معدے کے تمام امراض کی وجہ ناقص و غیر معیاری غذا کے متواتر استعمال سے بیماریوں کے خلاف انسانی جسم کی حفاظت کرنے والا ہتھیار ”قوتِ مدافعت“ کمزور ہوجاتا ہے
حکیم نیاز احمد ڈیال
ترقی کا جنون اور وقت کی تیز رفتاری دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے انسان کو مادی لحاظ سے تو ہوسکتا ہے بہت نوازا ہو لیکن جسمانی و روحانی حوالے سے لاتعداد مسائل سے متعارف بھی کروایا ہے۔ فی زمانہ ہر انسان کی زبان پر ”میرے پاس وقت نہیں ہے“ کے الفاظ وقت کی رفتار کے سامنے اپنے بے بسی کا اعتراف ہیں۔ وقت ایک ایسی سچائی ہے جس سے راہِ فرار ممکن ہی نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو آدمی روزانہ اپنے لئے تھوڑا سا وقت نہیں نکال پاتا، اُسے بہت سا وقت نکالنا پڑ جاتا ہے۔ جب وقت اپنا آپ دکھاتا ہے تو وہی ہفتہ عشرہ صاحب فراش رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بہترین اور صحت مندانہ طرزِعمل یہ ہے کہ 24 گھنٹہ زندگی کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرکے آٹھ گھنٹے سویا جائے، آٹھ گھنٹے کام کیا جائے اور بقیہ آٹھ گھنٹوں کو تعمیری اور فلاحی سرگرمیوں میں صرف کیا جائے۔
تن آسانی سے بچا جائے کیونکہ تن آسانی امراض کا باعث بنتی ہے۔ تن درستی کے لئے کوشاں رہا جائے کیونکہ تن درستی آسودگی لاتی ہے۔ کسی کا قول ہے: ”آسودہ رہنے کے دو ہی راستے ہیں، جو پسند ہے اسے حاصل کر لو یا جو میسر ہے اسے پسند کر لو“ لیکن آج کا انسان اپنی پسند کے حصول میں اس قدر سرگرداں ہے کہ جو حاصل ہے اس سے بھی لاپروا اور لاتعلق سا دکھائی دیتا ہے۔ صحت دُنیا کی سب سے بڑی دولت اور نعمتِ عظمیٰ ہے۔ سالہا سال قبل تنگ دستی اور کسمپرسی کے عالم میں رہنے والے عظیم شاعر اسداللہ غالبؔ بھی مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ؎
تنگ دستی بھی ہو اگر غالبؔ
تن درستی ہزار نعمت ہے
انسانی صحت اور تن درستی کا انحصار و دارومدار معدہ کی درستی پر ہوتا ہے۔ معدے کو باورچی کا درجہ حاصل ہے۔ جس طرح گھر بھر کے افراد کو انواع اقسام کے کھانے باورچی مہیا کرتا ہے بالکل اسی طرح پورے بدنِ انسانی کی تمام تر غذائی ضروریات کا اہتمام اور خیال بھی معدہ رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہیں اسے معدہ ہی دیگر جسمانی اعضاء تک پہنچاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ”معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے“۔ انسانی جسم کی تعمیر ان غذائی اجزا سے ہوتی ہے جو ہم روزمرہ کھاتے ہیں۔ کھائی جانے والی غذا پیغامِ شفا بھی ہوتی ہے اور باعثِ امراض بھی۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین غذا کے متوازن اور متناسب ہونے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معدہ درست ہوگا تو تمام جسم بھی درست رہے گا۔
متوازن غذائی اجزا میں وٹامنز، پروٹینز، چکنائیاں اور نشاستہ وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ اجزا کی کمی یا زیادتی ہی بیماریوں کا سبب بن کر بدنِ انسانی کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے۔ مرض دراصل کسی ایک عضو کی کیفیت میں تبدیلی کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ کئی اعضاء کی کارکردگی میں نقص واقع ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ موجودہ دور کے سب سے خطرناک امراض ذیابطیس، بلڈپریشر، یوریا، کولیسٹرول، امراضِ قلب، امراضِ گردہ، گھنٹیا، نقرس اور ہیپاٹائیٹس وغیرہ، کہیں باہر سے حملہ آور نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان تمام امراض کی وجہ بننے والے عناصر کی ایک مخصوص مقدار کا جسم میں پایا جانا صحت کے لئے لازمی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صحت مند انسانی جسم میں شوگر کی نارمل مقدار 80 ملی گرام سے 120 ملی گرام تک کا