Friday, October 18, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

منکی پاکس (Mpox)

عالمی صحت عامہ کے لئے خطرہ
ڈاکٹر ریحان خان
ایم پاکس (Mpox) (سابقہ نام منکی پاکس) ایک وائرل انفیکشن جو قریبی رابطے سے پھیلتا ہے۔ اسے دو برسوں میں دوسری بار عالمی صحت کیلئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اس وائرل بیماری کیلئے غیرمعمولی انتباہ جاری کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ افریقہ میں رواں سال 14,000 سے زیادہ کیسز اور 524 اموات پہلے ہی واقع ہوچکی ہیں جو گزشتہ پورے سال کے اعدادوشمار سے زیادہ ہیں۔ MPox ایک وائرل انفیکشن ہے جو بنیادی طور پر انسانوں اور جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ چیچک جیسے وائرس کے اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جسے ”آرتھوپوکس وائرس جینس“ کہا جاتا ہے۔ چیچک کی طرح، جو اب ختم ہوچکا ہے، MPox بھی اسی طرح کے پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ کاؤپاکس اور ویکسینیا۔ یہ وائرس اصل میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا لیکن اب انسانوں سے انسانوں کو بھی منتقل ہوتا ہے۔ یہ افریقہ کے جنگلات کے دوردراز دیہات میں جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں سب سے زیادہ عام ہے۔ ان علاقوں میں ہر سال اس بیماری سے ہزاروں کیسز اور سینکڑوں اموات ہوتی ہیں جن میں 15 سال سے کم عمر کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، تاہم اب یہ وائرس افریقہ سے باہر بھی پھیل رہا ہے۔ افریقہ سے باہر حال ہی میں سویڈن میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی جبکہ اب پاکستان میں بھی اس وائرس سے لوگوں کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ متاثر ہونے والا مردان کا رہائشی ایک شخص خلیجی ممالک سے پاکستان واپس آیا ہے، تاحال یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ مذکورہ مریض ایم پوکس کی کس قسم کا شکار ہوا ہے اور کیا یہ وہی ویریئنٹ ہے جس کی تصدیق افریقہ سے باہر پہلی مرتبہ سویڈن میں ہوئی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ”متاثرہ شخص کی کانٹیکٹ ٹریسنگ شروع کردی گئی ہے اور مزید لوگوں کے نمونے حاصل کئے جارہے ہیں۔“ پاکستان کی وزارتِ صحت نے اس بیماری کے بارے میں ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ”ایئرپورٹس اور داخلی راستوں پر اسکریننگ کے نظام کو مزید مضبوط کیا جارہا ہے۔“ تحقیق کے مطابق ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔ اس سے پہلے 2022ء میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔ یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پر یہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔ تغیرات کے نتیجے میں گزشتہ سال کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ”اب تک کی سب سے خطرناک“ قسم قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہوسکتی ہیں۔ اس وائرس سے متاثر ہونے والے شخص کو ابتدائی طور پر بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔ بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔ یہ دانے انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخرکار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زخموں کا سبب بن سکتی ہے۔ انفیکشن عام طور پر خودبخود ختم ہوجاتا ہے اور 14 سے 21 دن تک رہتا ہے۔ سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہوسکتے ہیں خاص طور پر منہ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس نے ایم پوکس کی عالمی صحت عامہ کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ڈبلیو ایچ او کا اسٹرٹیجک ایڈوائزری گروپ آف ایکسپرٹس فار امیونائزیشن، ایم پوکس کیلئے دو ویکسینز کی سفارش کرچکا ہے اور ان کی منظوری ڈبلیو ایچ او کی فہرست میں شامل قومی ریگولیٹری اتھارٹیز کے ساتھ ساتھ انفرادی ممالک بشمول نائیجیریا اور ڈی آر سی نے بھی دی ہے۔“ مزیدبرآں عالمی ادارہ صحت ان ویکسینز کو کم آمدنی والے ممالک کی رسائی میں لانے پر بھی تیزی سے کام کررہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت، یونیسیف اور GAVI جیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ ویکسینز حاصل کرکے انہیں تقسیم کرے گا، میں نے ایم پی اوکس ویکسین کیلئے ہنگامی استعمال کی فہرست کے عمل کو شروع کیا، جو کم آمدنی والے ممالک کیلئے ویکسین تک رسائی کو تیز کرے گا جنہوں نے ابھی تک اپنی قومی ریگولیٹری منظوری جاری نہیں کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت، تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر تشخیص، ویکسین، طبی نگہداشت کی فراہمی اور دیگر آلات تک مساوی رسائی کو آسان بنانے کیلئے کام کررہا ہے۔ ایم پوکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے۔ ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جِلد سے جِلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے۔ یہ وائرس زخمی جِلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔ بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے۔

مطلقہ خبریں