Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پیٹرو ڈالر سے آگے۔۔

فوجی اور اقتصادی طاقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں نت نئی تبدیلیوں پر جس ملک کو دسترس حاصل رہتی ہے وہ بالادست رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ پیٹروڈالر کا بھی عالمی سیاست میں کلیدی کردار ہے کیونکہ دُنیا کی توانائی کی ضروریات کا 85 فیصد تیل سے پورا کیا جاتا ہے، اس لئے گزشتہ 60 سالوں میں اس کا عالمی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے لیکن اب توانائی کے نئے ذرائع آنے کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم ہوتا جارہا ہے
زین العابدین
عالمی سیاست میں عسکری ومعاشی قوت کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔ فوجی، اقتصادی طاقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں نت نئی تبدیلیوں پر جس ملک کو دسترس حاصل رہتی ہے، وہ بالادست رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ پیٹروڈالر کا بھی عالمی سیاست میں کلیدی کردار ہے کیونکہ دُنیا کی توانائی کی ضروریات کا 85 فیصد تیل سے پورا کیا جاتا ہے، اس لئے گزشتہ 60 سالوں میں اس کا عالمی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے لیکن اب توانائی کے نئے ذرائع آنے کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم ہوتا جارہا ہے، تو کیا پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ دُنیا میں تیل کی دریافت امریکی ریاست پنسلونیا میں ہوئی۔ اگرچہ تیل کی تلاش کا ابتدائی مقصد لیمپ جلانا تھا تاکہ روشنی کا مناسب بندوبست ہوسکے۔ زمینی تیل کی دریافت سے قبل وہیل مچھلیوں سے تیل کشید کرکے لیمپ جلائے جاتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمینی یا پیٹرولیم تیل کی دریافت نہ ہوتی تو وہیل مچھلیاں بتدریج دنیا سے ناپید ہوجاتی۔ ”نیویارک ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق 1964ء میں امریکی تاجر ایڈون ڈریک سرمایہ کاروں سے مل کر ریاست پنسلونیا میں تیل کی تلاش کا کام کررہے تھے لیکن پے درپے ناکامی کے علاوہ اُن پر سرمایہ کاروں کا دباؤ بھی تھا کیونکہ کئی سالوں سے تیل کی تلاش کا کام جاری تھا اور سرمایہ کار تیل کے حصول سے مایوس ہوچکے تھے، انہیں اپنا سرمایہ ڈوبنے کا یقین ہو چلا تھا، لیکن 1964ء میں ایڈون ڈریک کو مغربی پنسلونیا میں روک آئل کے بلبلے زمین پر پھوٹتے ہوئے نظر آئے۔ کھدائی کے دوران تیل کا فوارہ سطح زمین سے تقریباً 21 فٹ کی بلندی تک پہنچ رہا تھا اور ایڈون ڈریک کی خوشی دیدنی تھی۔ ابتدا میں اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ آئندہ 100 سالوں میں اس تیل سے وہیل مچھلی کے تیل کی طرح صرف لیمپ نہیں جلائے جائیں گے بلکہ ریاستیں چلائی جائیں گی اور عالمی سیاست میں اس کے نتیجے میں پیٹروڈالر کا عمل میں آئے گا، جو پوری دنیا کی تجارت اور مالی لین دین کو کنٹرول کرے گا۔ پنسلونیا کے شہر پٹ ہول میں درجنوں میل کے دائرے میں 50 سے بھی کم لوگ آباد تھے، لیکن تیل کی دریافت کے ایک سال بعد ہی اس کی آبادی 10 ہزار سے تجاویز کر گئی، نئے ہوٹلز کھل گئے، دو ٹیلی گرام اسٹیشن اور ایک ڈاک خانہ بھی بن گیا لیکن ایک سال کے اندر ہی اس کی معاشی ترقی اور چمک دمک ماند پڑ گئی، یہ علاقہ تیل کی بدولت کو ئی خاص اہمیت حاصل نہ کرسکا۔ ہیش برگ پنسلونیا کا دوسرا بڑا شہر تو بن گیا اور اس کی موجودہ آبادی 3 لاکھ 3 ہزار سے بھی زائد ہوگئی۔ یہ Matilda کی بندرگاہ سے محض 144میل دور آباد ہے۔
