Thursday, June 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یورپ روس جنگ اور دنیا پر امریکی بالادستی

قدرت دُنیا میں توازن قائم رکھنا چاہتی ہے، وہ کسی بھی طاقت کو ایک مدت سے زیادہ قبضہ نہیں دیتی، یہ ضرب المثال ہر وقت ثابت ہوتی رہتی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے

نصرت مرزا

عظیم حکمت عملی کسے کہتے ہیں، یہ جاننے کے لئے دنیا کو کم از کم ڈیڑھ سے دو عشروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے، یعنی کم از کم 15 سے 20 سال کا عرصہ۔ جب امریکی بالادستی 1989ء میں قائم ہوگئی تو وہ دنیا کی واحد سپرپاور بن گیا، یہ کامیابی پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے کر حاصل ہوئی۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ اس بالادستی کو لازوال بنا لیں گے یا کئی عشرے تک ان کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکے گا، روس بھی دوبارہ سامنے آیا تو اسے سنبھلنے میں کم از کم تیس سال کا عرصہ لگے لگا۔ اس عرصے میں امریکا اپنی طاقت اور بڑھالے گا۔ امریکی ایسے اقدامات بھی کرتے گئے کہ دنیا ان کے شکنجے میں آتی رہے۔ چنانچہ وعدہ خلافی کرتے ہوئے امریکا نے دفاعی مشین نیٹو کو مشرقی یورپ میں بڑھانا شروع کردیا۔ امریکی یہ بھول گئے کہ قدرت دُنیا میں توازن قائم رکھنا چاہتی ہے، وہ کسی بھی طاقت کو ایک مدت سے زیادہ قبضہ نہیں دیتی، یہ ضرب المثال ہر وقت ثابت ہوتی رہتی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ امریکا کو 2007ء میں چیلنج محسوس ہونے لگا جو 2010ء میں کھل کر سامنے آگیا۔ یہ چیلنج دو طرفہ تھا یعنی روس کے علاوہ چین بھی امریکا کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ یہ ایسے ہوا کہ جب امریکا دفاعی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روس کو گھیرنے کے لئے بڑھتا ہی رہا تو 2002ء میں روسیوں نے ولادی میر پیوٹن کو اپنا صدر منتخب کرلیا۔ پیوٹن صدر بننے سے قبل حساس ادارے کی سربراہی کا تجربہ رکھتے تھے۔ وہ امریکی چالوں اور پینتروں سے خوب واقف تھے۔ پیوٹن نے دس برسوں میں ہی روس کو اس قابل کردیا کہ وہ امریکا کی راہ میں حامل ہونے لگا۔ اس طرح اب امریکا کے لئے یوریشیا میں پیش قدمی کرنا آسان نہ رہا۔ اس صورتِ حال میں امریکی امراء اور ان کے دانشوروں نے سرجوڑ کر سوچنا شروع کردیا کہ امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرنے والی قوتوں سے کیسے نمٹا جائے۔ کیونکہ امریکا کے دانشور یہ اعلان کرچکے تھے کہ طاقت کا محور جو ازل سے یوریشیا میں رہا ہے، اس کو اب امریکا لے آئے ہیں تو اس کو رہتی دنیا تک یہیں رکھیں گے، اس کو امریکا سے نہ جانے دینے کے لئے چاہے انہیں جنگ کرنا پڑے، حکومتیں تبدیل کرانا پڑے، خانہ جنگی کرنا پڑے، سازشیں کرنا یا کسی حکمران کو قتل کرنا ہو، جو کچھ وہ کرسکتے ہوں کریں گے، چنانچہ پچھلے 60 سالوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔ جیسے فرانسیسی صدر ڈیگال، انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو، پاکستان کے صدر محمد ایوب خاں، سعودی عرب کے شاہ فیصل، مصر کے انور سادات اور ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا خاتمہ کروایا گیا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور غزہ میں تباہی اور بربادی اسی مقصد کے تحت کروائی گئی۔ بالادستی قائم رکھنے کے امریکی طریقہ کار کا اظہار صدر امریکا جمی کارٹر کے دانشور مشیر برزنسکی نے اپنی کتاب The Grand Chessboard میں کردیا تھا۔ 2010ء میں امریکی بالادستی چیلنج ہوگئی تو امریکی امراء نے بہت سوچ وبچار کے بعد امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے چار اقدامات کئے۔ جسے ہم نے 2012ء میں ایک ٹی وی پروگرام اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں مضمون کے ذریعے دُنیا کو آگاہ کردیا تھا کہ پہلے یورپی یونین جو امریکا کو چیلنج کرنے کے لئے ابھر رہی ہے اسے کمزور کیا جائے اور برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیا جائے۔ برطانوی جو امریکا کے دم چھلے کی طرح امریکا کے بے دام غلام بنے ہوئے تھے، انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور جون 2016ء ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدہ ہوگئے۔ دوسرے اقدام میں امریکا نے فیصلہ کیا کہ غیرملکی تارکین وطن کو اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھیجا جائے۔ چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد یہ سلسلہ تیزی سے شروع ہوگیا ہے۔ بیڑیوں میں جکڑ کر لوگوں کو اپنے اپنے ملک بھیجا جا رہا ہے۔ تیسرا قدم یہ تھا کہ دُنیا بھر میں مہنگائی بڑھا دی جائے تاکہ لوگ بھوک اور مجبوری سے بلبلا اٹھیں۔ سو وہ سلسلہ بھی جاری ہے۔ ظالموں سے کیا اُمید کی جاسکتی ہے، وہ انسانوں کی فکر نہیں کرتے اور ان کے لئے انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم مار کر لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا۔ ویتنام، افغانستان، لیبیا، عراق، شام اور غزہ کے علاوہ دُنیا بھر میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور انسانوں کو بے رحمی اور انسانیت سوز طریقوں سے قتل کیا۔ افغانستان میں تو کلسٹر بموں کی برسات کردی تھی۔ جو ظلم وبربریت کی انتہا تھی۔ چوتھا منصوبہ اپنے دو دشمنوں کو لڑانے کا فیصلہ تھا، جس پر کام کا آغاز یوکرین /روس جنگ کے ذریعے ہوچکا ہے۔ امریکا یورپ کو روس سے لڑوانا چاہتا ہے تاکہ اس کی بالادستی قائم رہے۔ یورپی یونین کا امریکی بالادستی ختم کرنے کا باطنی ارادہ تھا جس کو امریکا نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا جبکہ روس اس کا ازلی دشمن ہے۔ اب بظاہر تو ڈونلڈ ٹرمپ روس کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، اصل میں وہ یورپ کو روس سے لڑا کر اپنے دو مخالفین کا تیاپانچا کرکے اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ دُنیا نے دیکھا کہ امریکا نے نیٹو سے دوری اختیار کی۔ فرانس کے صدر میکرون سے سردمہری اختیار کی۔ برطانوی وزیراعظم کو بھی امریکا میں سبکی اٹھانا پڑی۔ یورپی یونین کی نمائندہ کے ساتھ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے آخری لمحے میں ملنے سے انکار کردیا۔ سب سے زیادہ تذلیل تو وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر زیلنسکی کی گئی، جنہیں جان بوجھ کر میڈیا کے سامنے امریکی صدر اور نائب صدر نے مل کر ذلیل کیا، اس کی مثال جدید دُنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہمارے خیال میں یوکرین کے صدر کو بھی فرانس، برطانیہ اور یورپی ممالک نے خوب چڑھا کر اور قریب قریب ٹرمپ کے مقابلے کے لئے بھیجا تھا۔ جسے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھانپ لیا تھا، چنانچہ یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ انتہائی توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ جو ایک تاریخ ساز واقعہ ہے اور رہتی دُنیا تک شاید مثال بنا رہے۔ روس اور برطانیہ، جرمنی و فرانس کے درمیان صدیوں کی چپقلش ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی روس کے ازلی دشمن ہیں۔ وہ کسی بھی صورت روس کو کامیاب یا سرخرو نہیں ہونے دینا چاہتے۔
اب جو منظرنامہ بنتا ہے تو وہ یہی ہے کہ یورپ اور روس آپس میں لڑیں، بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ جنگ شروع ہوچکی ہے۔ امریکا کا مقصد بھی پورا ہونے جارہا ہے۔ اس لئے بھی کہ یوکرین یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے اور یورپ کو اجناس کی سپلائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسے یورپ کی فوڈ باسکٹ کہا جاتا ہے اور نایاب معدنیات سے مالامال ہے۔ پہلے یورپ امریکا کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ لگتا ہے کہ امریکا یورپ کے چکر میں نہیں آئے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ چین کس خانے میں ہے۔ ہنری کیسنجر نے مرنے سے پہلے چینی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس کے بعد جوبائیڈن چینی صدر سے ملنے گئے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں۔ وہ اسٹرٹیجک معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیںلیتا۔ اس لئے چین اس کے مدمقابل شاید نہ آئے لیکن پھر چین جو جدید اسلحہ بنا رہا ہے اور جن منصوبوں پر کام کر رہا ہے اس کے کوئی نہ کوئی اہداف ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ چینی سوچ گہری ہوتی ہے، ان کی منصوبہ بندی دوررس ہوتی ہے اور چینی عشروں اور صدیوں تک انتظار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

مطلقہ خبریں