Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اسپیس ٹیکنالوجی۔۔ خلا مستقبل کا میدانِ جنگ۔۔

چین کے خلا میں  970سٹیلائٹ تعینات ہیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں امریکا سب سے آگے، روسی جوہری ہتھیار اسپیس میں موجود ہیں، امریکی انٹیلی جنس، دُنیا کی پہلی خلائی فوج روس نے 1992ء میں بنائی، سیٹلائٹس کا جاسوسی اور عسکری مقاصد کے لئے استعمال، خلا میں 7 ہزار سیٹلائٹس 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے محوگردش، ہر پانچواں سیٹلائٹ عسکری مقاصد کے لئے ہے
زین العابدین

عالمی طاقتوں کے درمیان مسابقت کی نہ ختم ہونے والی دوڑ جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں انڈسٹریل ریس شروع ہوئی۔ جس میں برطانیہ سب سے آگے تھا۔ پھر امریکا بہت تیزی سے آگے نکلتا چلا گیا۔ امریکا کی تیز رفتار ترقی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی نمایاں رہی۔ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز میں  بھی امریکی بالادست رہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے میدان میں امریکا 159 یونیورسٹیز کے ساتھ آگے ہے جبکہ چین میں اے آئی کی اب تک صرف 29 جامعات ہیں۔ اسی سے ملتے جلتے نتائج اسپیس ٹیکنالوجی کے بھی ہیں۔ جہاں روس، امریکا اور چین ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی یہ دوڑ انسانیت کے لئے سودمند رہتی تو ٹھیک تھا۔ ہر جدید ٹیکنالوجی سے منفی اور مثبت دونوں فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجیز کو عسکری بالادستی اور طاقت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے، جس سے کرۂ ارض انتہائی خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں چین نے خلا میں  970سٹیلائٹ تعینات کئے ہیں۔ جس کا مقصد اینٹی سٹیلائٹ میزائل، الیکٹرانک جیمرز، روبوٹ گریپنگ، بمبار طیاروں پر حملہ اور خلا میں خلل ڈالنا ہوسکتا ہے، کیونکہ دوسری جانب یہ سٹیلائٹ جنگ کے دوران امریکی طیارہ بردار بحری بیڑوں، بحری جہازوں، زمینی فورسز اور فضائی طیاروں پر حملے کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ چین نے رواں سال مارچ سے جون تک 20 سے زائد جدید سٹیلائٹس خلا میں تعینات کئے ہیں۔ وہ امریکا اور اس کے اتحادی افواج کے خلاف طویل فاصلے تک درست نشانہ لگا سکتے ہیں۔ چینی دفاعی سائنس دان کاؤنٹر اسپیس آپریشنز کو علاقائی تنازعات میں امریکی فوجی مداخلت کو روکنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان اقدامات سے بحرالکاہل میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ امریکی فضائیہ کے سیکریٹری ”فرینک کینڈل“ کا کہنا ہے کہ سینکڑوں اینٹی سٹیلائٹ ہتھیاروں کے مدار میں رہنے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سٹیلائٹ شدید خطرے میں ہیں۔ چین منظم طریقے سے کاؤنٹر اسپیس کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔ امریکی نیول وار کالج کے پروفیسر ANDREN ERICKSON کہتے ہیں کہ یہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ مدار میں چینی مصنوعی سیاروں کی بڑی تعداد ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں بھی چین آگے نکل چکا ہے۔ چین جدید جاسوسی اسٹرائیک کمپلیکس کی تعمیر سے امریکا کے لئے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے جبکہ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق روس نے بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار اسپیس میں پہنچا دیئے ہیں۔ روسی ایرواسپیس فورس کو وزارتِ دفاع کی سفارشات پر یکم اگست 2015ء میں تشکیل دیا گیا تھا، جس کا ہیڈکوارٹر ماسکو میں ہے۔ ایئر اینڈ اسپیس فورس چار لاکھ 30 ہزار پر مشتمل ہے، جس میں ایک لاکھ 45 ہزار روسی فضائیہ، ایک لاکھ 50 ہزار اسپیس فورسز اور ایک لاکھ 35 ہزار میزائل ڈیفنس فورس شامل ہے۔ دُنیا کی پہلی خلائی فوج روس نے 1992ء میں بنائی تھی، جسے 1997ء سے 2001ء اور 2001ء سے 2011ء میں اسٹرٹیجک راکٹ فورس میں تبدیل کردیا گیا۔ 2021ء میں روس کی خلائی عسکری صلاحیت نے امریکا کو چونکا کر رکھ دیا، کیونکہ 1982ء میں سوویت یونین کے JISNDS-1408 نامی جاسوسی سٹیلائٹ کو جب خلا میں بھیجا گیا تھا تو 2 سال بعد وہ ناکارہ ہو کر اپنے مدار میں گردش کررہا تھا، جسے روس نے سٹیلائٹ میزائل کے ذریعے تباہ کیا۔ اس سیٹلائٹ کے 1500 ٹکڑے خلا میں  بکھر گئے تھے۔
