Monday, May 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا

آتے آتے میرا نام سا رہ گیا
اُس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

ان کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہم سفر راستہ رہ گیا

سوچ کر آؤ کوئے تمنا ہے یہ
جانِ من جو یہاں رہ گیا رہ گیا

وہ میرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جارہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا


وسیم بریلوی


مطلقہ خبریں