دُنیا تبدیل ہورہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ شام میں بشارالاسد خاندان کے 54 سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی پیش قدمی دیگر عرب ملکوں کو بے چین کررہی ہے۔ ہیئت تحریر الشام (HTS) اگر ملک میں امن وامان قائم کرنے اور داعش کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ جس کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا۔ اسرائیل رجیم چینج کی شروعات ہی سے ایکٹیو ہوگیا ہے۔ اس نے گولان پہاڑی کے میدانی حصے پر بفرزون قائم کرلیا ہے۔ شامی فوجی تنصیبات کو تہس نہس کرنے کے بعد تل ابیب کی نگاہیں دمشق پر ہیں۔ جس کے بعد اس کا اگلا ہدف اردن ہوگا۔ حالانکہ اردن میں امریکی فوجی اڈہ ہے۔ وہ پہلے ہی امریکا کے کنٹرول میں ہے۔ وہاں انتظامی طور پر اسرائیل کی رسائی موجود ہے۔ اس کے بعد مصرہے، جس سے اسرائیل کو مسائل ہوسکتے ہیں۔ اگر مصری حکمران تل ابیب کے سامنے بے بسی کا اظہار کریں گے تو عوام اسے قبول نہیں کریں گے، مجبوراً مصر کے حکمرانوں کو اینٹی اسرائیل پالیسی برقرار رکھنا پڑے گی۔ اگرچہ فلسطین کے خلاف اسرائیلی بربریت پر مصر نے کوئی خاص جارحانہ مؤقف نہیں اپنایا۔ لیکن TARA بارڈر سے امداد جاتی رہی ہے۔ امدادی سامان کی سہولت کاری اور میدان جنگ کی مزاحمت کے تقاضے جدا ہیں۔ مصر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں اپنے لڑاکا طیاروں کو پرواز کروائے۔ دوسری جانب حماس کی مرکزی قیادت کی شہادت کے بعد اس کی مزاحمتی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کی قوت بھی 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے والی نہیں رہی۔ حسن نصراللہ سمیت مرکزی قیادت کے خاتمے اور پیجرڈیوائس کارروائی نے حزب اللہ کو بھی کمزور کردیا ہے۔ اب شام کے ذریعے حزب اللہ کی سپلائی لائن بھی منقطع ہوچکی ہے۔ جس کا منفی اثر فلسطین میں حماس تک ہتھیار پہنچانے پر بھی پڑ رہا ہے، لیکن اردن کے کچھ قبائل حماس تک کچھ نہ کچھ پہنچا رہے ہیں جس سے مزاحمت کی رمق باقی ہے۔ اس کے ساتھ ایران بھی اسرائیل کے مقابلے میں کمزور ہوا ہے کیونکہ بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے اور حزب اللہ کے کمزور ہونے سے تہران کی قوت بھی کم ہوئی ہے۔ اب حوثیوں کا اہم کردار ہے لیکن ٹیکنالوجی میں اسرائیلی برتری حوثیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کررہی ہے۔ بظاہر مشرقِ وسطیٰ پر اسرائیل کی دھاک بیٹھتی نظر آرہی ہے اور گریٹراسرائیل کا منصوبہ آگے بڑھتا جارہا ہے۔ نیتن یاہو نے حزب اللہ اور حماس سے نمنٹنے کے بعد حوثی ملیشیا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد یمن کی فوجی تنصیبات اور ایئرپورٹ پر حملے کئے گئے۔ جواب میں یمن کے حوثیوں نے فوجی کارروائی تو نہ کی لیکن امریکی مفادات پر حملے کرنے کا اعلان کیا۔ یعنی بحیرہ احمر پر حوثی کارروائیاں بڑھ سکتی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد حوثیوں نے کارگو جہازوں کا بحیرہ احمر سے گزرنا مشکل کردیا ہے لیکن نیتن یاہو حماس اور حزب اللہ کو کنٹرول کرنے کے بعد حوثیوں کو قابو کرنے کے لئے پُراعتماد ہیں۔ اگر گریٹر اسرائیل کا منصوبہ عملی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے اثرات دیگر خطوں پر بھی پڑیں گے۔ خصوصاً برصغیر پر گہرے اثرات ہوں گے کیونکہ پاکستان کی صورت میں ایک ایٹمی طاقت موجود ہے۔ جس کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ اس کی ابتدا امریکی ترجمان کے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق تشویش کے اظہار سے ہوچکی ہے۔ حالانکہ پاکستان کا میزائل اور جوہری پروگرام خودانحصاری پر مبنی ہے۔ اس میں نہ تو امریکی ٹیکنالوجی ہے نہ ہی کسی اور امریکی اتحادی ملک کا تعاون حاصل ہے۔ پاکستان نے بھی امریکی تشویش پر دوٹوک جواب دے کر امریکی انتظامیہ کو جھٹکا دے دیا ہے۔ کسی ایٹمی ملک سے مخاطب ہونے کا یہ انداز نامناسب ہے۔ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام روایتی حریف کے جارحانہ عزائم کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ پاکستانی بیلسٹک میزائل سے واشنگٹن کو خطرہ نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ سب کچھ اسرائیل کی خواہش پر کیا جارہا ہے۔ اسے پاکستان سے انجانا خوف ہے۔ اگر تہران ایٹمی قوت حاصل کرچکا ہے۔ تو پھر تل ابیب کو دُہرے خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب گولان ہائٹس میں اسرائیل نے بھی کچھ مشکوک عسکری ٹیسٹ کئے ہیں۔ جس سے اطراف کے علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے اور فضا میں دھوئیں اور گردوغبار کا طوفان اٹھا تھا۔ اسرائیل نے کیا کچھ کیا ہے اس کی تفصیلات سامنے تو نہیں آئیں لیکن یہ دھماکہ خیز تجربات تھے۔ اب بات کرتے ہیں پاکستان اور افغانستان کی، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دراندازی معمول بنتی جارہی ہے۔ 15 اگست 2021ء کو کابل کا کنٹرول افغان طالبان کے پاس آگیا۔ امریکی افواج افغانستان سے نکل گئیں تو اس وقت کے صدر اشرف غنی بھی نکل گئے۔ فروری 2020ء میں دوحہ معاہدے میں جو کچھ طے ہوا دونوں فریقین نے خفیہ رکھا۔ حالانکہ افغان طالبان کو جو بھی کامیابیاں ملی ہیں وہ پاکستان کی مدد کے بغیر ناممکن تھیں۔ افغان سرحد سے تسلسل کے ساتھ پاکستانی فوجی چیک پوسٹوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ 2013ء میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ذیلی گروہ متحد نہ رہ سکے۔ ٹی ٹی پی کی مختلف قیادت کا رقم پر تنازع بڑھتا گیا، پھر علاقوں کے کنٹرول کرنے پر اختلافات سامنے آئے۔ 2015ء میں ٹی ٹی پی، افغان طالبان اور القاعدہ کے منحرف ارکان نے داعش خراساں نامی تنظیم بنا لی۔ جس کے جنگجو پاکستانی سرحد پر بہت متحرک ہوگئے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت کو مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرتا رہا ہے۔ سفارتکاری کے ساتھ علمائے کرام کے وفود کو بھیجا گیا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پر موجود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مجبوراً ایک مرتبہ پھر پاکستان کو ایئر اسٹرائیک کرنا پڑی۔ جس میں خودکش بمباروں کو تربیت دینے والا شیر زمان عرب مخلص یار، ابوحمزہ، اختر محمد عرف خلیل اور شعیب اقبال جیسے جنگجو کمانڈرز مارے گئے۔ شعیب اقبال ٹی ٹی پی کا میڈیا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ دیگر تین دہشتگرد پشاور پولیس لائنز مسجد، بنوں چھاؤنی اور جنوبی وزیرستان چیک پوسٹ پر حملوں کے ماسٹر مائنڈز تھے۔ افغان صوبے پکتیکا میں کارروائی سرحد کو محفوظ بنانے اور دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ افغان عبوری حکومت نے اس پر احتجاج کیا لیکن پاکستان کا مؤقف اصولی تھا۔ پہلے کابل کو بارہا دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا رہا لیکن عبوری حکومت نے کچھ نہ کیا بلکہ پاکستانی فضائی کارروائی کے 27 اور 28 دسمبر کی درمیان شب میں کرم اور جنوبی وزیرستان کے دو سرحدی مقامات سے افغان طالبان کی بارڈر پوسٹوں سے دراندازی کی کوشش کی گئی۔ پاک فوج کے جواب پر 15 دہشتگرد مارے گئے جبکہ ہمارے 4 اہلکار زخمی ہوئے۔ پاکستان کی شمالی سرحد پر دراندازی کا فتنہ صرف کابل پلان نہیں ہے بلکہ اس میں طاقتور ملک کے ساتھ تل ابیب کا بھی اہم کردار ہے۔ پاکستان کے خلاف جومکھی لڑائی شروع کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں بے چینی، خیبرپختونخوا کے علاقے پاراچنار میں دہشتگردی اور افغان سرحدی علاقوں سے دراندازی کرنا اور سیاسی غیریقینی پیدا کرنا یہ سب پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو اس پر دوست ممالک کے ساتھ بھرپور سفارتکاری کرنا ہوگی۔ خصوصاً مشرقِ وسطیٰ کے دوست ممالک سے مشاورت اہم ہوگی۔ چین پہلے ہی پاکستان کے مؤقف کی ہر فورم پر حمایت کرتا رہا ہے۔ پاکستان کو احتیاط اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ہے۔