پایا جانا ماہرین کے نزدیک صحت مندی کی علامت ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مذکورہ مقدار جب ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہے یا اس کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے تو خطرناک مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین کے مطابق بلڈپریشر اور قلبی امراض کا سبب بننے والے مادے کولیسٹرول کی مناسب مقدار 170 ملی گرام سے 200 ملی گرام تک انسانی جسم کی لازمی ضرورت خیال کی جاتی ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ قابلِ غور ہے کہ مذکورہ مقدار میں کمی یا زیادتی پیدا ہونے کی صورت میں مرض تصور کیا جاتا ہے جیسا کہ ماہرین جانتے ہیں کہ یورک ایسڈ کی مناسب مقدار میں زیادتی تو بہ آسانی کنٹرول کی جاسکتی ہے مگر یورک ایسڈ کی کمی کی صورت میں جو جسمانی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دور کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ یوں مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی جسم سے جڑے تمام عوارض کی افزائش یا روک تھام معدہ ہی کرتا ہے۔ معدے کے امراض میں گیس، تبخیر، بدہضمی، تیزابیت، السر (معدے کی سوزش) معدے کا درد اور بھوک نہ لگنا وغیرہ شامل ہیں۔ فی زمانہ کوئی خوش نصیب انسان ہی ہوگا جو ان امراض سے محفوظ ہوگا۔ گیس اور تیزابیت کی علامات میں کھٹی ڈکاریں، معدے اور خوراک کی نالی میں جلن کا احساس، ہر وقت معدہ بھرا بھرا رہنا اور بھوک میں کمی واقع ہونا ہے۔ بسااوقات معدے کی خرابی درد کی صورت میں بھی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ معدے کے منہ پر ہلکا ہلکا سا درد اور چبھن ورمِ معدہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں جوکہ بے توجہی اور لاپروائی برتنے پر بعدازاں معدے کا زخم بن کر شدید السر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جب معدہ خراب ہوتا ہے تو انتڑیاں، پتہ، تلی، گردے، دل، جگر، دماغ اور اعصاب وغیر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
معدہ کھائی جانے والی خوراک کو ہضم کرکے غذائی اجزا تمام اعضاء تک پہنچانے کا پابند ہے اور پورے انسانی جسم کی خوراک اور دیکھ بھال کی ذمہ داری معدہ کی ہے۔ معدہ کے تمام تر امراض کی وجہ صرف اور صرف غیرمتوازن خوراک اور بے اعتدالی ہے۔ بدنِ انسانی میں رونما ہونے والے تمام امراض بھی معدہ ہی سے پیدا ہو کر دیگر اعضاء کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ متواتر ناقص اور غیرمتوازن و غیرمعیاری غذا کے استعمال سے بیماریوں کے خلاف انسانی جسم کی حفاظت کرنے والا ہتھیار ”قوتِ مدافعت“ کمزور ہوجاتا ہے۔ حاصلِ موضوع یہ ہے کہ معدہ کی درستی پر دھیان دے کر ہم دیرپا صحت مندی، جوانی اور خوبصورتی کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں۔ سنے سنائے ٹوٹکے استعمال کرنے سے مزید بدنی مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے لہٰذا کسی بھی دوا کے استعمال سے پہلے کسی مستند معالج سے مشورہ ضرور کیا جائے، تاکہ دوا یا غذا کے سائیڈ افیکٹس سے محفوظ رہا جا سکے۔ ہمیشہ فطری غذاؤں کا استعمال کریں، طرزِ بودباش اور رہن سہن بھی فطری ہی اپنائیں اور خدانخواستہ جب کبھی بیمار ہوں تو طریقہ علاج بھی فطری ہی آزمائیں کیونکہ فطرت ہی فطرت کے قریب تر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جسمِ انسانی کی پیدائش عین فطرت پر ہوئی ہے اور اس کی پرورش بھی فطرت پر ہی ہونی چاہئے۔ اس حقیقت سے بھی انکار و فرار ممکن نہیں کہ جب تک انسان نے فطری اصولوں کو اپنائے رکھا وہ ہر دو طرح کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ رہا لیکن جب سے انسان کا رہن سہن، خوراک، علاج اور ماحول مصنوعی پن اورغیرفطری انداز کا شکار ہوا ہے، انسان روحانی اور جسمانی بیماریوں کی لپیٹ میں آگیا ہے۔
