پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ فلسطین ان کا آبائی وطن ہے۔ یہ بات بھی ہم سب کو معلوم ہونی چاہئے کہ فلسطین یہودیوں کا آبائی وطن نہیں ہے۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ 1300 برس قبل مسیح میں بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تھے، اس وقت فلسطین کے اصل باشندے دوسرے لوگ یعنی عرب تھے، جن کا ذکر خود بائبل میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے، بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے اصل باشندوں عربوں کو قتل کیا اور اس سرزمین پر قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کو میراث میں دیا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے فرنگیوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians) کو فنا کرکے امریکا پر قبضہ کیا تھا۔ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمانؑ نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا تھا۔ نمبر 1۔ آٹھویں صدی قبل مسیح اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلیوں کا قلع قمع کیا تھا اور فلسطین کے اصل باشندوں عربی النسل قوموں کو آباد کیا تھا۔ نمبر 2۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کرکے تمام یہودیوں کو جلاوطن کردیا تھا۔ طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور میں یہودیوں کو پھر جنوبی فلسطین میں آباد ہونے کا موقع ملا۔ نمبر3۔ 70ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی، جس کی پاداش میں رومیوں نے ہیکل سلیمانی کو مسمار کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ 135ء میں رومیوں (عیسایوں) نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال دیا، پھر فلسطین میں اصل باشندے عربی النسل لوگ آباد ہوگئے۔ جیسے وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔ اسلام کے آنے سے پہلے فلسطین میں یہی عربی قبائل آباد تھے۔ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی قریب قریب بالکل ناپید تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو یہودی ابتدا میں نسل کشی کرکے فلسطین میں زبردستی آباد ہوئے تھے، دوم شمالی فلسطین میں چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں آٹھ سو برس رہے جبکہ فلسطین کے اصل باشندے، عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں، اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جبکہ یہ تاریخی فراڈ ہے۔ علامہ اقبالؒؒ نے ایک تاریخی بات کہی تھی ؎
ہی خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق کیوں نہیں اہل عرب کا
صہیونی تحریک (یعنی یہودی قومی تحریک) کہتے ہیں، ان کو حق ہے کہ فلسطین کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ پر بس جائیں جس طرح 1300 برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا۔ یعنی قدیم عرب باشندوں کو فلسطین سے زبردستی نکال دیا تھا۔
صاحبو! یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کے اصل باشندے عرب ہیں نہ کہ یہودی۔ اللہ نے اسرائیلیوں پر بڑی مہربانیاں کی تھیں۔ قرآن ان مہربانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے پہاڑ اُوپر اٹھا کر سخت عہد لیا تھا کہ وہ اللہ کے بندے بن کر رہیں گے، ظلم زیادتی نہیں کریں، ناحق لوگوں کو قتل نہیں کریں گے۔ فرعون سے ان کو نجات دلائی، ان کیلئے من و سلویٰ آسمان سے اُترا، بادلوں سے ان پر سایہ کیا، ان کو دنیا کی قوموں پر فضلیت دی، مگر بنی اسرائیل نے اللہ سے پختہ عہد توڑ ڈالا۔ اللہ نے ان کو سزا دینے کے بعد پھر معاف کردیا اور کہا کہ بنی اسرائیل تم دنیا میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے۔ بنی اسرائیل نے اس دنیا میں دو مرتبہ فساد برپا کیا۔ اللہ نے بھی دو مرتبہ ان کو اسیریا اور بخت نصر سے سزا دلوائی اور کئی سالوں سے وہ دنیا میں تتربتر تھے۔ اب نظر آرہا ہے کہ حماس کے ہاتھوں تیسری بار اللہ، یہودیوں کو ان کی بدعہدیوں اور فساد فی الرض کی وجہ سے سزا دے گا۔ حماس نے اللہ کے حکم کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ شروع کیا ہوا ہے۔ طوفان اقصیٰ اس کی ابتدا ہے۔ اسرائیل کی مادی طاقت اور صلیبیوں کی مدد اور بظاہر غزہ کو برباد کرنے کے باوجود حماس کی کامیابیوں سے صاف نظر آرہا ہے کہ اسرائیل کو اللہ ان مظلوموں کے ہاتھوں شکست فاش دے کر اپنی سنت پوری کرے گا۔ ”اقوام متحدہ نے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق غزہ میں ملین ٹن ملبے سے ڈھکا ہوا ہے، غزہ ملبہ ہٹانے کیلئے 600 ملین ڈالر درکا ہوں گے اور اسے ہٹانے کے عمل میں 15 سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے، روزانہ 100 ٹرکوں کی ضرورت ہوگی۔ غزہ میں 1730,297سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے (اس پٹی کی نصف سے زیادہ عمارتیں) غزہ کی پٹی میں زیادہ تر ملبہ ری سائیکل نہیں ہوگا۔ غزہ کی پٹی میں تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیرنو میں 2040ء تک کا وقت لگے گا اور اس پر 40 بلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔ غزہ میں 44 سال کی ترقی ختم ہوگئی ہے، غزہ کی پٹی میں صحت، تعلیم اور سماجی نگہداشت کی خدمات کا معیار 1980ء کی سطح پر واپس آگیا ہے“۔ اس کے علاوہ 5 اکتوبر 2023ء سے دہشتگرد اسرائیل، اس چھوٹی سی پٹی کی معصوم آبادی پر مسلسل بمباری کررہا ہے، جس میں بے گناہ بچے، بوڑھے، خواتین شہید ہورہے ہیں، یہ تباہی ظاہر نہیں کررہی کہ اسرائیل نے تیسرا فساد برپاہ کرکے اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے تیسری سزا کا مستحق نہیں بنا لیا۔ بنی اسرائیل اللہ کی نافرمان ترین قوم ہے۔ قرآن شریف بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ چارج شیٹ سے بھی بھرا پڑا ہے۔ یہودی دنیا میں تمام خرابیوں کے موجد ہیں۔ خدا خوفی، اللہ سے کھلی بغاوت پر کیمونزم نظام کا قیام، سودی نظام، فحاشی، بے حیائی، وعدہ خلافی، احسان فراموشی اور فلسطین میں موجودہ مظالم جن میں 39 ہزار سے زائد افراد شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے جس میں بچوں اور خواتین کی تعداد زہادہ ہے۔ ہزاروں ابھی بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ دو ہزار برس سے یہودی دنیا بھر میں ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ان کے قبضے میں آجائے اور ہم ہیکل سلیمانی کو پھر سے تعمیر کریں۔ فلسطین میں زور، زبردستی اور عالمی سازش کاروں کی مدد سے پھر فلسطین میں آباد ہوجائیں۔ یہودی گھروں میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈرامہ کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم کس طرح فرعون کے دور میں مصر سے نکلے اور فلسطین میں آباد ہوئے، کس طرح اسیریا، بخت نصر اور رومیوں نے ہمیں فلسطین سے نکال کر تتربتتر کیا۔ یہ بات یہودیوں کے بچے بچے کے ذہن میں بٹھائی جاتی رہی ہے کہ تم نے بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو پھر سے تعمیر کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت یہودیوں کی مدد کرتے ہوئے دنیا کی بڑی طاقتوں نے یہودیوں کو عالمی سازش کے ذریعے فلسطین میں زبردستی قبضہ دلایا۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ رومیوں کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرا لیا گیا تھا، بیت المقدس میں ان کا داخلہ ممنوع تھا، مسلمانوں نے ان کو فلسطین میں رہنے اور بسنے کی اجازت دی تھی۔ پچھلی 14 صدیوں میں یہودیوں کوصرف مسلمان حکومتوں میں امن نصیب ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی عیسائی حکومتیں تھیں وہاں یہودی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے۔ ان عیسائی ملکوں نے یہودیوں کو، اُن کی سازشوں کی وجہ سے اپنے ملکوں سے نکالا۔ یہودی مورخین لکھتے ہیں کہ ان کو اُندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے رہنے کا دور تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار زمانہ تھا۔ یکم جولائی 1967ء نیوز فرام اسرائیل بمبئی سرکاری بلیٹن کی اشاعت کے مطابق سولہوی صدی میں ترکی سلطان سیلم عثمانی نے دیورا گریا کو کوڑے کرکٹ میں سے ڈھونڈ کر یہودیوں کو زیارت کی اجازت دی۔ اصل میں یہ دیوار براق ہے جہاں رسولؐ اللہ نے براق باندھا تھا۔ لیکن یہودی احسان فراموش قوم ہے وہ مسلمانوں کی شرافت اور فیاضی اور حسن سلوک کا بدلہ موجودہ ظلم کی شکل میں دے رہی ہے۔ یہ اتنی ڈھیٹ اور سازشی قوم ہے کہ اس نے 1880ء سے دنیا بھر سے ہجرت شروع کی اور فلسطین جا کر زمین خریدنی شروع کیں۔ 1897ء یہودی لیڈر، تھیوڈورہرتذل نے صہیونی تحریک کا آغاز کیا گیا، (Zionist Movement)۔ اس میں اس بات کا مقصود قرار دیا گیا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا جائے اور ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے۔ یہودی سرمایہ داروں نے اس غرض کیلئے بڑے پیمانے پر مال فراہم کیا کہ یہودی فلسطین منتقل ہوں اور زمینیں خریدیں اور منظم طریقے سے اپنی بستیاں بسائیں۔ 1901ء میں اسی تھیوڈورہرتذل نے سلطان ترکی عبدالحمید خان کو پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، اگر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں مگر سلطان نے اس پیغام کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور کہا میں تمہاری دولت پر تھوکتا ہوں کہ فلسطین تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ جس شخص کے نام پیغام بھیجا گیا تھا اس کا نام حاخام قرہ صو آفندی تھا۔ اس نے سلطان کو ہرتذل کی طرف سے دھمکی دی تھی اور اس کے بعد سلطان کی حکومت کو الٹنے کی سازش شروع ہوئی، اس سازش کے پیچھے فری میسن، دونمہ اور وہ ترک نوجوان مسلمان تھے جو مغربی تعلیم کے زیراثر آکر ترکی میں قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ دونمہ وہ یہودی تھے جنہوں نے ریاکارانہ اسلام قبول کر رکھا تھا، ترک ان کو دونمہ کہتے ہیں۔ جب ترکی میں حالات بہت زیادہ خراب کر دیئے گئے تو 1908ء میں جو تین آدمی سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر گئے تھے ان میں ایک یہی حاخام قرہ صوآفندی تھا۔ مسلمانوں کی بے غیرتی کا اس سے اندازہ کیجئے کہ سلطان کی معزولی کا پروانہ بھیجتے بھی ہیں تو ایک ایسے یہودی کے ہاتھ جو سات برس پہلے اسی سلطان کے پاس فلسطین کی حوالگی کا مطالبہ لے کر گیا تھا اور سخت جواب سن کر آیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کے خیرخواہ ترکی سلطان پر کیا گزری ہوگی، جب یہی یہودی ان کی معزولی کا پروانہ لئے ہوئے ان کے سامنے کھڑا تھا۔
قارئین! جس قوم کے یہ عزائم ہوں اور جسے اللہ نے دھتکار بھی دیا ہو۔ جو تاریخی طور پر مکار مشہور ہو۔ جو دنیا میں ہر تباہی کی ذمہ دار بھی ہو۔ جس سے کسی نیکی کی امید بھی نہ ہو۔ جس نے دولت کے بل بوتے پر دنیا کی تمام طاقتوں پر بلواسطہ قبضہ بھی کر رکھا ہو۔ جس سے کسی بھی خیر کی تواقع بھی نہ ہو۔ اُس سے فلسطین کے موجودہ ظلم ختم کرنے کی اپیل کرنا بے سود ہے۔ اس کا واحد حل مسلمانوں کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اپنی اصل یعنی اسلامی نظامِ حکومت کی طرف لوٹنا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے اسلاف نے اُس وقت کے چار براعظموں پر اسلامی حکومت قائم کی تھی جس پر ہم آج تک فخر کرتے ہیں، اب بھی دنیا میں باوقار زندگی گزرانا اسی نظام اسلامی میں پوشیدہ ہے۔ موجودہ اقوام متحدہ عیسائیوں ملکوں کے مفادات کی لونڈی بنی ہوئی ہے، مسلمان اپنی ”لیگ آف مسلم نیشنز“ بنائیں، جو مسلم ملکوں کے مفادات کی پشتیبانی کرے۔ ہم اپنے وسائل مجتمع کریں ان کو عالمی سیاست میں استعمال کریں جیسے تیل اور دولت کے وسائل ہیں۔ پاکستان جو واحد مسلم ایٹمی قوت ہے اس کو سب مل کر مضبوط کریں۔ اپنی دولت سے جدید اسلحہ کے کارخانے لگائیں۔ اپنی دولت کو یہودونصاریٰ کے بینکوں میں سودی نظام کا سہارا بننے کے بجائے اس دولت سے تجارت کریں۔ مسلم ملکوں میں امریکی پٹھو حکمرانوں کے بجائے عوام کی حقیقی لیڈر شپ پیدا کریں جو مسلم مفادات کی نگرانی کے اہل ہوں۔ یہ عملی اقدامات کرکے اللہ کے بھروسے پر نئے جہادی دور کا آغاز کریں۔ اللہ نے ہمیشہ اُن کی مدد کی ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