تیل کی معیشت وسیاست سے منسلک افراد کو اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ عالمی اسٹرٹیجک پالٹکس میں کلیدی کردار ادا کرنے والے قدرتی تیل کی دریافت کہاں سے ہوئی۔ اگرچہ تاریخ داں یہ بھی کہتے ہیں کہ تیل کی دریافت چوتھی صدی میں سب سے پہلے چین میں کی گئی۔ جس کے لئے کوئی ڈرلنگ مشین تو نہیں تھی، اس لئے لمبے لمبے بانسوں کی مدد سے زمین کی گہرائی سے کالے رنگ کا چپکنے والا مادہ نکالا گیا، جسے صاف کرنے کے بعد ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن تیل کی اصل کہانی مارچ 1938ء میں امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلیفورنیا کے ذریعے شروع ہوئی، جس نے دمام آئل فیلڈ کے علاقے میں 1935ء سے ڈرلنگ شروع کی تھی، یہاں سے نکلنے والے 700 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کے بعد تیل وگیس کی موجودگی کی علامتیں نظر آنا شروع ہوگئیں۔ مسلسل 7 ماہ تک کھدائی کرنے سے مشینیں خراب ہونے کے باعث کام بند کرنا پڑا لیکن اس دوران آئل فیلڈ کے کئی مقامات پر کنویں کھودے جا چکے تھے۔ کنواں نمبر 7 جس کی کھدائی 1936ء کے موسم گرما میں شروع ہوئی تھی، میں اتنی دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ اسٹینڈرڈ آئل آف کیلیفورنیا کے حکام نے تیل کی تلاش پر مامور انجینئرز فریڈ ڈیوس اور میک اسٹنکی (Engineers Frd Davis and McStinkey) کو سان فرانسسکو واپس بلا لیا، اخراجات بڑھنے کی وجہ سے کام بند کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ وہی صورتِ حال پیدا ہوگئی جس کا سامنا 27 اگست 1959ء کو ایڈون ڈریک کے سرمایہ کار کمپنیز کو تھا لیکن اسی دوران سعودی عرب سے سان فرانسسکو ٹیلی گرام گیا جس میں دمام آئل فیلڈ کے کنواں نمبر 7 سے تیل کے ذخائر ابلنے کی اطلاع تھی۔ ابتدا میں یومیہ 16 بیرل تیل نکالا جانے لگا، چند ہفتوں بعد پیداوار 4000 بیرل یومیہ ہوگئی، 44 برس بعد 1982ء میں یہ کنواں بند کردیا گیا۔ اس دوران 5 اعشاریہ 32 ملین بیرل تیل نکالا جاچکا تھا۔ سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز اسے بابرکت کنواں کہتے تھے۔ تیل کو 1939ء میں ٹینکر کے ذریعے امریکا روانہ کیا جانے لگا، اس طرح سعودی عرب سے یہ تیل کی پہلی برآمد تھی، اس کے بعد مزید امریکی کمپنیز نے سعودی عرب کا رخ کیا، یوں 1949ء میں امریکی کمپنیز نے ایک مشترکہ کنسوریشم بنا لیا، جسے آرامکو کا نام دیا گیا، 1949ء تک یہ کمپنیز سعودی عرب سے 5 لاکھ بیرل تیل سالانہ نکالنے لگیں۔ 1958ء تک سعودی تیل کی پیداوار سالانہ 10 لاکھ بیرل تک پہنچ گئی۔ اس طرح سعودی عرب کے تیل پر امریکی کمپنیز کی اجارہ داری قائم ہوگئی، پھر سعودی حکام نے تیل کی آمدنی سے ہونے والے سرمائے سے آرامکو کے تمام اثاثے خرید لئے، چونکہ اس سودے میں امریکی کمپنیز کے مالکان کو ایک بہت بڑا سرمایہ ہاتھ آیا تو انہوں نے سعودی عرب چھوڑنے کے بعد شیورون، ٹیکساکو اور ایگزون موبائل جیسی کمپنیز بنا لیں لیکن اس کے باوجود سعودی تیل کے ذخائر پر امریکی کنٹرول ختم نہیں ہوا۔ اس سے قبل سعودی بادشاہ شاہ فیصل 1972ء میں آرامکو کا 20 فیصد شیئرز خرید چکے تھے۔ پھر 1980ء میں سعودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ امریکی کمپنیز کے تیل کے تمام اثاثے خرید لئے جائیں۔ جس کے 8 سال بعد 1988ء میں سعودی عربین آئل کمپنی یا سعودی آرامکو کا قیام عمل میں آیا۔ اب یہ دُنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو تقریباً 120 آئل اینڈ گیس فیلڈز دریافت کرچکی ہے۔ اس نے دنیا کی سب سے طویل پیٹرولیم پائپ لائن سعودی عرب کے مشرقی علاقے القیصومہ سے بحیرہ روم پر واقع لبنانی شہر صعیدا تک بچھائی تھا۔ 1948ء میں اس پر کام شروع ہو کر 1983ء تک موثر رہی کیونکہ اس کے بعد بڑے جہازوں کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی بڑی مقدار تیزی کے ساتھ مختلف خطوں میں پہنچائی جانے لگی۔ پیٹرولیم لاطینی زبان میں دو لفظوں پیٹرو اور اولیم کا مجموعہ ہے۔ پیٹرو کا مطلب پتھر اور اولیم کا مطلب تیل ہے۔ ابتدا میں تیل کی دریافت کا مقصد لیمپ جلانا اور روشنی پھلانا تھا، پھر یہ ذرائع آمدورفت کی ضرورت بنا۔ سب سے پہلے 1799ء میں فرانس کے انجنئیر نکولس جوزف کیوگنوٹ (French Engineer Nicolas Joseph Cugnot) نے تین پہیوں والی 3 مسافروں کی گنجائش والی کار بنائی، جس کا انجن بھاپ سے چلتا تھا، اس کے بعد 1885ء میں جرمن انجینئر Karl Benz نے پیٹرول سے چلنے والی کار بنائی۔ یہ بھی تین پہیوں اور تین مسافروں کی گنجائش رکھنے والی کار تھی۔ 1903ء میں پہلا ہوائی جہاز پیٹرول کے ذریعے اڑایا گیا۔ 39 منٹ طویل پرواز کا پہلا کامیاب تجربہ 1905ء میں کیا گیا۔ 1908ء میں پہلی عوامی پرواز فرانس کے لئے روانہ ہوئی، پھر 1909ء میں امریکا نے پیٹرول سے اڑایا جانے والا پہلا خصوصی جہاز تیار کروایا۔ اس کے بعد سے تو مسافر، مال بردار اور لڑاکا طیاروں کی تیاری کا نا ختم ہونے والا دور شروع ہوگیا۔ 1922ء میں پیٹرول سے چلنے والا بحری جہاز تیار کیا گیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی تلاش کا مقصد اندھیرا دور کرنے سے شروع ہو کر صنعتوں کے فروغ کے ساتھ آسان اور تیز رفتار خشکی، سمندری، فضائی اور خلائی سفر تک جا پہنچا۔ یہاں تک تو معاملہ درست تھا لیکن پھر اسے عالمی بالادستی کے لئے استعمال کیا جانے لگا، جس کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد شروع ہوا۔ (80 کی دہائی سے قبل یکم جولائی 1944ء میں بریٹن وڈز (Bretton Woods) کی عالمی مالیاتی کانفرنس کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں اچانک بڑا اضافہ ہوا تھا۔ 22 روزہ کانفرنس میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر نیو ہیمشائر میں 44 رکن ممالک کے 730 وفود شریک تھے۔ کانفرنس کا مقصد تجارت اور مالیات کا مشترکہ بین الاقوامی نظام قائم کرنا تھا تاکہ دنیا کو جوڑ کر رکھا جائے اور خوشحالی بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ تمام ملکوں کا اتفاق تھاکہ عالمی تجارت کے لئے ایک مشترکہ کرنسی ہونی چاہئے۔ چونکہ برطانوی شہنشاہیت آخری سانسیں لے رہی تھی تو برطانوی پاؤنڈ اسٹرلنگ عالمی کرنسی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس موقع پر معاشی ماہر جان مینارڈکینز (Economist John Maynard Keynes) نے بینکور، اورب اور یونیکورن نامی کرنسیز کی تجاویز پیش کیں لیکن امریکی اپنے منصوبے کے مطابق عمل کروانا چاہتے تھے اور ایسا ہی ہوا امریکا کے ذخائر میں سونا بہت تھا جس کی بنا پر کرنسی مضبوط تھی، دوسری عالمی جنگ کی فتح کا تاج بھی سر پر سجا تھا، اس لئے کانفرنس کے شرکاء نے ڈالر کو عالمی کرنسی تسلیم کرلیا۔ امریکا کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ یورپی بلاک اس کا ہمنوا بنا ہوا تھا جبکہ روس ایک بڑا ملک اور طاقت رکھنے کے باوجود یورپ کی حمایت سے محروم تھا۔ یوں 1944ء سے ڈالر کی عالمی ساہوکاری کا آغاز ہوا، جو گزشتہ 80 سالوں میں مضبوط ہوتا گیا۔ آٹھ جون 1974ء میں امریکی صدر رچڑڈ نکسن (Richard Nixon) نے سعودی عرب کے ساتھ پیٹرو ڈالر کا 50 سالہ معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت خام تیل کی خریداری کی ادائیگی صرف ڈالر میں کی جانی تھی۔ یعنی جو بھی ملک سعودی عرب سے تیل خریدے گا اس کی قیمت ڈالر میں ادا کرے گا۔ اس کے ساتھ دیگر تجارتی لین دین بھی ڈالر میں ہونے لگا لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت میں ڈالر کا استعمال اتنا اہم ہوگیا کہ ملکوں کی معیشت پر اس کے براہ راست اثرات پڑنے لگے۔ زرعی اجناس ہوں یا صنعتی اشیاء، انسانی استعمال کی ہر چیز کا تعلق پیٹرول سے مشروط ہوگیا۔ اس طر ح معیشت کا ہر شعبہ پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرنے لگا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی اہمیت کی وجہ سے عالمی سیاست پر اس کے اثرات نمایاں نظر آنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے ملک میں کرنسی کے کل ذخائر کا 60 فیصد ڈالر میں رکھتے ہیں۔ پیٹروڈالر کی اجارہ داری کے لئے امریکا نے جولائی 1944ء میں ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز جیسے ادارے قائم کرکے ان کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں بنا دیا تھا۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ جن ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات کے وسیع ذخائر ہیں وہ علاقائی اور عالمی پاور پالیٹکس میں اہم کردار ادا کرنے نہ لگیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق وینیزویلا 303 ارب بیرل، سعودی عرب 297 ارب بیرل، ایران 208 ارب بیرل، عراق 145 ارب بیرل، کینیڈا 163، کویت 101، متحدہ عرب امارات 98 ارب بیرل پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر رکھتے ہیں۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کا آئل پالیٹکس پر گہرا اثر ہوسکتا تھا لیکن پیٹرول کو بطور ہتھیار استعمال کرنا مغرب نے شروع کیا اور اس کی فروخت کی عالمی مارکیٹس پر اپنی کمپنیز کے ذریعے اجارہ داری قائم کرلی۔ یہاں تک کہ تیل کی پیدوار کے بڑے ممالک کی تنظیم اوپیک جسے 14 ستمبر 1960ء میں بغداد میں قائم کیا گیا لیکن اس کا ہیڈکوارٹر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کو بنایا گیا۔ مقصد تیل کی عالمی تجارت پر مغرب کی گرفت کو برقرار رکھنا تھا۔ ابتدا میں اس میں 5 ممالک سعودی عرب، ایران، عراق، کویت اور وینزویلا تھے، پھر 1961ء میں قطر اور 1962ء میں انڈونیشیا اور لیبیا شامل ہوئے۔ 1973ء کے تیل بحران تک اوپیک ممالک کی تعداد 12 ہوگئی تھی۔
