Friday, June 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

پاکستان کے خلاف امریکا اور افغان طالبان کاخفیہ معاہدہ

بھارت کا کوئی بھی حصہ ہمارے میزائلوں کی نظروں سے اوجھل نہیں، لیفٹیننٹ جنرل خالد احمد قدوائی

نصرت مرزا

امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں قطر دوحا میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان پاکستان کی مدد سے 29 فروری 2020ء کو افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے معاہدہ ہوا۔ افغانستان کی اشرف غنی حکومت کو معاہدہ میں شامل نہیں کیا۔ اس معاہدہ کی رو سے 2001ء سے چھڑی جنگ کو 2021ء میں اختتام پذیر ہونا تھا اور امریکا کو افغانستان میں اپنی فوجوں کو نکالنا اور افغانستان میں موجود اپنے تمام اڈوں کو بند کرنا تھا۔ چنانچہ امریکا نے افغانستان سے 30 اگست 2021ء تک اپنی فوجوں کا مکمل انخلا کردیا اور اپنے افغانی مخبروں کو پاکستان کے راستے نیٹو کے ممالک بسانے کا پروگرام بنایا۔ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں آج بھی یہ افغان کسی مغربی ممالک میں جانے کا انتظار کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے طالبان اور امریکا کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ دوحا معاہدے کے دوران ہوا، جس کا اعلان تو نہیں کیا البتہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی رضا اور منظوری شامل تھی، انہوں نے امریکا سے یہ عہدوپیمان کیا کہ وہ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے، بدلہ میں ان کو خیبرپختونخوا کے صوبے کے علاوہ گلگت اور بلتستان بھی افغانستان میں شامل کرا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے ان کے لئے نیٹو کا جدید اسلحہ ٹینک، طیارے، رات کو دیکھنے والے چشمہ جات اور دیگر سامان چھوڑ دیا ہے۔ امریکا پاکستان سے ناراض تھا کہ اس نے امریکا کا ساتھ نہیں دیا۔ افغانستان میں امریکا پاکستان کی وجہ سے افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ ان کے سارے انٹیلی جنس ادارے اور ان کے ایجنٹ اور ڈائریکٹر یک زبان ہو کر ایک لفظ کہتے رہے کہ پاکستان نے انہیں جیتنے نہیں دیا۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنی تمام خامیوں اور غلطیوں کے باوجود پاکستان نے اپنی خودمختاری اور سلامتی کو اول ترین ترجیح دی اور دو سپر طاقتوں کو افغانستان میں شکست دی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے، یہ اعزاز بھی پاکستان نے ان کو دیا، اگر پاکستان بیچ میں نہ ہوتا تو نہ سوویت یونین شکست کھاتا اور نا ہی امریکا۔ اس پر ہم اپنی مسلح افواج اور اپنے اداروں کو دل کھول کر سراہتے ہیں۔ پاکستان نے روس کا مقابلہ اس لئے کیا وہ افغانستان کے بعد ہمیں روندھ کر گرم پانی تک پہنچنا چاہتا تھا اور دوسرے اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کھلم کھلا مدد کی۔ مکتی باہنی باغیوں کو تربیت، اسلحہ اور مالی امداد دی۔ امریکا افغانستان میں روس کے خلاف پاکستان کی مدد کے لئے دو سال بعد آیا جبکہ پاکستان نے روس کو دو سال تک افغانستان تک محدود رکھا۔ کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کی فضائیہ نے روس کے کئی جیٹ طیارے گرائے، ان کے پائلٹ گرفتار کئے، طیاروں کا ملبہ اور پائیلٹ بھی روس کے حوالے کردیئے۔ افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے کے لئے امریکی بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ یہ جنگ جیت گئے تو ایک تو ویت نام کا بدلہ لیں گے دوسرا وہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن جائیں گئے، چنانچہ سوویت یونین کی شکست کے بعد سوویت یونین 15 ملکوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس نے ہمارا مشرقی بازو توڑا تھا، پاکستان نے 15 ممالک کو آزاد کروایا۔ ساتھ ساتھ ہم ایٹمی طاقت بن گئے۔ جب پاکستان ایٹمی ہتھیار کا کولڈ ٹیسٹ 1983-84ء میں کرلیا تو مغرب نے اسلامی بم بن جانے کا واویلا شروع کردیا اور امریکی سفارتکاروں نے پاکستان پر ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ کراچی میں امریکی قونصل جنرل رچرڈفاک نے مجھ سے کہا کہ اب جب محترمہ بینظیربھٹو وزیراعظم بن گئی ہیں اور فاروق لغاری صدر تو پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا پڑے گا۔ ورنہ جب امریکی سفارت کار پاکستان کے وزیراعظم کے پاس جاتے تو وہ کہتے کہ صدر پاکستان نہیں مانتے جب صدر پاکستان سے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا مطالبہ کر تے وہ کہتے وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف نہیں مانتے اور یوں امریکا پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہیں کرسکا اور نہ ہی اب کرسکے گا۔ یہ پاکستان کے عوام کی امانت ہے اور پاکستان کی بقاء کی ضامن ہے اور پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے، بھارت ہی ہمارا ازلی دشمن ہے، اس کا ہر پروگرام پاکستان کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ بھی ایٹمی طاقت ہے، ان کے وزراء کبھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی بات کرتے ہیں تو کبھی آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی، چنانچہ پاکستان نہ صرف ایٹمی پروگرام کو جدید سے جدید بنا رہا ہے بلکہ اپنی بری، بحری اور فضائیہ کو جدید ترین آلات، میزائل اور نئی ٹیکنالوجیز سے آراستہ کررہا ہے۔ ایس پی ڈی (ایس پی ڈی) یعنی اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن جس کے دائرہ کار میں پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام، بری، بحری اور فضائی ایٹمی فورسز ہیں۔ بشمول سیٹلائٹ پروگرام کے، وہ بہ حسن خوبی اپنی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے، انڈیا کے غیرذمہ دارانہ بیانات کے جواب میں پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر اور سابق ڈی جی ایس پی ڈی لیفٹیننٹ جنرل خالد احمد قدوائی کا کہنا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی زمین کا ٹکرا ہمارے میزائلوں ”ابابیل“ اور ”شاہین تھری“ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے، ہمارے حملے کو روکنے کی صلاحیت انڈیا کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ اتنا تیز رفتار ہے کہ انڈیا کو اپنے بچاؤ کے لئے کوئی وقت نہیں ملے گا سوائے تباہی کے مگر ہم ایسا جب کریں گے جب ہمیں خطرہ محسوس ہو، ورنہ ہمارا ایٹمی پروگرام یا میزائل پروگرام انڈیا کے لئے خوف کی علامت ہے۔ جنگ کرنے سے باز رکھنے کے لئے ہے۔ ان کے وزیردفاع اور وزیرداخلہ روز بڑکیں مارتے ہیں کہ وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کریں گے جبکہ وہ پاکستان کی ایک چوکی تک نہیں لے سکتے ہیں۔ سرجیکل اسٹرائیک تو دور کی بات البتہ ہم ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہیں، اس کا اظہار پاکستان نے بارہا کیا۔ امریکا البتہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے درپے ہے۔ افغانستان کی جنگ میں اور اب بھی اور اس دفعہ اس نے ایک خفیہ معاہدہ کے تحت افغانستان کو ہمارے پیچھے لگا رکھا ہے۔ عام خیال ہے القاعدہ امریکا کی کئی انداز سے مدد کرتا ہے اور وہ افغانستان میں حکومت کی سرپرستی میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ نے عالمی پروگرام چھوڑ کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ اگر پاکستان ان کے قابو میں آجائے تو دنیا کو قابو کرلیں گے۔ یہ پروگرام اگرچہ امریکا نے افغانیوں کو لالچ دے کر بنوایا ہے مگر اس سے خود امریکا ہی بلکہ تمام عالم کو خطرہ ہے۔ ہمیں افغانیوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیسے کررہے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس سے اجتناب کریں، پاکستان کا احترام کریں اپنے محسن کے احسانات کو یاد کریں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا کا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کو مغربی سرحدوں میں مصروف رکھا جائے اور انڈیا کو پاکستان کے خطرے سے آزاد کرکے چین کے گرد گھیرا ڈالنے اور چین کے خلاف محاذ کھولنے کا موقع دے، مگر یہ جان لینا چاہئے کہ انڈیا اس کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا بلکہ اس کو ایسا دھوکا دے گا کہ وہ یاد کرے گا۔ افغانیوں کو ہم سمجھائیں گے، منائیں گے اور اگر ایسا نہ ہو تو جو کچھ کرسکتے ہیں کریں گے مگر پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

مطلقہ خبریں