Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مشرقِ وسطیٰ جنگ کا بڑھتا دائرہ

بین الاقوامی چوہدری دنیا کے مختلف خطوں  میں  ری سٹیلمنٹ کے ایجنڈے پر آئندہ چند سالوں میں عملدرآمد کروانا چاہتے ہیں۔ ایشیا میں پاکستان اور ایران خصوصی اہداف ہیں۔ ساتھ ہی چین کی بڑھتی معاشی وعسکری طاقت بھی ان کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح روس کے اقدامات اور جارحانہ بیانات بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کوخطرے کا احساس دلارہے ہیں۔ رواں  سال مئی کے تیسرے ہفتے میں  روس نے ٹیکٹیکل اور روایتی ہتھیاروں کی مشق کی، جس میں روسی بری فوج کے ساتھ فضائیہ کے دستے بھی شریک تھے۔ اسکندر ایم بلیسٹک اور کروز میزائل مگ۔31 لڑاکا طیارے (کنزال) میزائل کو ہدف پر نشانہ لگانے کی مشق کرتے رہے۔ اسی طرح (ٹی یو بائیس ایم تھری) طیارہ بھی اپنی جارحانہ استعداد کا مظاہرہ کرتا رہا۔ تین مرحلوں  کی اس مشق کے دوسرے مرحلے میں  روسی نیوی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جبکہ تیسرے مرحلے میں تمام فورسز نے مشترکہ مشق کی، اس ساری مشق میں بیلاروس بھی شریک رہا کیونکہ مشق کا زیادہ حصہ اس سے متصل سرحد اور اس کی حدود میں تھا۔ اس کے بعد روس نے 12 جون کو جوہری آبدوز (کازان) کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کی بندرگاہ پر پہنچا کر اپنے عزائم کا کھل کر اظہار کیا، ساتھ ہی روس کے صدر شمالی کوریا اور ویتنام بھی گئے۔ یعنی روس نے صف بندی کا کام شروع کیا۔ اب جواب میں امریکا نے یوکرین کو دفاعی طور پر مضبوط کرنے کیلئے بیلجیم، ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے کو 60 ایف 16 لڑاکا طیارے فراہم کرنے کیلئے کہا اور اس کا استعمال بھی شروع کردیا۔ جس پر روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یوکرین اپنی تباہی کا سامان خود ہی کررہا ہے۔ انہوں  نے یورپ کو بھی خبردار کیا کہ تیسری ممکنہ عالمی جنگ میں  امریکا، یورپ کو تباہ کروانا چاہتا ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کو بھی پیغام دیا اور یورپ کو بھی متنبہ کیا کہ وہ آگ سے نہ کھیلے۔ روس یوکرین جنگ میں واشنگٹن کا کردار ماسکو کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس جنگ سے روس معاشی اور عسکری طور پر کمزور ہورہا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ روس تیل وگیس کی فروخت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہتھیار اور عسکری آلات کو بیچ کر معاشی فوائد حاصل کررہا ہے۔ امریکا کے پاس دنیا کے 80 ملکوں میں  750عسکری اڈے ہیں، اسی لئے دنیا کے مختلف خطوں میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ عسکری ٹکراؤ بھی کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کا چین کے خلاف تائیوان اور فلپائن کو استعمال کرنے کا منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی وجہ تائیوان کی نامکمل تیاری ہے اور ساؤتھ چائنا سی کے معاملے پر فلپائن سے وہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں جو واشنگٹن نے لگا رکھی تھیں۔ فلپائن 142 طاقتوار ملکوں  کی فہرست میں  32ویں نمبر پر ہے۔ جاپان 7ویں نمبر پر ہے۔ اگر ساؤتھ چائنا سی میں  عسکری ایکٹویٹی ہوتی ہے تو جاپان بھی شریک ہوگا۔ چین عسکری طاقت کے لحاظ سے دنیا میں  تیسرے نمبر پر ہے لیکن 2 ملین سے زائد تربیت یافتہ فوج رکھنے کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے، اس لئے جاپان، فلپائن اور تائیوان مل کر بھی بیجنگ کو چیلنج کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں گے، البتہ امریکا بہادر کی ایما پر ان پر بھی پاگل پن سوار ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ بھارت پر طاری رہتا ہے اور اسی پاگل پن کا کچھ مظاہرہ یوکرین کرچکا ہے۔ جسے وہ بھگت رہا ہے۔ بھارت کی بات کریں  تو امریکا اسے خطے کا چوہدری بنانا چاہتا ہے لیکن چین کی عسکری ومعاشی اور سفارتی برتری نے دہلی کے خواب اور امریکی منصوبے کو خاک میں  ملا دیا ہے۔ بھارت کی حربی صلاحیت پر امریکا کا اعتماد بڑھ رہا تھا جو 27فروری 2019ء کے بالاکوٹ آپریشن کے دوران پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد متزلزل ہوگیا ہے۔ پینٹاگون سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر پاکستان کے خلاف بھارت کی ایسی درگت بن سکتی ہے تو بیجنگ دہلی کا کیا حال کرے گا۔ اس کے باوجود خطے میں  بھارت کی پشت پناہی جاری ہے۔ جس کے اشارے بلوچستان سے مل رہے ہیں کیونکہ دہلی سرکار کھل کر شرپسندوں  کی پشت پناہی کررہی ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا میں  بدامنی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ ماضی میں  کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس تجزیئے کو مضبوط کرتی ہے۔ دہلی مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کروا رہا ہے۔ دہلی کی پشت پر واشنگٹن ہے کیونکہ خطے کی تقسیم کا مذموم منصوبہ ہے جس پر عملدرآمد کیلئے محرومی کے پروپیگنڈے کی آڑ لی جارہی ہے۔ بلوچستان کے جو دوست اس پروپیگنڈے کو اپنی حمایت سمجھ رہے ہیں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں استعمال کیاگیا کیونکہ امریکیوں  کی تاریخ رہی ہے کہ وعدہ خلافی کرنے میں  اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گوادر سے ڈیرہ اسماعیل خان تک دہشتگردی کی نئی لہر کے پیچھے دماغ پینٹاگون کا ہے۔ بدقسمتی سے افغان طالبان بھی امریکی ایجنڈے کو پورا کروانے میں  بھرپور استعمال ہورہے ہیں۔ امریکا ان کے ملک کو بھی تقسیم کرنے کا پلان رکھتا ہے۔ ابھی اس کی توجہ پاکستان اور ایران کی تقسیم اور دونوں ملکوں  کوکمزور کرنے پر ہے۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی ایجنڈے کو مکمل کرنے کیلئے پورا زور لگایا جارہا ہے۔ واشنگٹن نے عرب ملکوں  سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کا منصوبہ تقریباً مکمل کرلیا تھا۔ صرف اعلان ہونا باقی تھا لیکن 7اکتوبر 2023ء کے حماس کیالاقصیٰ آپریشن نے امریکی واسرائیلی منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ امریکا واسرائیل اس جنگ کیلئے آمادہ نہیں تھے لیکن یہ جنگ اب حماس کے ساتھ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خاتمے کو ہدف بناچکی ہے۔ 19مئی 2024ء کو ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ اور دیگر اہم افراد کا ہیلی کاپٹر میں  مارا جانا اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اس سے قبل 19اپریل کو اسرائیل نے ایران کی فوجی تنصیبات پر براہ راست حملے کئے اور یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر میزائل داغ کر دو ایرانی جنرلز سمیت 7افراد کو نشانہ بنایا تھا۔ جس کے جواب میں  14اپریل کو ایران نے براہ راست اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلز داغے۔ اس سے قبل حزب اللہ کو ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف حملہ کرنے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پھر 31جولائی کو تہران میں  ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری سے واپسی پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے باآسانی نشانہ بنایا جو ایران کیلئے انتہائی ہزیمت کا سبب بنا۔ ایرانی دارالحکومت کے ریڈ زون میں انتہائی اہم مہمان کو باآسانی نشانہ بنانا اس بات کو تقویت پہنچایا گیا کہ ایران میں جانے والا کسی بھی ملک کا حکمران یا لیڈر محفوظ نہیں  ہے۔ اگر ایران جوابی کارروائی میں  اسرائیل کا بڑا نقصان کرتا ہے تو اسرائیل کا ردعمل بھی شدید آئے گا۔ ویسے تہران کو خوفزدہ کرنے کیلئے جون میں  (نیمٹز کلاس ایئر کرافٹ کیریئر) آچکا تھا۔ اس کے بعد جارج واشنگٹن (سی وی این) ایئرکرافٹ کیریئر بھی ایران کو دباؤ میں  رکھنے کیلئے پہنچ چکا ہے۔ اگست کے دوسرے ہفتے میں  امریکی جوہری آبدوز بھی آچکی تھی۔ امریکا نے ایشیا سے یورپ تک اپنی عسکری طاقت کو نمایاں کردیا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ جوہری عسکری صلاحیت مکمل طور پر حاصل کرنے تک اس کا اسرائیل سے براہ راست ٹکراؤ نہ ہو۔ لیکن اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے باعث ایران کے عوام کا حکوت پر دباؤ بھی ہے۔ اس کے علاوہ حماس کا اعتماد بھی منزلزل ہونے کا خدشہ ہے۔ ایرانی حکومت دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگرچہ ایرانی اعلیٰ حکام اگست کے پہلے ہفتے میں کریملن بھی گئے تھے۔ وہاں  سخوئی (ایس یو، تھرٹی فائیو) لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی بات کی گئی لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں  آئیں۔ اگرچہ روس کو یوکرین جنگ کی وجہ سے سرمائے کی ضرورت ہے اور ایران کو اسرائیلی ایئرڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنانے کیلئے جدید لڑاکا طیارے چاہئیں۔ پس پردہ ڈیل مکمل لگتی ہے۔ بہرحال فی الحال امریکی ایجنڈا دنیا کے ہر خطے میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہاہے۔ اگر روس، چین، ایران یکجا ہوگئے اور پاکستان بھی امریکی اثر سے نکل گیا تو پھر اس خطے میں  پینٹاگون کا منصوبہ ناکام ہوگا اور یہی کچھ مشرق وسطیٰ اور ساؤتھ چائنا سی میں  بھی ہوگا۔

مطلقہ خبریں