Friday, October 18, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین تائیوان کشیدگی اور امریکی مفادات۔۔

جنگ عظیم دوئم کے بعد سے امریکا کی خواہش رہی ہے کہ تمام دُنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں
گزشتہ دو تین ماہ میں امریکا نے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت کے دو تین بڑے اعلانات کئے ہیں جن میں جدید F-16 طیاروں کی دیکھ بھال اور پرزہ جات کی فراہمی شامل ہے، چین نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف تائیوان کے گردونواح میں فوجی موجودگی اور مشقیں بڑھا دیں ہیں بلکہ امریکا کے ساتھ ”تخفیف اسلحہ“ اور ”ایٹمی اسلحہ پر کنٹرول“ پر ہونے والے مذاکرات بھی تعطل کے شکار کر دیئے ہیں
ڈاکٹر احمد سلیم

اسرائیل کی غزہ میں بدمعاشی اور یوکرین جنگ شاید امریکا کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے لئے چھوٹی مارکیٹ تھی کہ امریکا بہادر کی بائیڈن حکومت جاتے جاتے چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی پر بھی تیل ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 1895ء میں جاپان نے چین کو شکست دے کر ”تائیوان“ پر قبضہ کرلیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد ”رپبلک آف چائنا“ (تائیوان کا پرانا، اصل اور سرکاری نام) پر جاپان کا کنٹرول ختم ہوگیا۔ لمبی خانہ جنگی اور کمیونسٹ افواج کی فتح کے بعد موجودہ چین (پیپلز ریپبلک آف چائنا) وجود میں آیا اور اس کا دعویٰ ہے کہ تائیوان تاریخی طور پر چین کا حصہ ہے اور دنیا میں صرف ”ایک چین“ ہے۔ یاد رہے کہ 1971ء میں اقوام متحدہ نے تائیوان کی رکنیت ختم کرکے ”پیپلز رپبلک آف چائنا“ کو اقوام متحدہ کا رکن تسلیم کرتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے تھے (بذریعہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2758)۔ اسی لئے اب تائیوان اقوام متحدہ یا اس کے کسی ذیلی ادارے کا رکن نہیں ہے اور امریکا بھی سرکاری طور پر چین کا ”ون چائنا“ دعویٰ قبول کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تائیوان چین کا حصہ ہی ہے، لیکن بہت سے دوسرے عالمی معاملات کی مانند یہاں بھی امریکا کے قول اور فعل میں واضح تضادات موجود ہیں اور امریکا عملی طور پر تائیوان کی بطور الگ ملک حمایت کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ میں امریکا نے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت کے دو تین بڑے اعلانات کئے ہیں جن میں جدید F-16 طیاروں کی دیکھ بھال اور پرزہ جات کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے بعد بائیڈن حکومت نے اشارے دیئے کہ وہ تائیوان کے ساتھ مزید فوجی تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ چین نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف تائیوان کے گردونواح میں فوجی موجودگی اور مشقیں بڑھا دیں ہیں بلکہ امریکا کے ساتھ ”تخفیف اسلحہ“ اور ”ایٹمی اسلحہ پر کنٹرول“ پر ہونے والے مذاکرات بھی تعطل کے شکار کر دیئے ہیں۔ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے چینی حکومت کے ترجمان ”لین جیان“ نے کہا کہ اس تعطل کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر ہے۔ دوسری جانب امریکی حکومت تائیوان کا ساتھ دینے کے اعلانات کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان اعلانات کا اصل مقصد یہ ہے کہ تائیوان، جو کہ کمپیوٹر چپس کا دنیا میں سب سے بڑا تیار اور فروخت کنندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط معیشت بھی ہے، جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ امریکی اور نیٹو اسلحہ خریدے۔ یاد رہے اس سے قبل امریکا نے تائیوان کو 2015ء میں تقریباً 2 ارب ڈالر، 2018ء میں 600 ملین ڈالر، 2019ء میں سوا دو ارب ڈالر اور 2020ء میں 4 ارب ڈالر، کا اسلحہ فروخت کیا۔ بزنس اسٹڈی میں پہلا اصول یہ پڑھایا جاتا ہے کہ آپ اپنی ”پروڈکٹ“ کے لئے ”پلیس“ یعنی جگہ بنائیں۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکا کے پاس تمام دنیا کو بیچنے کے لئے اسلحہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے جنگ عظیم دوئم کے بعد سے امریکا کی خواہش رہی ہے کہ تمام دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں یا پھر کم از کم بہت سے امیر ممالک جنگ کے خوف میں مبتلا رہیں۔ وجہ صاف ہے۔ کہیں جنگ کا میدان گرم کر کے، کہیں دو ممالک کو ایک دوسرے سے ڈرا کر، کہیں دہشت گردی کا راگ الاپ کر تو کہیں امن کے نام پر تمام دنیا میں اسلحہ کی فروخت اور ”تحفظ“ فراہم کرنے کی فیس کے طور پر صرف معاشی فوائد حاصل کرنا گندہ سہی لیکن امریکا کا من پسند ”دھندہ“ ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران امریکا عراق کو اسلحہ بیچتا رہا اور پھر عراق اور صدام حسین کا جو حشر ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایران سے سعودی عرب کو ڈرا کر سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر وہاں فوجی اڈے (جن کا خرچہ سعودی ذمہ داری ہے) قائم کرنے کے علاوہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے ساتھ سعودی عرب سے تیل کی یقینی ترسیل، تیل کی تجارت امریکی کرنسی میں اور تمام دنیا (خاص طور پر عالم اسلام) میں سعودی حمایت بونس کے طور پر امریکا کو میسر ہے۔ بات صرف سعودی عرب تک نہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اپنے اعلان کردہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ نے 2016ء میں خلیجی ممالک کو 33 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ امریکا کی ”ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی“ کے مطابق امریکا نے صرف 2017ء میں کویت کے ساتھ 3266 ملین ڈالر، قطر کے ساتھ 700 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات کے ساتھ پانچ بلین ڈالر اور عراق کے ساتھ 1319 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے معاہدے کئے۔ اسلحے کی فروخت سے پیسے کمانے کے لئے دوغلی پالیسیاں رکھنا امریکا کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ 2017ء میں سعودی عرب اور قطر کی کشیدگی کے فوری بعد امریکا نے سعودی عرب کے ساتھ 350 بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا اور اس کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر قطر کے ساتھ بھی 12 بلین ڈالر کے F-15 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کرلیا۔ امیر اسلامی ممالک (جنہیں امریکا دوست کہتا ہے) اور چین (جو امریکا کا اعلان کردہ حریف ہے) تو ایک جانب امریکا کی جنگوں اور سامانِ حرب سے کمائی کی تاریخ اور عادت بہت پرانی ہے جس سے آج تک کوئی نہیں بچا۔ جنگ عظیم دوئم میں فتح کے بعد امریکا نے اپنے اتحادیوں تک سے جنگ کے خرچے کے نام پر اصل سے کئی گنا زیادہ وصول کیا۔ برطانیہ کی مثال لیں تو برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم میں استعمال ہونے والے اسلحے کی قیمت اور قرضے کی آخری قسط امریکا کو 2006ء میں ادا کی تھی۔ امریکا نیٹو کی سرگرمیوں پر آنے والے اخراجات میں اپنی آمدنی کا 3.7 فیصد حصہ دیتا ہے لیکن بدلے میں اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے نیٹو ممالک کی سیاسی اور فوجی طاقت کو تمام دُنیا میں استعمال کرتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ امریکا کے لئے بہت سستا سودا ہے۔ موجودہ دور میں امریکا کی ”جنگ کی مارکیٹنگ“ اور دوغلی پالیسیوں کی مثال دیکھنی ہو تو امریکا نے یوکرین کے میزائل اور ایٹمی اثاثے ختم کرواتے وقت یوکرین کو اس کی سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔ امریکی ”ہلہ شیری“ میں آ کر جب یوکرین نے روسی مفادات کے خلاف کچھ ایسے سخت اقدامات کر لئے جن کے نتیجے میں روس نے یوکرین پر (دوسری مرتبہ) حملہ کردیا تو امریکا اور نیٹو اخباری بیان بازی اور کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہ کرسکے۔ اب کہیں جا کر یوکرین کو ترسانے اور احسان جتانے کے بعد امریکا بلاواسطہ طور پر F-16 طیارے اور اسلحہ یوکرین کو دینے کے اعلانات کررہا ہے۔ اسی طرح جو F-16 طیارے کبھی پاکستان پر احسان کرکے ہمیں فروخت کئے گئے تھے، امریکا وہی F-16 بھارت کو بیچنے کی کوششیں کرتا رہا۔ ان سب عالمی سازشوں کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دُنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ ہوتی رہے یا کم از کم جنگ کا خوف قائم رہے تاکہ امریکا کی اسلحہ ساز فیکٹریاں آباد اور معیشت اور ڈالر مضبوط رہے۔

مطلقہ خبریں