مشرق وسطیٰ کی جنگ کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کے بیروت پر حملے میں حزب اللہ کے کمانڈر سید حسن نصراللہ، جنوبی محاذ کے کمانڈر علی کراکی، حزب اللہ کے میزائل یونٹ کے کمانڈر محمد علی اسماعیل ان کے نائب حسن احمد اسماعیل، ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سینئر کمانڈر عباس نلفروشان اور حسن نصراللہ کی بیٹی زینب سمیت 11 افراد مارے گئے جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے 5 گھنٹے تک حزب اللہ کے زیرزمین ہیڈکوارٹر کو تختہئ مشق بنائے رکھا۔ اس دوران 85 بنکرز بسٹر بم گرائے۔ اسرائیلی ہاٹ ویلیو ٹارگٹ کے بچنے کے تمام امکانات کو ختم کردینا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب رہے۔ حملے کی اجازت اسرائیلی صدر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ٹیلی فون پر دی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ سید حسن نصراللہ کی عمارت میں موجودگی کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران اب تک اسرائیل کا پلڑا بھاری ہے۔ وہ جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے اپنے مقررہ اہم اہداف کو باآسانی نشانہ بنا رہا ہے۔ 31 جولائی کو تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ان کی قیام گاہ میں نشانہ بنایا۔
اس حملے کے ذریعے اسرائیل نے ایران کو یہ بھی پیغام دیا تھا کہ وہ چاہتا تو ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب کو بھی نشانہ بنا سکتا تھا۔ اس سے قبل 19 مئی کو ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہ اور دیگر ایرانی رہنما ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے تھے۔ آذربائیجان ایران کے سرحدی علاقے میں ہونے والے اس فضائی حادثے میں بھی اسرائیل کے ملوث ہونے کے شواہد تھے۔ اسرائیل گزشتہ چند ماہ میں اپنے بڑے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اب اس کا اگلا ہدف ایرانی سپریم لیڈر، حوثی ملیشیا انصار اللہ کے سربراہ عبدالمالک الحوثی ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی۔ اقوام متحدہ، مشرق وسطیٰ تنازع میں بھی بے بس رہا ہے۔
عالمی ادارہ اپنی 1947ء کی قرارداد 181 پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ عربوں اور یہودیوں کے اس تنازعے نے 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے باقاعدہ ریاست بن جانے سے شدت اختیار کرلی تھی کیونکہ صیہونی، جرمنی اور دیگر ملکوں سے بھاگ کر فلسطین آئے تھے اور خطے کے مالک بننے لگے تھے۔ جس کی وجہ سے جنگ ہوئی جو 1949ء میں اسرائیل کی کامیابی پر ختم ہوئی۔ اس میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے اور خطہ تین حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ایک اسرائیلی ریاست، دوسرا دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور تیسرا حصہ غزہ کی پٹی تھا۔ جو فلسطینیوں کو کسی طور پر منظور نہ تھا۔ پھر 1956ء میں مصر کی جانب سے سوئز کینال کو تحویل میں لینے پر دوسری جنگ ہوئی جس میں مصر، فلسطین، اردن اور شام کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ہوا۔ 1967ء میں 6 روزہ جنگ کے بعد خطے میں اسرائیل کا کنٹرول مزید بڑھ گیا۔
اکتوبر 1973ء میں بھی اسرائیل عرب ممالک پر حاوی رہا۔ 1993ء اور 1995ء کے اوسلو معاہدوں پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ 2006ء میں اسرائیل حزب اللہ کی 33 دنوں کی جنگ میں اسرائیل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔ اس تنازعے کو حل نہ کرنے کے باعث دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسی طرح روس، یوکرین جنگ بھی طویل ہوتی جارہی ہے۔ فروری 2022ء میں شروع ہونے والی اس جنگ کودفاعی تجزیہ کار چند دنوں کی جنگ قرار دے رہے تھے لیکن امریکا، برطانیہ اور یورپ کی پشت پناہی سے یوکرین مقابلہ کررہا ہے۔ اس جنگ میں امریکی و یورپین اسلحہ کا روس کے خلاف استعمال ماسکو کو مشتعل کرسکتا ہے۔ جس کا اظہار روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کئی بار کرچکے ہیں۔ اگر یوکرین جنگ کی وجہ سے طاقتور ممالک ٹکرائے تو یہ جنگ زمین سے خلا تک کا محاذ کھول دے گی۔ اسی طرح جنوبی ایشیا میں کشمیر کا تنازع بھی خطے کے امن کو کسی بھی وقت متاثر کرسکتا ہے۔ بھارت کے جارحانہ اقدامات کو روکا نہیں گیا تو ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ ایک اور عالمی تنازع جنوبی بحرِچین کا ہے۔ چین اور فلپائن بحری حدود کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف آستین چڑھا کر رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے چھوٹے بحری جہازوں اور شکاری بوٹس کے عملے کے درمیان تصادم کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ جو کسی بھی وقت بڑی لڑائی میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین اور بھارت کے درمیان تنازع ہے۔ وادی گلوان میں دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپ ہوتی رہی ہے۔ عالمی ادارے کو دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان زمینی اور بحری تنازعات کا حل نکالنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے 79 ویں اجلاس میں جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے اپنی تقریر میں غزہ کو محور بنائے رکھا۔ وہاں کی سنگین صورتِ حال کا منظرنامہ پیش کیا۔ انہوں نے فوری جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر زور دیا۔
لیکن ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی رہی۔ جسے متعلقہ ممالک نے سننا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسی اجلاس کے دوران اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ کو نشانہ بنا کر جنگ کا دائرہ لبنان تک بڑھا دیا ہے۔ اس کے مستقبل کے مزید اہداف جنگ کو پورے خطے تک لے جاسکتے ہیں۔ عرب سمیت تمام اسلامی ملکوں کی بے بسی بھی قابل غور ہے۔ 57 اسلامی ممالک متفقہ پالیسی بنانے میں ناکام ہیں۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی جارحیت برھتی جارہی ہے۔ عالمی اداروں کے علاوہ اُمہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کے اقدامات اور پیش قدمی کے آگے بند باندھے۔ اسرائیل غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد بیروت کا بھی وہی حال کرے گا۔ پھر اگلی باری یمن کے Sana کی ہوگی۔ یمن کے پہاڑوں سے سر ٹکرانے سے قبل اسرائیل تہران اور مشہد میں بڑی کارروائی کرسکتا ہے۔ اس کا ہدف عراق بھی ہوسکتا ہے۔ ”گریٹراسرائیل“ کے منصوبے کو پورا کرنے کے لئے اسرائیل پوری دُنیا کو ختم کرسکتا ہے۔ فی الحال اس کا ہدف خطے کے اسلامی ممالک ہیں۔ ان سب سے نمٹنے کے بعد اس کا رخ کس جانب ہوگا اس کا اندازہ ہرذی شعور لگا سکتا ہے۔ غزہ کی تباہی پر ہی اُمہ کو کھڑا ہوجانا چاہئے تھا۔ اپنے اپنے مسائل میں الجھے اسلامی ممالک اگر اب بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا رہے یا یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم تو اسرائیل سے ہزاروں کلومیٹر دور ہیں۔ ہمیں کیا نقصان ہوگا تو خواب غفلت کی انتہا پر ہیں۔ کیونکہ عسکری اور معاشی لحاظ سے کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ”گریٹر اسرائیل“ کے قیام کے بعد اس کے وجود کی بقاء کے لئے عیسائی ممالک کی باری آئے گی۔ کیونکہ صیہونی اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے۔ تو وہ جینے کا حق کیسے دیں گے۔