Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عالمگیر جنگ کی طرف بڑھتے قدم

عالمی جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں، حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے اور یہ خدشہ روز بہ روز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، اگرچہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ خاتمے کے قریب ہے مگر لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہو
نصرت مرزا
دُنیا افراتفری جیسی صورتِ حال سے دوچار نظر آتی ہے، عالمی جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں، گو جنگ دو محاذوں پر زور و شور سے جاری ہے، ایک روس اور یوکرین کے درمیان دوسرے اسرائیل اور ایران و فلسطین کے درمیان۔ حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے اور یہ خدشہ روز بہ روز بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ اگرچہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ خاتمے کے قریب ہے مگر لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہو، کیونکہ امریکا اور یورپ نے یوکرین کو ایسے ہتھیار دے دیئے ہیں کہ جو روس کے اندر دور تک مار کرسکیں اور ساتھ ساتھ یوکرین کو تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو روس کے اندرونی حصے میں مارنے کے لئے استعمال نہ کرے، اس طرح امریکا یوکرین کو ہتھیار دے کر روک بھی رہا ہے اور روس کو متنبہ کررہا ہے کہ یوکرین کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو روس کے اندر تک مار کرسکتے ہیں، اس لئے وہ خبردار رہے اور ڈرے کہ بڑی تباہی آسکتی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ روس کو اِس صورتِ حال سے آگاہی ہے اور امریکا کے اس قسم کے انتباہ سے پریشان نہیں ہونا چاہتا، ویسے بھی امریکا کا یوکرین میں موجودگی یا اُس کے ہتھیاروں کی موجودگی سے روس کی بقا کا معاملہ ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ اچھی طرح لڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں امریکا نے اعلانیہ طور پر یوکرین کو نیٹو ممالک میں شامل نہیں کیا، البتہ وہ مدد سارے نیٹو کے ممالک سے کرا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے تو وہ یوکرین کی جنگ کو ختم کردیں گے اور اگر کملا ہیرس صدر منتخب ہوگئیں تو شاید یہ جنگ جاری رہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کے اپنے ملٹری کمپلیکس کا کیا فیصلہ ہوگا اور اس کی Deep State کیا فیصلہ کرے گی، وہ کملا ہیرس کو کرنا ہوگا اور شاید امریکا کے مقتدر ادارے کملا ہیرس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں کیونکہ اس طرح اس کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھتا رہے گا ورنہ وہ بند ہوجائیں گی۔
اسرائیل نے بھی حالت درندگی اور غیرانسانی رویہ سے جس طرح غزہ کو تباہ کیا ہے اور جس طرح انسانیت سوزی کی ہے وہ تاریخ کے ایک شرمناک باب کے طور پر موجود رہے گا اور امریکا و مغرب نے جس طرح اسرائیل کی مدد کی ہے وہ بھی انسانی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دُنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے، اس کے علاوہ اسرائیل ایران سے بھی الجھ پڑا ہے۔ اس نے پہلے شام میں ایران کے قونصل خانہ پر حملہ کیا، جواباً ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا، اس کے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت بھی اسرائیل کے نام لکھی گئی اور پھر شام سے اصفہانی کے قریب ایران پر حملہ کیا، پھر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے شہر میں اُن کی رہائش گاہ پر قتل کردیا گیا اور پھر حسن نصراللہ کو لبنان میں ایک تسلسل حملے میں اُن کی زیرزمین رہائش گاہ پر بھاری اسلحہ استعمال کرکے شہید کردیا گیا۔ جواباً ایران نے تقریباً 200 میزائل اسرائیل کے مختلف اسٹرٹیجک مقامات پر داغ دیئے، جس سے اُن کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل نے اس حملے کے جواب میں حملہ کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ ایران کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایران نے جواب الجواب میں کہا کہ اس کے پاس ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقتور ہتھیار ہیں، اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو اس کو اس کی سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔ ”واشنگٹن پوسٹ“ کے مطابق 26 اکتوبر 2024ء کی تاریخ ہوسکتی ہے جب اسرائیل حملہ کرسکتا ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ امریکا کے الیکشن جو 5 نومبر 2024ء کو ہورہے ہیں، اس سے پہلے ایک ہفتہ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، اگرچہ کئی ممالک نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو تو کچھ بھی سکتا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو بہت ضدی ہے اور وہ امریکا کی بات نہیں مانتے تو بھی امریکا اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ البتہ امریکا میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اسرائیل کو حملہ نہ کرنے دے، اگر واقعی ایسا کرنا چاہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ بات امریکا کے مفاد میں ہے کہ جنگ کا دائرہ نہ پھیلے یا جنگ کے دائرے کو پھیلانا، اُس کا سامانِ حرب بکتا رہے۔ مگر ایران کے ساتھ معاملہ یہ وہ چاہے گا کہ جنگ کا خطرہ ایسے وقت میں روک لے جب اُس کے یہاں الیکشن ہورہے ہیں۔ ویسے امریکا کے منصوبہ بندی کے مطابق جن پانچ ممالک کو وہ تباہ کرنا چاہتا تھا اُن میں سے چار کو وہ تقریباً تباہ کرچکا ہے، جن میں ایران باقی بچا ہے تو اگر اسرائیل کے ذریعے اُسے تباہ کردے تو اس کا منصوبہ پایہئ تکمیل کو پہنچے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایران تباہ شدہ ممالک کی طرح کا ملک ہے، جن میں لیبیا، عراق، شام، افغانستان آتے ہوں۔ ایسا نہیں لگتا، ویسے ایران کے ساتھ روس اور چین کے مفادات جڑے ہوئے ہیں کیونکہ حماس کے حملے نے یوکرین میں روس کو کافی راحت فراہم کی ہے اور دُنیا اور خود امریکا کی توجہ یوکرین سے کم ہو کر مشرق وسطیٰ کی طرف ہے۔ کچھ دیر تک بٹی تو ہے مگر پھر امریکا نے یوکرین کو بہت زیادہ خطرناک ہتھیار دے دیئے ہیں جو روس کو کافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ روس ایران کی مدد کرتا رہا ہے اور ایران اس کو ڈرون سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے، اس طرح روس اور ایران کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات ہیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، روس کے پاس دور مار ہتھیار ہیں، ایران کے پاس کم فاصلہ کی مار کرنے والے کئی ہتھیار ہیں جو روس کے لئے یوکرین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے کافی کام آ رہے ہیں، کیونکہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن یوکرین اس کے مدمقابل آکھڑا ہوگا، وہ تو امریکا کے خلاف ہتھیار سازی میں لگا ہوا تھا، اس لئے روس اور ایران ایک دوسرے کی ضرورت بن کر ابھرے ہیں اور اچھے ساتھی بھی۔ دوسرے امریکا نے ایران کو ایٹمی طاقت بننے دیا تاکہ پاکستان اسلامی دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت نہ بنا رہے، وہ اس خیال میں رہے گا کہ کسی وقت بھی پاکستان اور ایران کو آپس میں لڑ اکر اپنا کام نکالے، بھارت سے وہ یہ کام خوب اچھی طرح سے لے رہا ہے، اس کے بعد مسلم دُنیا میں ایٹمی طاقت بننے کی دوڑ لگ گئی ہے۔ سعودی عرب اب اس معاملے میں پیچھے رہ سکتا ہے وہ ایران کا مخالف ہے اور اُسے اب پاکستان کی دوستی کو ازسرنو اہمیت دینا پڑ رہی ہے جو پاکستان کو اس کا اندازہ تھا اور متحدہ عرب امارات نے بھارت سے مدد حاصل کرلی ہے۔ عجیب لوگ ہیں یہ عرب والے، اپنے ملک میں مندر بنا رہے ہیں اور خود ہندوؤں کی گھنٹیاں کاندھوں پر اٹھا کر لگا رہے ہیں۔
بہرحال دُنیا کا منظرنامہ پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے، حالات ہیں کہ روز بہ روز بگڑتے ہی جارہے ہیں، خطرات بڑھ رہے ہیں، جنگ کے بادل گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں، ذرا سا بھی لمحہ ایسا نہیں جنم لے رہا کہ دنیا بہتری کی طرف بڑھ رہی ہو، ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب عالمی جنگ شروع ہوجائے۔

مطلقہ خبریں