تھوسیڈائڈز (Thucydides) پھندا کے مطابق ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور ایک موجودہ عالمی طاقت کے درمیان جنگ کا ہونا لازمی ہے۔۔
نصرت مرزا
تھوسیڈائڈز (Thucydides) پھندا ایک اصطلاح ہے جو امریکا کے ایک دانشور اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن نے 2012ء میں ’’فنانشنل ٹائمز‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں متعارف کروائی تھی۔ یہ تھوسیڈائڈز (Thucydides) پھندہ کیا ہے؟ اس کے مطابق ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور ایک موجودہ عالمی طاقت کے درمیان جنگ کا ہونا لازمی ہے۔ جیسا کہ یونان کی طاقت اور اسپارٹا کے درمیان 73 سال تک یعنی 431 BC سے لے کر 404 BC تک جنگ ہوتی رہی اور ابھرتی طاقت اسپارٹا سے اس وقت کی طاقت اتھینینز (Athenians) اس جنگ میں بالآخر ہار گئی۔ تھوسیڈائڈز (Thucydides) اس وقت Athens کا جنرل تھا سزاوار ٹھہرا، اور ملک بدر کردیا گیا، مگر وہ ایک تاریخ دان اور اتھینز کے امراء کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے دوران جلاوطنی اس جنگ کا حال بڑی سائنسی انداز میں لکھنے کے علاوہ اس وقت کے رہنماؤں اور جنرلوں کی تقاریر کو بھی اپنی تاریخی کتاب کا حصہ بنایا۔ گر اہم ایلیسن جو 1940ء میں پیدا ہوگئے ہیں انہوں نے اپنی کتاب اور مضامین میں امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی، تکنیکی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی کشمکش کو زیربحث لاتے ہوئے دونوں طاقتوں کو امن پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے امکانات اگرچہ ایسے وقت 75 سے 80 فیصد ہوتے ہیں۔ باقی 20 تا 25 فیصد جنگ کرنے یا روکنے کا اختیار ابھرتی اور موجود طاقتوں کے پاس ہوتا ہے، وہ چاہیں تو امن قائم کرسکتی ہیں۔ ویسے بھی امن کوئی خواب نہیں ہوتا یا سراب نہیں بلکہ یہ ممکنہ اختیار ہے، اگر ہم اس کے حصول کیلئے سمجھداری اور متفقہ طور پر عمل کریں۔ یہ تو درست ہے کہ یونان اور اسپارٹا کے درمیان ناچاقی بالآخر جنگ پر جا کر ختم ہوئی اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اور موجودہ طاقت کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں مگر کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بغیر جنگ کے معاملات سنبھل گئے ہیں۔ جیسے 1890ء میں برطانیہ اور جرمنی نے جنگ سے گریز کیا۔ اگرچہ معاشی جنگ جاری رہی۔ اس سے پہلے 15 ویں صدی کے آخر میں پرتگال اور اسپین میں تناؤ تھا مگر جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان جنگ نہیں ہوسکی۔ ایک اور مثال امریکا، روس، جاپان اور جرمنی کی ہے، ان کے درمیان 1990ء سے اب تک سرد جنگ تو ہوتی رہی، معاشی اور تجارتی جنگ کے ساتھ خفیہ جھڑپیں بھی ہوئیں مگر مکمل جنگ کی صورت تاحال نہیں بن سکی۔
ابھرتی ہوئی 16 طاقتوں اور موجودہ طاقتوں کے درمیان 12 کے درمیان جنگ ہوئیں اور چار طاقتوں نے جنگ سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ اس وجہ سے گراہم ایلیسن کہتے ہیں کہ چین اور امریکا کے درمیان جنگ کو روکا جاسکتا ہے، اگر تدبر کا مظاہرہ کیا جائے تو ابھرتی طاقتوں اور موجودہ سپرپاور امریکا کے درمیان جنگ سے بچنے کے عمل اور پورے عمل کو روکا جاسکتا ہے اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ طاقتیں ایٹمی قوت کی مالک ہیں۔ ایسی جنگ کا مطلب نہ صرف اپنے دشمن کو نیست ونابود کرنا ہے بلکہ پنے آپ کو یقینی تباہ کرنا بھی ہے، جو جنگ سے گریز کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اچھا تو یہ ہوگا اس حالت میں جیت ہار کے تصور کو ہی دوبارہ سے لکھا جائے اور ایسے لکھا جائے جو سب کی جیت ہو اور ایک دوسرے کی زندگی کی ضمانت ہو۔ ٹرمپ صاحب کو ضرور یہ بات پیش نظر رکھنا چاہئے کہ چین نے اپنا پھیلاؤ خوبصورتی سے بڑھایا ہے، چین دُنیا کے 193 ممالک میں سے 160 ممالک سے تجارت کررہا ہے، وہاں وہ ملٹری، حفاظتی حصار بھی بنا چکا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ امریکا کے ہمسائے لاطینی امریکا کے تین دورے کرچکے ہیں جبکہ امریکی صدر نے ان ممالک کا صرف ایک مرتبہ ہی دورہ کیا ہے۔ عالم غیض و غضب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحیح میکسیکو کا نام خلیج امریکا رکھ دیا، اس پر میکسیکو کے صدر اور دوسرے ممالک نے اعلانیہ یا عملاً یہ طریقہ اپنایا کہ ان کے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں جبکہ امریکا کے پاس نہیں۔ پھر امریکا تنہائی کا شکار ہورہا ہے، چار نکاتی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے وہ روس اور یورپ کے درمیان جنگ کرانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ دونوں طاقتیں جنگ سے کمزور ہوجائیں اور بھارت کو بھی چین کے خلاف جنگ کے لئے تیار کررہا ہے تاکہ بھارت جو امریکا کے خلاف فی الحال تو نہیں لیکن کسی وقت بھی مدمقابل آسکتا ہے، اس کو اور چین کو لڑا کر کمزور کردیا جائے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڑ کا راستہ روکنے میں اپنی توانائی صرف کررہا ہے۔ یوں چین سے تصادم کی پالیسی پر گامزن ہے، اگرچہ چین امریکا سے صلح کرنے کو تیار ہے مگر ساتھ ساتھ امریکا کو متنبہ کررہا ہے کہ وہ آخری حد تک جنگ کے لئے تیار ہے۔ اب امریکا نے چین کے سامان پر 245 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے، تو چین نے امریکا سے بوئنگ طیارے خریدنے کے تمام معاملات منسوخ کردیئے ہیں۔ یہاں تک کہ پرزہ جات خریدنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یورپ کو تجارتی جنگ میں ہرا دیا ہے اور چین کو بھی سرنگوں کرکے چھوڑیں گے۔ امریکی صدر جنگ کے راستے پر سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں، جو عمل کرئہ ارض کے خاتمہ کا سبب بن سکتا ہے۔ دُنیا کے سارے خلائی سائنسدان اپنے اپنے ممالک کے لئے نئے زمین کی تلاش میں سرگراں ہیں، ممکن ہے ایلون مسک کوئی سیارہ ایسا ڈھونڈ چکے ہوں جہاں انسان زندہ رہ سکے اور جہاں سفید فام امریکیوں کو لے جانے کا بندوبست کررہے ہوں، اسی لئے امریکا ایشیائی اور افریقی باشندوں کو امریکا سے نکال رہے ہیں تاکہ صرف سفید فام امریکیوں کو ہی نئے سیارہ میں لے جانے میں آسانی ہو۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکا اتنے خلائی جہاز بنا جاچکا ہے کہ وہ سارے سفید فام لوگوں کو نئے دریافت شدہ سیارہ میں لے جا سکیں۔ میرے خیال میں یہ بات قرین قیاس ہے کہ وہ ایسا کر چکے ہوں۔ اس کو میں فی الوقت ثابت تو نہیں کرسکتا مگر کسی اور کالم یا مضمون میں اپنی معلومات کے ساتھ اس پر مزید گفتگو کروں گا۔ چین کو مشکلات کا سامنا تو ہے مگر وہ اپنی معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھے گا۔
امریکا کے اپنے دانشوروں گراہم ایلیسن اور اسکاٹ بینٹ کا مشورہ ہے کہ امریکا کو ازلی مخاصت کی بجائے عملی تعاون کی طرف بڑھنا چاہئے تاہم اس کے برعکس ہمارا خیال ہے کہ امریکا اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے دُنیا کو جنگ کی آگ میں جھوک دے گا۔ وہ چار نکاتی منصوبے کے تحت کام کررہا ہے، پہلے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالا تاکہ وہ روس اور چین کے بعد امریکا کی بالادستی کو چیلنج نہ کرسکے، دوسرے افریقی اور ایشیائی باشندوں کو امریکا سے نکالنا، دُنیا پھر میں مہنگائی بڑھنا اور جنگ یا کئی جنگ جیسے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگیں اور ممکنہ یورپ اور روس کو جنگ کے لئے اکسانا، بھارت اور چین کے درمیان جنگ کے حالات پیدا کرنا اور بالآخر اس جنگ سے نڈھال، ہراساں، بھوکی اور بچی کچی دُنیا پر اپنی بالادستی قائم کرکے امریکا پھر سے عظیم ملک بن جائے۔