علاوہ ازیں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دوا اور غذا میں بنیادی اور واضح فرق یہ ہے کہ غذا بدنِ انسانی کی مستقل ضرورت ہے جبکہ دوا کا کام بیماری کو ختم کرکے جسم کو تندرستی فراہم کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دوا کو ہم مکینک اور غذا کو پیٹرول بھی کہہ سکتے ہیں۔ انسانی جسم کی گاڑی کا ایندھن غذا ہے جس سے بدنِ انسانی مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ انسانی ڈھانچے کی کارکردگی میں کسی بھی قسم کی خرابی (مرض) پیدا ہونے کی صورت میں (دوا) مکینک اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے لہٰذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اپنا ایندھن (غذا) صاف ستھرا (متوازن) رکھیں تاکہ ہمارا جسمانی نظام بہتر اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہے۔ جس طرح ہم اپنی گاڑی کو ٹھیک کروانے کے بعد توقع کرتے ہیں کہ وہ بغیر تنگ کیے رواں دواں رہے اور ہم مکینک کو مستقل بنیادوں پر اپنے ساتھ گاڑی پر سوار کرنا پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح ہمیں چاہئے کہ بحالتِ مرض دوا کا استعمال کریں اور تن درستی کے بعد اپنی معمول کی غذا کو متوازن رکھیں۔
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی خوراک میں ردوبدل کرکے خاطرخواہ حد تک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ چائے، سگریٹ، الکحل اور کولا مشروبات سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔ ایسے افراد جو عادی ہوچکے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بتدریج ان کے استعمال میں کمی کرتے جائیں۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں بلکہ جس طرح کھانا، پینا اور سونا ہماری بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح ورزش کو بھی اہم سمجھتے ہوئے اپنے معمولات میں شامل کریں۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلد اٹھنے کی عادت بنائیں۔ ایسے افراد جو رات کو کام کرنے پر مجبور ہیں انہیں چاہئے کہ وہ دن کے وقت مسلسل چھ سے آٹھ گھنٹے سو کر اپنی نیند پوری کریں۔ کھانا دن میں دو بار کھانے کی عادت بنائیں، تھوڑے تھوڑے وقفوں سے کھانا معدہ کی خرابی کا باعث بنتا ہے لہٰذا پھل وغیرہ بھی کھانے کی میز پر ہی کھا لئے جائیں تو صحت کے لئے بہت مفید ہو تا ہے۔ نہانے کے فوراً بعد پانی ہرگز نہ پیا جائے۔ اسی طرح پانی پی کر فوری نہانا بھی غلط ہے۔ تیز مصالحہ جات، تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں کے استعمال سے بھی احتراز برتا جائے۔ سبزیاں، دودھ، دہی، پھل، گوشت، دالیں اور اناج کو حدِ اعتدال میں رہ کر استعمال کریں۔ کچی سبزیاں یا پھر سبزیوں کو ابال کھانے سے بھرپور غذائیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح پھلوں کو چھلکے سمیت دھو کر استعمال کریں۔ چکنائی کی مخصوص مقدار جسم کے لئے ضروری ہے، چکنائی کو مکمل طور پر ترک کر دینا اچھا نہیں ہوتا لہٰذا چکنائیوں میں دیسی گھی بہترین غذا ہے۔ مکھن کا استعمال بھی قدرے مفید ہے۔ سفید چینی کی جگہ شکر سرخ کئی گنا فوائد کی حامل ہوتی ہے۔ ماہرین کی ایک جماعت تو چینی کو سفید زہر سے تعبیر کرتی ہے لہٰذا جس قدر ممکن ہوسکے اس سے بچا جائے۔ ممکنہ حد تک فریز ہوئی اشیاء کے استعمال سے بھی پرہیز کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح یخ ٹھنڈا پانی، ٹھنڈے مشروبات پینے کا رجحان بھی غیرصحت مندانہ ہے۔ بالخصوص گرما گرم کھانے کے ساتھ ٹھنڈے کاربونیٹٹد مشروبات کا استعمال معدہ میں گیس، تبخیر، جلن، تیزابیت، قبض اور اپھارہ (پیٹ پھولنا) جیسے عوارض کا باعث بنتا ہے۔ رات کو کھانا کھانے کے فوراً بعد سونے کی روش بھی بے شمار امراض پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