Wednesday, January 29, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کا میزائل پروگرام اور امریکی اہلکار کی لطیفہ گوئی

کیا پاکستان بیلسٹک میزائل کی ایسی قسم تیار کرنے کے قابل ہوگیا ہے جو امریکا تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
سید مجاہد علی
کسی امریکی اہلکار کے اس دعوے کو ایک لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی کہ پاکستان بیلسٹک میزائل کی ایسی قسم تیار کرنے کے قابل ہوگیا ہے جو امریکا تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سے جغرافیائی سلامتی کے بارے میں امریکی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لطیفہ نما تبصرہ کسی اور نے نہیں بلکہ صدر جوبائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے کیا ہے۔
یہ بیان امریکا کی طرف سے پاکستان میں میزائل پروگرام پر کام کرنے والے قومی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (NDC) کے علاوہ کراچی کی تین کمپنیوں پر نئی پابندیاں لگانے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ”امریکا جوہری پھیلاؤ اور اس سے وابستہ خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا“۔ بیان کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور خطرناک ہتھیاروں کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کا مؤقف ہے کہ این ڈی سی اور تین کمپنیوں پر ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13382 کے تحت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس حکم کے تحت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ان پابندیوں کو ناروا اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح علاقے میں طاقت کا توازن خراب ہوگا جو بے حد تشویشناک ہے۔ پاکستان نے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور 3 تجارتی اداروں پر امریکی پابندیوں کو متعصبانہ قرار دیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا تحفظ ہے۔ پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے۔ اس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔ بیان کے مطابق اس طرح کی پالیسیاں ہمارے خطے اور اس سے باہر کے اسٹرٹیجک استحکام کے لئے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ اسٹرٹیجک پروگرام پاکستانی عوام کی مقدس امانت ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے۔ ماضی میں بھی تجارتی اداروں پر پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔
واضح رہے گزشتہ سال اکتوبر 2024ء میں بھی امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی (بی آئی ایس) نے مبینہ طور پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔ اس سے قبل ستمبر 2024ء میں چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور متعدد کمپنیوں پر پاکستان کے جوہری میزائل پروگرام کو مواد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اس صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر اور تجزیہ نگار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں سے پاکستان کا میزائل پروگرام متاثر نہیں ہوگا۔ ان پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام کی رفتار بھی سست نہیں ہوگی۔ ایک نجی چنل سے گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ 4 سال میں 6 یا 7 بار پابندیاں عائد کی ہیں۔ سابق پاکستانی سفیر نے کہا کہ ایک بات ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی پابندیاں پاکستان کی صحت کو متاثر نہیں کرتیں۔ پاکستان کی جوہری پالیسی یا میزائل پالیسی نہ سست ہوگی اور نہ ہی رکے گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا ہے، امریکا پابندیاں عائد کررہا ہے۔ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو بند کرنے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کررہے تھے یا کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان میزائل تیار نہ کرے۔ امریکی پابندیاں امتیازی ہیں کیوں کہ امریکا نے ان پابندیوں کا اطلاق کبھی بھی طرح بھارت پر نہیں کیا، جس کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ جدید ہے۔ بھارت کے پاس ڈی اینڈ ڈی سسٹم ہے جو بیلسٹک میزائل دفاعی نظام ہیں۔ یہ سسٹم خود امریکا نے بھارت کو فراہم کیا ہے۔ یا انہوں نے اسے خود تیار کیا ہے اور اسرائیل سے بھی لیا ہے۔ امریکا نے بھارت پر کبھی پابندیاں عائد نہیں کیں۔ پاکستان کے خلاف یہ امتیازی پالیسی ہے لیکن پاکستان پر اس کے اثرات صفر ہوں گے۔
ابھی پاکستان میزائل پروگرام پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے تجزیے اور ردعمل ہی سامنے آرہے تھے کہ امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے صدر جوبائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا میزائل نظام امریکی قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لئے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کے تجربات کرنے کی صلاحیت دیں گے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا سے باہر بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت آ جائے گی۔ اس میں امریکا بھی شامل ہے اور اس چیز سے پاکستان کے ارادوں پر حقیقی سوالات اُٹھتے ہیں۔ امریکی صدر کے نائب مشیر نیشنل سیکیورٹی کا کہنا تھا کہ ’ایسے ممالک کی فہرست چھوٹی ہے جو جوہری ہتھیار بھی رکھتے ہوں اور ان کے پاس براہِ راست امریکا کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہو۔ وہ امریکا کے مخالفین ہیں یعنی روس، شمالی کوریا اور چین۔ ہمارے لئے یہ مشکل ہوگا کہ ہم پاکستان کے اقدامات کو امریکا کے لئے خطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں۔ مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینئر رہنماؤں نے متعدد بار ان خدشات کا اظہار پاکستان کے سینئر حکام کے سامنے کیا ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے امریکا کا پارٹنر رہا ہے اور وہ مشترکہ مفادات پر پاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کررہا ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان ہمارے اور بین الاقوامی برادری کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہوا ہے۔