سعودی عرب تیل کی پیداوار کا سب سے بڑا ملک ہے، جس کا 77 فیصد تیل ایشیائی منڈیوں اور 10 فیصد یورپ میں جارہا ہے۔ چین سعودی عرب سے یومیہ 17 لاکھ بیرل سے زائد تیل خریدتا ہے، جس کی ادائیگی 1974ء کے معاہدے کے تحت ڈالر میں کی جاتی ہے۔ اسی طرح اوپیک تنظیم کا ایک اور بڑا ملک روس جس کا تیل زیادہ تر یورپ میں خریدا جاتا ہے، اس کی ادائیگی بھی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ 2024ء میں دنیا میں تیل وگیس کی سالانہ تجارت 5.4 ٹریلین ڈالر سے زائد ہونے کا اندازہ ہے۔ تقریباً 50 سالہ کنٹرول کے بعد اس نظریے کو پروان چڑھایا جانے لگا کہ پیٹروڈالر سے نجات حاصل کی جائے کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دُنیا میں جن ممالک کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں اس کا مقصد پیٹروڈالر کی حکمرانی کو برقرار رکھنا بھی کہا جاتا ہے۔ روس، افغانستان جنگ اس کی بڑی مثال ہے، چونکہ 90 کی دہائی میں روس امریکا کو چیلنج کررہا تھا۔ عراق، کویت/امریکا کا عراق پر حملہ اور لیبیا میں سیاسی انقلاب کے پس پردہ پیٹروڈالر ہی تھا۔ امریکا نے سعودی حکمرانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے عراق کو خطرے کے طور پر پیش کیا۔ ان سب اقدامات کے باوجود ڈالر کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کا کام جاری رہا۔ مارچ 2022ء کے آخر میں امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ میں خبر شائع ہوئی تھی کہ سعودی عرب چین سے تیل کی فروخت کی ادائیگی یوآن میں لینے پر غور کررہا ہے۔ رواں سال جون میں سعودی عرب نے تیل اور دیگر سامان کی ادائیگی کے لئے چینی یوآن، جاپانی ین، یورو اور بٹ کوائن جیسی ڈیجیٹل کرنسی کو بھی اپنانے کا ذکر کیا اور پیٹروڈالر کے 50 سالہ معاہدے کی معیاد پوری ہونے پر مزید بڑھانے سے انکار کردیا۔
16 جون 2009ء میں روس، چین، برازیل، انڈیا اور ساؤتھ افریقہ نے ”برکس“ تنظیم بنائی۔ تاکہ پیٹروڈالر کا توڑ کیا جاسکے۔ جواب میں امریکا نے روس کو یوکرین کے ساتھ جنگ میں الجھا کر اس کی معیشت کمزور کرنے کی کوشش کی۔ حالیہ مشرق وسطیٰ کی جنگ بھی پیٹروڈالر کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ برازیل کو ”برکس“ کا شریک کار بننے کی سزا معاشی بحران میں مبتلا کروا کردی گئی اور اسے IMF کے سامنے لاکھڑا کیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں براعظم افریقہ کے معاشی طور پر سب سے مضبوط ملک ساؤتھ افریقہ کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ کیا جائے جبکہ بھارت کی معیشت میں ابھی وہ دم خم نہیں ہے جو پیٹروڈالر کے لئے خطرہ بن سکے، البتہ چین کی عالمی معاشی و سائنسی اجارہ داری پیٹروڈالر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کے لئے تائیوان اور ساؤتھ چائنا سی کا محاذ کھولا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال برکس کے 15ویں سربراہی اجلاس میں عالمی مالیاتی نظام کی اصلاح کے ٹارگٹڈ پروگرام پر زور دیا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ ہم کثیرالجہتی کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا مؤقف تھا کہ برکس کے مستقبل کے مالیاتی لین دین میں ڈالرائزیشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ لاطینی امریکا کے ملک برازیل کے صدر لولاداسلوا نے برکس تجارتی کرنسی کے قیام کی حمایت کی تھی اور ڈالر کو ختم کرکے برکس ممالک کی کرنسی مالی لین دین شروع کرنے کی بات دُہرائی تھی۔ میزبان جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا نے کہا تھا کہ عالمی معیشت کا ایک چوتھائی اور عالمی تجارت کا 20 فیصد حصہ برکس ممالک کے پاس ہے اس لئے مالیاتی نظام میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔

مطلقہ خبریں