Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت

مشرقِ وسطیٰ جنگ کا دائرہ پھیل رہا ہے، 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے آپریشن ”طوفان الاقصیٰ“ کے بعد جنگ حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہوئی جو پھیل کر لبنان، شام، عراق، یمن اور ایران کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے حماس کو ترنوالہ سمجھ رکھا تھا، ان کا خیال تھا کہ چند دنوں یا ہفتوں میں حماس کو زیر کرلیں گے، تقریباً 13 ماہ کی وحشیانہ بمباری کے باوجود اسرائیلی 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو بھی نہیں چھڑا سکے ہیں، اگرچہ 31 جولائی 2024ء کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ان کے محافظ کے ساتھ شہید کردیا گیا، پھر 16 اکتوبر 2024ء کو حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کو بھی مار دیا گیا، اس کے علاوہ غزہ، خان یونس سمیت مختلف شہروں کو اسرائیل نے کھنڈر بنا دیا ہے، اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی بھی کی تاکہ دواؤں، اجناس، ڈیزل اور پیٹرول نہ پہنچ سکے، حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں ہتھیار ڈال دیں جبکہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ”انروا“ کے خلاف اسرائیلی پارلیمنٹ میں پابندی کی قرارداد بھی منظور کرلی گئی، یعنی غزہ اور دیگر تباہ حال شہروں میں ”انروا“ امدادی کام نہیں کرسکے گا۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے اس کی شدید منذمت کرتے ہوئے پابندی فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ نے امدادی ادارے ”انروا“ کو دہشتگرد تنظیم بھی قرار دیا ہے، جس پر اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل فاشسٹ ریاست بن چکا ہے، اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اسرائیل حماس سے اپنے یرغمالی چھڑانے میں ناکام رہا ہے، آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کے باوجود اسرائیل حماس کی قید میں موجود فوجی افسران، اہم افراد اور شہریوں کے مقام کا کھوج لگانے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیلی بربریت کی وجہ سے لبنان سے حزب اللہ کی کارروائیاں بھی اسرائیل کے لئے دردِسر بن گئی ہیں، اگرچہ 31 اگست 2024ء کو حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کو بیروت میں ان کے ہیڈکوارٹر میں شہید کردیا، 33 دنوں بعد تنظیم کے ممکنہ دوسرے سربراہ ہاشم صفی الدین بھی نشانہ بن گئے، اس طرح اسرائیل نے اپنے مخالفین کی قیادت سمیت 100 سے زائد اہم کمانڈرز مار دیئے جبکہ عام شہریوں کی لاکھ سے زائد شہادت کے باوجود اسرائیل فلسطینی اور لبنانی عوام کا حوصلہ پست کرنے میں ناکام رہا ہے، حالانکہ ”پیجر“ ڈیوائس اور ”واکی ٹاکی“ پھاڑنے کا مقصد عام لوگوں کو جہادی تنظیموں سے بدظن کرنا تھا لیکن فلسطینی و لبنانی عوام اور ان کی مدافعتی تنظیموں کی استقامت مثالی ہے، ابھی تک حماس اور حزب اللہ کے راکٹس اور میزائلز صیہونیوں کی نیند اڑائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے طاقت کے نشے میں ایران سے بھی براہ راست ٹکر لے لی ہے، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کے مارے جانے کے بعد ایران نے اسرائیلی فوجی تنصیبات خصوصاً ”موساد“ کے ہیڈکوارٹر پر جو حملہ کیا تھا اس کے جواب میں اسرائیل نے 26 اکتوبر 2024ء کو تہران اور کرج میں ایرانی فوجی ٹھکانوں کو ہدف بنایا۔ ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حملے سے زیادہ جانی و مالی نقصانات نہیں ہوئے، 4 فوجی شہید ہوئے اور خالی جگہ پر اسرائیل نے بمباری کی۔ اسرائیلی راکٹس اور میزائلز کو ایرانی فضائی دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کردیا جبکہ ایرانی حملے میں اسرائیلی فوجی اور سامانِ حرب کا بڑا نقصان ہوا تھا۔ اسرائیل کے حملے کے بعد ایران کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں روس، چین سمیت بیشتر ملکوں نے اسرائیلی جارحیت کو عالمی ضابطہ کی پامالی قرار دیا۔ سعودی عرب سمیت عرب ملکوں کی جانب سے اسرائیل کی مذمت کرنا امریکا و اسرائیل کے لئے سرپرائز جیسا ہے، اردن، فلسطین، شام، سعودی عرب، مصر اور ترکیہ نے فضائی حدود استعمال کرنے کا پہلے ہی منع کردیا تھا۔ ایران پر ناکام حملے کے بعد اسرائیل نے لیزر ایئر ڈیفنس سسٹم ”آئرن بیم“ کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حماس اور حزب اللہ کے ڈرونز اور دیگر پروجیکٹائلز کو روکا جاسکے۔ اسرائیل حوثی ملیشیا کی کارروائیوں پر بھی پریشان ہے، 19 اکتوبر 2023ء سے اب تک درجنوں مغربی بحری جہاز حوثیوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں، جس کے جواب میں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل حوثیوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ ایران تک پھیل گئی ہے، اسرائیلی بربریت کے بعد جنگ پورے عرب کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، اگرچہ جنگ بندی کی باتیں بھی ہورہی ہیں لیکن نیتن یاہو کی ضد اور ہٹ دھرمی اس میں رکاوٹ ہے۔ دوسری جانب یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بھی بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ G-7 ممالک کی جانب سے یوکرین کے لئے 60 ارب ڈالر کی امداد منظور کرنا روس کو اشتعال دلانے کا سبب بنے گا، امریکا بھی یوکرین کی مالی اور عسکری مدد کررہا ہے۔ اُدھر شمالی کوریا کا روس کے ساتھ مل کر یوکرین سے لڑنے کا اقدام بھی حالات کو سنگین کررہا ہے۔ شمالی کوریا اور روس کا دفاعی معاہدہ جنوبی کوریا کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ تائیوان اور ساؤتھ چائنا سی کے مسائل پر چین کی پیشرفت اور جواب میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا متحرک ہونا، ایک اور خطے کو جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ تائیوان چین کا حصہ ہے، 35808 اسکوائر کلومیٹر رقبہ پر پھیلا یہ جزیرہ تزویراتی اہمیت کا حامل ہے، آبنائے تائیوان ایک اہم سمندری راہداری ہے، 180 کلومیٹر چوڑی راہداری جنوبی بحرچین اور مشرقی بحر چین کو ملاتی ہے، یہ چین کے صوبے Fujian اور جزیرہ تائیوان کے درمیان ہے، ”چین تائیوان کا حصہ ہے“ جس پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے بڑے تحفظات ہیں خصوصاً آسٹریلیا جس کی تائیوان کے ساتھ باہمی تجارت 2023ء میں 33 بلین 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں 23 بلین 50 کروڑ ڈالر کی برآمدات آسٹریلیا نے کیں، اس طرح آسٹریلیا کے تجارتی مفادات بڑے گہرے ہیں جبکہ امریکا تائیوان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے، اس کا ہدف فوجی بیس قائم کرنے کا ہے لیکن چین کا ممکنہ شدید ردعمل کا خوف ہے مگر امریکا تائیوان کی عسکری و مالی مدد کرتا رہا ہے۔ 1960-61ء میں امریکا نے پہلی بار تائیوان کو F-104 لڑاکا طیارے دیئے تھے، اس کے علاوہ میزائلز اور دیگر سامانِ حرب بھی فراہم کیا ہے۔ چین نے اپنی اس سمندری راہداری میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں مشقیں کیں جس میں بحری جہازوں کے ساتھ لراکا طیارے بھی شریک تھے، چین کی مشرقی فوج کے ترجمان نے مشقوں سے متعلق کہا تھا کہ جوائنٹ سوارڈ بی مشق کا مقصد افواج کی مشترکہ آپریشنز صلاحیتوں کا جائزہ لینا تھا، اس مشق کے دوران چین کے لڑاکا طیارے اور بحری جنگی جہازوں نے تائیوان کے درمیان ایک حصار بنا لیا جس پر تائیوان کے ایئربیس Hstnchu سے 12 لڑاکا طیاروں نے اڑان بھری، تائیوان کی وزارتِ دفاع نے اس عمل کا مقصد تائی پے کے زیرانتظام جزیروں کی حفاظت تھا۔ چینی فوجی مشق کے بعد 20 اکتوبر کو امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس ہیگنز اور کینیڈا کا رائل نیوی کا فریگیٹ ایچ ایم سی ایس سینکوور نے آبنائے تائیوان میں گشت کیا، جس پر چین کی ایسٹرن کمانڈ نے کہا کہ امریکا و کینیڈا کی کارروائی آبنائے تائیوان میں امن کو تباہ کردے گی، آبنائے تائیوان چین کا حصہ ہے، یہ بین الاقوامی اکنامک زون نہیں ہے جہاں کسی اجازت کے بغیر سمندری یا فضائی حدود میں داخل ہوا جائے۔ چینی بحریہ امریکی و کینیڈین جہازوں کی آبنائے تائیوان سے گزرنے کے دوران مستقل نگرانی کرتے رہے، امریکا کا ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ چین کو دباؤ میں لے تاکہ چین مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ کے دوران حماس، لبنان، حوثی ملیشیا اور ایران کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے۔ واشنگٹن بیجنگ کو یہ سمجھنا چاہ رہا ہو کہ اس کے نزدیک بھی میدانِ جنگ بن سکتا ہے، آبنائے تائیوان کے علاوہ جنوبی بحر چین بھی حربی میدان بن سکتا ہے کیونکہ جاپان اور فلپائن کو جنوبی بحر چین پر چینی سرگرمیوں پر شدید تحفظات ہیں۔ 5559 میٹر گہرائی اور تقریباً 35 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے آبی رقبے کا ساحل چین کے ساتھ فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام اور برونائی سے ملتا ہے۔ تزویراتی اہمیت کے ساتھ قدرتی ذخائر سے مالامال سمندر ہے جس پر امریکا کی عسکری نظریں ہیں، فروری 2017ء میں بھی امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس کارل ولسن نے بحر چین کا چکر لگایا تھا، جس پر چین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ 2015ء میں بھی امریکی طیارہ بردار جہاز ملائیشیا کے ساتھ ہونے والی بحری و فضائی مشقوں کے لئے آیا تھا جبکہ حالیہ امریکی جہاز کے آنے سے قبل امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کسی نہ کسی بہانے سے 16 مرتبہ اس خطے میں آ چکے ہیں۔ رواں سال 27 ستمبر کو چینی تھنک ٹینک ساؤتھ چائنا سی پروبنگ انیشیٹیو (SCSPI) نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بحیرۂ جنوبی چین دُنیا کا معروف، کھلا اور خوشحال ترین سمندر ہے، اس خطے سے مختلف ملکوں کے تجارتی بحری جہاز اور طیارے ہزاروں کی تعداد میں گزرتے ہیں، اس سے منسلک ممالک تجارت کے ذریعے تیز رفتار معاشی ترقی کرسکتے ہیں لیکن حربی مقاصد کے لئے اس آبی خطے کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ دُنیا کے مختلف خطوں میں تنازعات اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ امریکا کے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کو روس اور چین مل کر چیلنج کررہے ہیں، چین کا ”ون روڈ ون بیلٹ“ اور روس کا ”ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور“ مختلف ملکوں کو جوڑ رہا ہے تو امریکا کی بالادستی برقرار رکھنے کی خواہش دُنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئی ہے، نیتن یاہو کی پشت پناہی عربوں کو کسی بھی وقت مشتعل کرسکتی ہے، ہر اسلامی ملک کے عوام اسرائیل سے شدید نفرت کرتے ہیں جس کا عملی اظہار وہاں کے حکمرانوں کو بھی تل ابیب کے خلاف جارحانہ اقدام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ امریکا کب تک اسرائل کا ساتھ دے سکے گا یا اس بوجھ کو کاندھے پر لئے رہے گا۔

مطلقہ خبریں