Friday, October 18, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چھ ستمبر۔۔ یومِ دفاع پاکستان

کسی بھی زاویہئ نگاہ سے دیکھیں تو قائداعظم محمد علی جناح کے بتائے گئے اصول (ایمان، اتحاد، تنظیم) 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے۔۔!!
زاہد اعوان
چھ ستمبر کا دن پاکستانی قوم کے لئے ایک قابلِ فخر قومی دن ہے۔ یہ ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایک انتہائی یادگار دن ہے جب ہم سے لگ بھگ چھ گنا بڑے ملک (بھارت) نے افرادی تعداد کی برتری اور زیادہ دفاعی وسائل کے نشے میں چور ہو کر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ کردیا تھا مگر غیور اور متحد پاکستانی قوم نے اپنے دشمن کے جنگی حملے کا اس بہادری اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جارحیت کرنے والے بڑے ملک انڈیا کی فوج کو غیور پاکستانی فورسز نے ناکوں چنے چبوا دیئے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے دنیا پر واضح کردیا کہ جنگیں صرف مہلک ہتھیاروں اور بڑی فوجوں سے نہیں بلکہ قومی اتحاد، عزم و استقلال اور جذبے کے ساتھ جیتی جاتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی حب الوطنی اور مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور جانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے مل کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
چھ ستمبر 1965ء کو رات کے اندھیرے میں بزدل بھاتی فوج کا حملہ دراصل پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین، دوقومی نظریہ، قومی اتحاد اور جذبہ حب الوطنی کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا جسے جری قوم نے کمال وقار اور بے مثال جذبہئ حریت سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس امتحان میں اپنی ثابت قدمی اور فتح کو بھی یقینی بنایا۔ 17 روزہ اس جنگ میں لازوال قربانیوں کی مثال پیش کرکے پوری پاکستانی قوم نے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اسے دشمن کا سامنا کرنا اور اس کے مقابل کامیابی حاصل کرنا ہے۔ جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکری طاقتوں پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کے حملے کو پسپا کرکے اسے شکست دینے کے سوا کوئی اور مقصد تھا۔ پوری قوم نے اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، شہری دفاع کے رضاکار، مزدور، کسان اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت ہر کسی کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ ؎
”اے مرد مجاہد جاگ ذرا! اب وقت شہادت ہے آیا“
وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط دشمن کے مقابلے میں پاکستان نے صرف اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو شکست فاش دی۔ بھارت اور پاکستان کی مشترکہ سرحد رن آف کچھ پر طے شدہ قضیے کو ہندوستان نے بلاجواز زندہ کیا، فوجی تصادم کے نتیجے میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کردیا کہ آئندہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا، اس کے باوجود پاکستان نے بھارت سے ملحق سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کئے۔ صرف اپنی مسلح افواج کو معمول سے زیادہ الرٹ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ 6 ستمبر کو اندھیرے میں جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو آناً فاناً پوری قوم، فوجی جوان و افسر، سرکاری ملازمین اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ فوری جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے قوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر ایوب خان کے اس جملے کہ ”پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے“ نے پوری قوم میں ایک نیا ولولہ بڑھ دیا تھا۔ پاک فوج نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں بلکہ انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کردیا۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی لاہور کے جم خانہ میں شام کو محفل سجانے کا خواب میجر عزیز بھٹی شہید جیسے سپوتوں نے چکناچور کردیا۔ چونڈہ کے سیکٹر (بھارت کا پسندیدہ اور اہم محاذ) کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارود سے نہیں، اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ پاکستان کے محدود عسکری وسائل کے باوجود بھارت کے اس سطح کے نقصان اور اس کی تباہی کو دیکھ کر بیرونی دنیا بھی افواجِ پاکستان کی تعریف اور حکمت عملی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکی۔ پاکستانی عوام نے بھی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور دشمن کو بتا دیا کہ اس قوم کے جذبہئ شہادت کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔
ستمبر 1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلانِ جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کرکے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پیٹرولنگ شروع کرائی گئی۔ پاکستان کے بحری، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اس لئے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لئے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامانِ تجارت لانے اور لے جانے والے بحری جہاز بلاروک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر ہی نہ آنے دیا گیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہے بھارت کے تجارتی جہاز سرسوتی اور دیگر کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیرحراست و زیرتحویل کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7 ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی، بھارت کے ساحلی مستقر دوارکا پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئی۔ دوارکا قلعہ پر نصب ریڈار پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20 منٹ تک اس دوارکا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوارکا تباہ ہوچکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف بھارت کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ بھارتی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ بھارتی جہاز ”تلوار“ کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لئے بھیجا گیا مگر وہ بھی ”غازی“ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا باز ”گھوڑوں“ کو تیار کر رکھا تھا جیسا کہ مسلمانوں کو دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔ ہمارے ہوا باز 7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف اسکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا تو دوسری طرف اسکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور اسکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علا الدین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کردیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے بھارت کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ہلواڑا بنا دیا۔ پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کردیا کہ وہ فرمان قائداعظم کے مطابق Second to None ہے۔ 1965ء کی جنگ کا غیرجانبداری سے اور غیرجذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اور خونخوار شکار کو پاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کرلیا، اور یہ سب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بتائے گئے اصول (ایمان، اتحاد، تنظیم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔ کسی بھی زاویہئ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ ہر طرح کے فرق اور اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا عملی مظاہرہ تھا۔ آج وطن عزیز پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، ان سے نمٹنے کے لئے بھی ہمیں 6 ستمبر 1965ء جیسے جذبے اور اتحاد کی ضرورت ہے۔

مطلقہ خبریں