پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حل بھی بن سکتا ہے
ڈاکٹر ماریہ سلطان
پاک امریکا حالیہ تعلقات میں جدت آئی ہے اور یہ پاکستان کے لئے ایک موقع ہے اور یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حل بھی بن سکتا ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے نزدیک پاکستان خود ایک مسئلہ تھا۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کی حوالگی (ایکسٹراڈیشن) کا کوئی معاہدہ تو نہیں لیکن امریکا اور افغانستان کے درمیان یہ معاہدہ ہے اور کابل ایبی گیٹ حملے کا ملزم داعش کا لیڈر شریف اللہ ایک افغان شہری ہے۔ پاکستان نے جس بین الاقوامی قانون کے تحت شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کیا اس کے پیچھے سلامتی کونسل کی قراردادیں 1373 اور 1267 ہیں۔ پاکستان نے شریف اللہ کی حوالگی کے لئے دہشتگردی کے خلاف اقوام متحدہ کا فریم ورک استعمال کیا ہے جس کے مطابق ان قراردادوں پر دستخط کرنے والے ممالک بین الاقوامی طور پر قرار دیئے گئے دہشتگردوں کو پناہ فراہم نہیں کرسکتے۔ بنیادی طور پر دوحہ معاہدے میں یہ کہا گیا تھا افغان سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہوگی تو اسی تناظر میں پاک امریکا فوجی تعاون آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریپبلیکن جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
پاکستان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ امریکا نے جس طرح سے افغانستان سے انخلا کیا اور جدید امریکی ہتھیار جو وہاں رہ گئے وہ ٹھیک نہیں ہوا اور صدر ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں یہی بات کی۔ پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز نہ بنے اور ہم یہاں پاکستان کی سرزمین میں کسی دہشتگرد کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔
بھارت کا امریکا کے ساتھ تزویراتی معاہدہ ہے اور بھارت امریکا کا تزویراتی شراکت دار ہے۔ پاک امریکا دفاعی تعاون مضبوط ہونے سے بھارت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان جو ’’بیکا کم کاسا ایس ٹی اے ون‘‘ جیسے معاہدے ہیں، ان معاہدوں کے تحت بھارت پر کچھ وضاحتیں لازم ہوگئی تھیں جو وہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت نہیں کرتا رہا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ بھارت سے کہے گی کہ وہ ’’میک اِن انڈیا‘‘ تحت امریکا سے ٹیکنالوجی بھی خریدیں اور امریکی دفاعی صنعت کو وہ اسپیس بھی دیں جو ان معاہدوں کے تحت انہیں دینی تھی۔ یہ چیلنج بھارت کے لئے ضرور آئے گا۔
صدر ٹرمپ کثیرالجہتی کی بجائے دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ان کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ امریکا کی اندرونی سیاست کو دیکھتے ہیں تو صدر ٹرمپ کا فوکس یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ امریکا کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بطور صدر امریکا وہ نئی جنگوں کے لئے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کر سکتے تھے لیکن اس کے برعکس امریکا ماضی میں جہاں جہاں دوسرے ملکوں میں جنگوں میں ملوث رہا صدر ٹرمپ وہاں سے انخلا چاہتے ہیں، ماضی عراق، شام، پاکستان کے لوگوں سے جو وعدے کئے گئے تھے کہ جو کوئی امریکا یا سی آئی اے کو مدد فراہم کرے گا انہیں ویزے دیئے جائیں گے تو امریکا نے اب وہ مراعات ختم کی ہیں۔
صدر ٹرمپ کا فوکس امریکا کی تجارت کو آگے لے کر جانا ہے اور اگر پاکستان کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدات ہوتے ہیں تو یہ پاکستان اور امریکا دونوں کے لئے خوش آئند ہوگا۔ ہمارے لئے چیلنج یہ ہوگا کہ ہم امریکا میں اپنے کوٹہ بیسڈ سسٹم میں وسعت لے کر آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں افغانستان کے اندر رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی بچوں کے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے برخلاف ڈیموکریٹس سوشل انجینیئرنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے دُنیا بھر کے ممالک میں 700 ارب ڈالر سوشل انجینیئرنگ میں صرف کئے ہیں۔ ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی مفادات کو آگے لے کر جانا ہے تو اُس کے لئے ہمیں مختلف ممالک کے اندر مقامی سطح کی مزاحمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں سی آئی اے نے سوشل انجینیئرنگ کے حوالے سے اگر ایسے کام کئے ہیں تو یہ کسی ریاست کا کام نہیں ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر اُنہوں نے ایسے تمام تارکین وطن جو شام، عراق یا افغانستان میں امریکا کے لئے کام کرتے رہے ہیں ان کے ویزوں پر پابندی لگائی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ امریکا آنا ہے تو تعلیم اور سرمایہ کاری کے لئے آئیں۔ اس سے قبل کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت کہا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے اندر امریکا کی شراکت داری کو بڑھانا ہے تو اُس کے لئے امریکا پاکستان کے اندر 22 شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ پیسے پاکستانی حکومت کو نہیں دیئے جائیں گے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذریعے سے یہ پیسے یہاں مختلف افراد کو دیئے جائیں گے۔ اسی کیری لوگر ایکٹ کے تحت جارج سورس کو فنڈنگ کی گئی جو یہاں لاہور میں رہتے بھی رہے اور اسی ایکٹ کے تحت پاکستان کو 36 ملین ڈالر دیئے گئے جبکہ آپ کو ملے صرف 11 ملین ڈالر، 24 ملین ڈالر کا حساب ہی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ جب ایسے معاملات پر جواب طلبی کررہے ہیں تو اس سے بہت ساری اور چیزیں بھی کھلیں گی۔