ہارورڈ سینٹر برائے فلکیات کے جوناتھن میکڈویل کا کہنا ہے کہ اپریل 2021ء کے اعدادوشمار کے مطابق خلا میں  7ہزار سے زائد سیٹلائٹس 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہے ہیں۔ جنہیں ٹیلی وژن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ، میٹ انفارمیشن اور جہاز رانی کے لئے استعمال کیا جارہاہے لیکن گزشتہ ایک عشرے سے ان سیٹلائٹس کو عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ زمینی فوج کی مدد کے لئے جاسوسی کی جارہی ہے۔ خلا سے مخالف فوج کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے علاوہ ان کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ روس یوکرین جاری جنگ میں امریکی سیٹلائٹ کے ذریعے روسی افواج کی پیش قدمی سے یوکرین کو آگاہ کیا گیا۔ جس کا روسی افواج کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح غزہ جنگ میں بھی اس کا استعمال دیکھنے میں آرہا ہے۔ دی اکنامسٹ میں دفاعی ایڈیٹر کہتے ہیں کہ زمین پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حملے آنے والے وقت میں سائبر اسپیس وار کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ جنگ کی جڑیں زمین پر ہی رہیں گی لیکن اس کا مورچہ خلا میں بنایا جاسکتا ہے۔ خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس میں سے ہر 5 واں سیٹلائٹ ملٹری سیٹلائٹ ہے جسے جاسوسی اور عسکری مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
سینٹینل ون نامی ریڈار سیٹلائٹ کے ذریعے یوکرین کے اردگرد روسی افواج کے اڈوں کی تصاویر لی جاتی رہی ہیں۔ روس کی حالیہ خلائی پیش رفت اور جوہری ہتھیاروں  کے استعمال کی دھمکی اسی کا جواب ہے۔ خلائی ماہرین کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ خلا میں  سب سے زیادہ خلائی جہاز اور سیٹلائٹس رکھنے والا ملک ہی طاقتور ہوسکتا ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کے پاس بہت سے سیٹلائٹس نہیں  ہیں لیکن وہ GPS سنگنلز کی فریکوئنسی کو جام کرکے لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے خلا کو متاثر کرسکتے ہیں۔ 27 اگست 2020ء میں امریکا نے NROL-44 نامی جاسوسی سیٹلائٹ بھیجا تھا، امریکی خلائی ادارے ناسا کے سابق سائنسدان ڈیوڈ بیکر کے مطابق اس کا وزن 5 ٹن ہے۔ کمان کی شکل کے اس سیٹلائٹ کی چوڑائی 110 میٹر ہے، اس کا مقصد موبائل فونز تک رسائی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈارک نیٹ پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کا پتہ لگانا بھی تھا۔ دوسرا NROL-101 نامی سٹیلائٹ خلا میں نیوزی لینڈ کے اسپیس سینٹر سے بھیجا گیا تھا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کنیورل (Cape Canaveral) اسپیس سینٹر سے جنوری 2020ء میں NROL-151 نامی ملٹری سٹیلائٹ بھی روانہ کیا گیا تھا۔ امریکا کا سرکاری ادارہ National Reconnaissance خلا میں فوجی جاسوسی سیٹلائٹ بھیجنے کا نگراں ہے۔ جو 1995ء سے اورائن پروگرام کے تحت جاسوسی سیٹلائٹ کا نظام چلا رہا ہے۔ 2020ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو خلائی فورس کے قیام کا حکم بھی دیا تھا۔ ٹرمپ نے زمین، فضاء اور سمندر کے بعد خلا کو چوتھا میدانِ جنگ قرار دیا تھا۔ جس کا مقصد زمین اور چاند کے درمیان محاذ پر موجود دشمنوں اور ان کی سرگرمیوں  پر نظر رکھنا تھا۔ چین کی حالیہ خلائی پیشرفت اور روسی دھمکیوں  کے بعد خلا مستقبل کا میدانِ جنگ بنتا نظر آرہا ہے۔ جہاں ہونے والی عسکری جھڑپ زمین کی بقا کو غیریقنی بنا دے گی۔ عالمی طاقتوں کی خلائی فورسز اور خلا میں جوہری ہتھیاروں، میزائلز اور راکٹس کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ خلا میدانِ جنگ بننے جارہا ہے۔

مطلقہ خبریں