اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی حالیہ چشم کُشا رپورٹ نے طاقت کے مراکز کا اصل چہرہ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا، یہ رپورٹ صرف ہتھیاروں کی تجارت کے اعدادوشمار پیش نہیں کرتی بلکہ ایک ایسے آئینے کی مانند ہے جس میں طاقتور ملکوں کے اصل عزائم جھلک رہے ہیں، امریکا سے لے کر روس تک، یورپ سے لے کر ایشیا تک، خطہ عرب سمیت پوری دُنیا میں ہتھیاروں کی منڈیاں گرم ہیں اور بارود کی فصلوں میں اضافہ ہورہا ہے
قادر خان یوسف زئی
یوں محسوس ہوتا ہے کہ دُنیا طاقتور ممالک کے ہاتھوں ایک ایسا بے بس قیدی بن چکی ہے، جس کے ہاتھ پاؤں قوت اور طاقت کی ہوس نے رسیوں سے باندھ دیئے ہوں۔ ہماری اس کُرہِ ارض پر طاقت کی مسابقت نے تباہی کے سوا انسانیت کو اور دیا ہی کیا ہے؟ تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی، البتہ تاریخ کو مسخ کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اسلحے کے سوداگر، طاقت کے متوالے اور جنگ کے دلدادہ۔ انہی عناصر نے تاریخ کو بارہا مسخ کیا اور سچائی کو طاقت کے تلے کچلنے کی کوشش کی۔ لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ انسانیت کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ہتھیاروں اور طاقت کے سوداگر یہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ ایک بے رحم منصف ہے اور اس کی عدالت میں کسی کی سفارش کام نہیں آتی۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی حالیہ چشم کُشا رپورٹ نے طاقت کے مراکز کا اصل چہرہ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا۔ یہ رپورٹ صرف ہتھیاروں کی تجارت کے اعدادوشمار پیش نہیں کرتی بلکہ ایک ایسے آئینے کی مانند ہے جس میں طاقتور ملکوں کے اصل عزائم جھلک رہے ہیں۔ امریکا سے لے کر روس تک، یورپ سے لے کر ایشیا تک، خطہ عرب سمیت پوری دُنیا میں ہتھیاروں کی منڈیاں گرم ہیں اور بارود کی فصلوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان فصلوں کو کاٹنے والوں کی جیبیں بھرتی جا رہی ہیں اور ان کا بوجھ دُنیا کے کروڑوں غریب اور عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ روس اور مغربی دُنیا کی طاقتور قوتوں کی کشمکش میں یوکرین کو میدانِ جنگ بنا کر ایک ایسی آگ لگا دی گئی جس کی لپٹیں شاید برسوں نہ بجھ پائیں۔ یوکرین وہی سرزمین ہے جہاں کبھی بچے امن کے خواب دیکھتے تھے، بزرگ صبح کی روشنی کے منتظر ہوتے تھے، نوجوان خوشحال زندگی کی آرزوؤں سے سرشار تھے۔ آج وہی یوکرین جنگ کی خوفناک آگ میں جھلس کر عالمی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ آخر کس کے ہاتھوں یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس جنگ کا اختتام کب اور کس قیمت پر ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ جنگ کی آگ کا ایندھن ہمیشہ غریب اور بے بس انسان بنتے ہیں جبکہ اسلحے کی تجارت سے اربوں ڈالر کمانے والے طاقتور ممالک انسانیت کے خون کا سودا کرتے ہیں۔ طاقتور ممالک اسلحے کی تجارت کے میدان میں جو دوڑ لگا رہے ہیں اُس نے دُنیا بھر میں عام انسان کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب اسلحے کے اِن خریداروں اور فروخت کنندگان میں ایسی صف بندیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو اگلی کئی دہائیوں کی عالمی سیاست کی سمت کا تعین کریں گی۔ امریکا اب بھی سب سے بڑا اسلحہ فروخت کنندہ ہے جبکہ روس اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ امریکا اپنے اتحادیوں پر روسی اسلحے کی خریداری کے حوالے سے دباؤ بڑھا رہا ہے، لیکن بھارت اور چین جیسے بڑے ممالک ابھی تک روسی اسلحے کے اہم خریدار ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ممالک طاقت کی دو بڑی صفوں میں بٹ رہے ہیں اور اس نئی تقسیم کی وجہ سے آنے والے دنوں میں عالمی امن کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا اس بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ بن سکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے اسلحے کی خریداری میں مسلسل اضافے نے اس خطے کو جنگ کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے میں خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے نئے امکانات تلاش کرے۔ بھارت اور پاکستان کے معاملے میں صورتِ حال اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اسلحے کی یہ تجارت مشرق وسطیٰ میں طاقت کے نئے مراکز کو جنم دے رہی ہے۔ سعودی عرب اب روس یوکرین تنازع میں امن مذاکرات کے لئے اہم پلیٹ فارم بھی بن رہا ہے، تاہم اسلحے کے مسلسل حصول نے مشرق وسطیٰ کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ طاقتور ممالک اگر واقعی امن چاہتے ہیں تو اسلحے کی اس دوڑ کو روکنا اور تنازعات کے پُرامن حل کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔ محض الفاظ اور بیانات سے دُنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا بلکہ عملی اقدامات ہی سے دُنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ ہتھیاروں کی تجارت اور طاقت کی ہوس نے ہمیشہ انسانی معاشروں کو جنگوں کی جانب دھکیلا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں، خاص کر سرد جنگ کے بعد، دُنیا نے کئی خطرناک موڑ دیکھے ہیں۔ آج ایک بار پھر یہ دُنیا دو بڑی طاقتوں کے درمیان بٹی نظر آ رہی ہے۔ روس یوکرین تنازع نے اس تقسیم کو مزید واضح کردیا ہے۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ایک طرف کھڑے ہیں، جبکہ روس، چین اور دیگر کئی ممالک دوسری جانب صف آرا ہیں۔ اس صف بندی کے دوران عالمی امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ روس، جو کبھی دُنیا بھر میں اسلحے کی بڑی منڈی سمجھا جاتا تھا، اب اپنی اسلحے کی برآمدات میں واضح کمی کا شکار ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ روس پر مغربی پابندیاں ہیں جنہوں نے روس کی جنگی طاقت اور معاشی استحکام کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف امریکا اسلحے کی فروخت میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط مقام پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا عالمی امن کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے یا محض اپنے اسلحے کی منڈیوں کو مضبوط بنا رہا ہے؟ مجھے آج بھی وہ تصاویر یاد ہیں جن میں شام کے بچے ملبے تلے دبے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ مجھے وہ افغان و غزہ کی مائیں یاد ہیں جو اپنے بچوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر بے بسی سے تڑپ اٹھتی ہیں۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے امریکا اور مغرب نے جس طرح اسلحہ فراہم کیا وہ مشرق وسطیٰ کا ہولو کاسٹ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مجھے وہ بزرگ یاد ہیں جو اپنے اجڑے ہوئے گھروں کو آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ان سب کا قصور کیا ہے؟ کیا یہ طاقت کی جنگ کے متاثرین نہیں؟ طاقتور ممالک کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