زاویہئ نگاہ رپوورٹ
ڈاکٹر عطاء اللہ خان صاحب کی کتاب ”قانونی دستاویز نویسی“ کی تقریب رونمائی کا انعقاد ہائی کورٹ بار کونسل کراچی کے سیمینار ہال میں 23 ستمبر 2024ء بروز پیر ہوا۔ اس تقریب کا اہتمام ڈپٹی اٹارنی جنرل جناب خلیق احمد نے کیا۔ صدارت جناب جسٹس (ر) فہیم احمد صدیقی نے کی۔ تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور شاعر محمد رفیق مغل نے نعت رسول مقبول کا نذرانہ پیش کیا۔ ایس ایم شجاع عباس صاحب نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیئے۔ اس موقع پر تقریب کے صدر جسٹس (ر) فہیم احمد صدیقی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ جہاں تک تعلق ہے دستاویز نویسی کا تو ایک بات بتاتا ہوں کہ انگریزی میں بھی دستاویز نویسی بڑی مشکل چیز ہے۔ انگریزی کی دستاویز بھی اتنی ثقیل اور مشکل ہوتی ہے جو سوائے وکیل کے کسی اور کی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ یہ کتاب قانونی دستاویز نویسی کے حوالے سے انتہائی اہم حوالہ ہوگی۔ مصنف ڈاکٹر عطاء اللہ خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی دو بنیادیں ہیں اسلام اور اُردو،جنہوں نے پاکستان کو قائم کیا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے جو دفتر، عدالت اور تعلیم کی زبان ہوگی۔ یہ آئین کے صفحات میں بھی درج ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس کے نفاذ کا حکم بھی دیا ہے مگر افسوس اُردو اپنا مقام نہیں پا سکی۔ قیصر ملک کو ڈاکٹر عطاء اللہ خان کے شاگرد بھی ہیں اور معروف وکیل بھی انہوں نے ”قانونی دستاویز نویسی“ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ہر لحاظ سے وکلا، عدالتوں اور عوام الناس کے لئے نایاب تحفہ ہے، اُردو سے محبت کرنے والوں، اس کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے بھی ایک دلیل اور حجت ہے۔ پروفیسر صابر عدنانی نے شعر سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا ؎
دُنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رُخ موڑ دیا ہو
پروفیسر ڈاکتر عطا اللہ خان نے اُردو ادب میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ااپ محقق، شاعر، مترم اور استاد ہیں۔ جناح ہائی اسکول ڈاکٹر صاحب کی مادرِ علمی تھا۔ آپ نے ابتدا میں اس اسکول میں تدریسی خدمات احسن طریقے سے انجام دیں، انہیں اپنی بات کہنے اور کرنے کا سلیقہ آتا ہے، وہ تعلیم و تدریس کی غیرمعمولی صلاحیت کے حامل ہیں، انہوں نے ہمیشہ منظم انداز میں اپنے معلمانہ فرائض انجام دیئے۔ ڈاکٹر صاحب یوسف زئی ہین، ان کے آباؤاجداد سوات سے بانس بریلی (ردہیل کھنڈ) میں آباد ہوگئے تھے، 1880ء میں حافظ قدرت خان (ان کے جدامجد) صوبہ بہار منتقل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب 1947ء میں کراچی اور 1975ء میں اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایم اے (اُردو) پنجاب یونیورسٹی سے 1981ء میں کیا، ایم فل (اُردو) 1989ء میں کیا جس کا موضوع ”اُردوز و دنویسی کا ارتقا“ تھا۔ آپ نے 2002ء میں ڈاکٹر حنیف فوق کی نگرانی میں کراچی یونیورستی سے پی ایچ ڈی کیا، جس کا موضوع ”اُردو فارسی کے روابط“ تھا۔ جس کے اب تک دو ایڈیشن انجمن ترقی اُردو پاکستان شائع کرچکا ہے۔ آپ نے اسلام آباد ماڈل کالج میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ آپ ریڈیو پاکستان میں جزووقتی بحیثیت مترجم خدمات انجام دیں۔ آپ نیشنل اسمبلی میں مترجم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ کلیم الدین احمد کی کتاب ”اصنام“ کا ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ ماہر نفسیات ڈاکٹر محمر رفیق مرزا کی کتاب کا ترجمہ ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بنی نوع انسان“ کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے موضوعات پر لکھا جہاں قلم اٹھانا دشوار ہوتا ہے، کیونکہ لسانیات پر لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے مگر ڈاکٹر صاحب اس مرحلے کو آسانی سے طے کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے یہ شعر ان پر صادر آتا ہے ؎
شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے
آپ کو بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اُردوز ودنویسی کے سلسلے میں ایک طریقہ ایجاد کیا تھا جسے وزارتِ تعلیم نے بھی قبول کیا اور ان کے اس کام کو سراہا۔ زودنویسی کے سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں: محمد عطا اللہ خان صاحب کی تالیف اُردو زودنویسی اپنی نوعیت کی منفرد کوشش ہے۔ اب تک اُردو مختصر نویسی، انگریزی مختصر نویسی کی پیروی میں اُردو زبان کے رسم الخط کے برخلاف بائیں سے دائیں لکھی جاتی تھی۔ عطا اللہ صاحب نے انتہائی محنت اور کاوش کے بعد اُردو مختصر نویسی کے نئے نئے اصول منضبط کئے۔
نظیر صدیقی بھی زودنویسی کے حوالے سے لکھتے ہیں: اس فن میں عطا اللہ خان صاحب کی یہ بڑی فتح ہے کہ پہلے اس فن کی اصطلاحات اُردو اور انگریزی میں ہوتی تھیں، ڈاکٹر صاحب نے تمام انگریزی اصطلاحات کو اُردو میں منتقل کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”قانونی دستاویز نویسی“ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کم از کم ہی بات کی جاتی ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے پورے خلوص کے ساتھ اس کی اصطلاحات سازی میں ذمے داری سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دراصل قانون اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کو کسی ادارے یعنی حکومت کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے اور اسی پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دارومدار ہوتا ہے۔ مقننہ کے ذریعے آئین اور قانون بنائے جاتے ہیں اور ان کا نفاذ عدلیہ اور انتظامیہ کے ذریعے کیا جاتا ہے، قانون دراصل سیاست، معاشیات، تاریخ اور معاشرے کو مختلف طریقوں سے تشکیل دینے اور لوگوں کے درمیان تعلقات کے لئے ثالث کے کام بھی آتا ہے، مگر قانون کی بہت سی اصطلاحات ایسی ہوتی ہیں کہ بہت زیادہ پڑھے لکھے افراد بھی اپنی قانونی دستاویزات کو پڑھ کر سمجھ نہیں پاتے، کیونکہ قانونی دستاویزات کو پڑھنا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عطا اللہ خان صاحب کی اس کتاب سے قانونی دستاویزات کو زیادہ آسان بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ وکلا بھی پیچیدہ قانونی اصطلاحات کو پسند نہیں کرتے اور عام افراد کے لئے انہیں سمجھنا تو بہت ہی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عطااللہ خان صاحب کی یہ کتاب اس لئے بھی انفرادی ھیثیت کی حامل ہے کہ اب تک اُردو میں قانونی دستاویز کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ قانونی نصاب میسر نہیں تھا، مگر ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب عدالتوں میں جہاں کارروائی عام طور پر اُردو میں ہوتی ہے، ان اصطلاحات کی ضرورتوں کو احسن طریقے سے پورا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ کتاب عام پبلک کے علاوہ عکلا اور قانون کے طلبا کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کی زبان کے ساتھ اصطلاحات کو بھی سہل بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس موقع پر سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل، سابق صدر ہائی کورٹ بار اور لائبریری کے روح رواں، معروف قانون داں جناب عثمان فاروق نے بھی خطاب کیا۔ اس تقریب میں عکلا کی بڑی تعداد کے علاوہ سول سوسائٹی سے معروف سماجی کارکن اقبال حسن صدیقی، کراچی پریس کلب اور پاکستان آرٹس کونسل کے رکن جناب حسن امام صدیقی، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اسپیشل ایجوکیشن اور مدیر ”عزم نو“ اسلم شاہین، جناب حسن ہاشمی (ایڈووکیٹ)، ”عصری افکار نو“ کے مرتب اکرام الحق اور محمد اخلاق خان بھی اس موقع پر موجود تھے۔ آخر میں ڈاکٹر عطا اللہ خان صاحب نے صدر اعزازی جسٹس (ر) فہیم احمد صدیقی کو اپنی کتاب ”قانونی دستاویز نویسی“ تحفے میں پیش کی۔