صورتِ حال کی پوری تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خطرناک ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور پاکستان جیسے چھوٹے اور کم وسیلہ ملک سے امریکی قومی و جغرافیائی سلامتی کو خطرہ قرار دینے کے دعوے بے بنیاد اور کسی جواز کے بغیر محض کسی خاص سیاسی ایجنڈے کے تحت عائد کئے جارہے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی حالیہ انتخابات میں نہ صرف صدر منتخب کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ وہ سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں بھی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے۔ 20 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد طویل عرصہ تک ڈیموکریٹک پارٹی کا سیاسی اثرورسوخ محدود ہوجائے گا۔ پاکستان کے میزائل پروگرام پر عائد کی جانے والی حالیہ پابندیوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ری پبلیکن پارٹی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف رائے رکھتی ہے۔ پاکستان اس وقت امریکا کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ ایسے میں جوبائیڈن پاکستان جیسے ایک ’غیراہم، ملک پر غیرضروری اور بے جواز پابندیاں عائد کرکے ایک طرف بھارت کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف آنے والے وقت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض ”اصولوں“ کو مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان پر پابندیوں کے بارے میں کوئی اصولی اقدام نہیں کرے گی، اس لئے اس وقت عائد کی گئی پابندیوں کو ڈیموکریٹک پارٹی مستقبل کے سیاسی مباحث میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی اصولی بحث میں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرسکے گی۔ کیوں کہ واشنگٹن میں ایسی روایت موجود نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنی پالیسیوں کے عدم توازن اور ناانصافیوں پر نظر ڈالنے کی زحمت بھی کریں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا دُنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے ہونے والی تباہ کاری اور 25 لاکھ انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اقوام متحدہ کے علاوہ دُنیا کا ہر صاحب دل انسان چیخ اٹھا ہے۔ لیکن امریکا بدستور اسرائیل کی عسکری، مالی اور سفارتی امداد کررہا ہے۔ ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی کا دعویٰ کرنے والے امریکا نے ایرانی میزائل حملوں کے وقت نہ صرف اپنے بحری بیڑے اور علاقے میں امریکی فوجی اڈوں کو اسرائیل کی حفاظت پر مامور کیا بلکہ ایرانی حملوں کو ناکام بنانے کے لئے فوری طور پر جدید تھاڈ اینٹی میزائل سسٹم اسرائیل میں نصب کیا اور اسے چلانے کے لئے امریکی فوجی اہلکار بھی فراہم کئے گئے۔ یہی پالیسی بھارت کے حوالے سے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کو امریکا کے لئے خطرناک قرار دینے والی حکومت بھارت کے جدید میزائل پروگرام اور اینٹی میزائل پروگرام میں سہولت کاری میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی۔ اس سے امریکا کا دوغلاپن تو واضح ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ان دعوؤں کا پول بھی کھلتا جارہا ہے کہ وہ دُنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے اور انسانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت یہ اصطلاح محض امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے ممالک کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ امریکا کو کسی ملک میں اسی وقت انسانی حقوق پر پریشانی لاحق ہوتی ہے جب اس کے اپنے مفادات کو زک پہنچتی ہو۔ بصورت دیگر وہ خود انسانوں کو ہلاک کرنے کے لئے اسلحہ و بارود فراہم کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتا۔
پاکستان سے لاحق خطرہ کے بارے میں قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا بیان اس لحاظ سے بھی مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان کے پاس تو ابھی پونے تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ رینج کا کوئی میزائل نہیں ہے جبکہ بھارت کا اگنی میزائل پروگرام 7 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک محدود معیشت کا حامل چھوٹا ملک ہے جبکہ امریکا دُنیا کی سب سے بڑی معیشت، سپر پاور اور اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان ایسے ملک کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری تیاری بھارت سے حفاظت کے نقطہ نظر سے ہوتی ہے۔ امریکا اگر اپنے نام نہاد اسٹرٹیجک مفادات کے لئے چین کو نیچا دکھانے کی خواہش پالنا بند کردے تو وہ حقیقی معنوں میں مہلک ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کے لئے کام کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے بھارت جیسے ملک کو عسکری امداد دینے کی بجائے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن قائم کرنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا تھا۔
اس پس منظر میں جان فائنر کی طرف سے پاکستان سے امریکا کو لاحق خطرے کا بیان اس پرانی کہانی کی یاد دلاتا ہے جس میں شیر ایک بھیڑ پر پانی جھوٹا کرنے کا الزام لگا کر اسے دبوچ لیتا ہے۔ یا اسے ایسا لطیفہ سمجھنا چاہئے جس پر ہنسنا بھی محال ہے کیوں کہ یہ دُنیا کی سپر پاور امریکا کے نائب مشیر کی ایک ذمہ دار پلیٹ فارم پر کی گئی گفتگو ہے۔ اس اندازِ گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن جیسے طاقت کے مراکز میں فیصلہ سازی میں شریک لوگوں کی ذہانت اور شعور کا کیا عالم ہے۔ (بشکریہ کاروان ناروے)

مطلقہ خبریں