مودی کی منافقت کی پالیسی کے باعث جنوبی ایشیا کا امن ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑگیاہے۔ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر دہشت گردی کرنے اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے جیسے الزامات لگاتے رہے لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں سابق کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے کھلے الفاظ میں بھارتی دہشت گردی کو بے نقاب کیا تھا اور اس سے قبل انہوں نے ثبوت بھی پیش کئے تھے کہ کس طرح بھارتی دہشت گرد سفارتکاری کے بھیس میں ان کے ملک کے شہریوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھارتی ’’را‘‘ کی کارروائی تھی۔ برطانیہ بھی بھارتی سفارتی عملے کے خلاف یہی کچھ شکایتیں کرتا رہا ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا پر مشتمل فائیر آئیز نامی تنظیم نے بھی بھارتی دہشت گردی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور نریندر مودی حکومت سے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ وہ کینیڈا کے شہریوں کے قتل کیس میں مکمل تعاون کرے، بھارت کی دہشت گردی سے مالدیپ بھی پریشان رہا ہے، بنگلادیش کے بھی شدید تحفظات ہیں، بھارتی دہشت گردوں پر اعتراض کرچکا ہے، گزشتہ پانچ سال میں عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی عالمی سطح پر بے نقاب ہوئی ہے، اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی دہشت گردی گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں بھارت دہشت گردوں کا نیٹ ورک چلاتا آرہا ہے، کلبھوشن یادیو جیسے ایجنٹ کے ذریعے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں مسلسل دہشت گردی کرتا رہا ہے، کلبھوشن کی گرفتاری سے بھارت کا سارا کچاچٹھا کھل کر سامنے آچکا ہے، نریندر مودی 14 فروری 2019ء کو پلوامہ کا ڈرامہ کرواتے ہیں، انتہائی سیکیورٹی ایریا میں اپنے ہی فوجیوں کے کانوائے کو نشانہ بنواتے ہیں اور الزام پاکستان پر لگاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حقائق سامنے آتے ہیں تو تانے بانے دہلی سرکار سے جا ملتے ہیں۔ پلوامہ واقعہ پر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں اور جواب میں اپنے تین طیاروں کو تباہ کرواتے ہیں، پائلٹ ابھینندن گرفتار کرواتے ہیں، پھر بھی جھوٹا پروپیگنڈا پہلگام میں کرواتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا یہ علاقہ محض 18 اسکوائر کلومیٹر ہے جس کی آبادی 9264 نفوس پر مشتمل ہے، پہلگام کی بیرن وادی شہر سے 6 کلومیٹر کی بلندی پر ہے، جہاں تک پہنچنے کیلئے پیدل سفر ہوتا ہے یا گھوڑوں اور خچروں کے ذریعے ہوتا ہے، سری نگر سے اننت ناگ 96 کلومیٹر دور ہے، سری نگر ایئرپورٹ سے ڈل جھیل 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں چپے چپے پر بھارتی فوجی اہلکار کھڑے ہیں۔ سیکیورٹی کے یہ انتظامات بلند مقام پر جاتے جاتے مزید سخت ہوتے جاتے ہیں۔ بیرن وادی کے جنگل سے اچانک موٹرسائیکل سوار مسلح افراد آتے ہیں اور وہ سیاحوں کو نشانہ بناتے ہیں، عورتوں کو الگ کرکے مردوں پر گولیاں برساتے ہیں، تقریباً 30 منٹ تک کارروائی کرتے ہیں لیکن وادی کے راستوں اور ضلع اننت ناگ میں جگہ جگہ موجود بھارتی فوج کے دستے بے خبر رہتے ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ دہشت گرد انہی راستوں سے گزر کر جن پر بھارتی فورسز کی چیک پوسٹیں ہیں بیرن کے بلند مقام کے جنگلوں میں چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں امریکی ساختہ ایم فور اور اے کے 47 ہتھیار بھی لے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہے جبکہ اننت ناگ میں ستمبر 2023ء میں بھارتی فوج، مقامی پولیس کے ساتھ مل کر آپریشن بھی کرچکی ہے، جس میں بھارتی فضائیہ کے ڈرون بھی شریک رہے تھے، اننت ناگ مسلسل بھارتی فوج کے حصار میں ہے، پھر اس ضلع کے مختصر سے رقبے پر ایک بلند مقام پر دہشت گرد کس طرح اپنی سرگرمی کرسکتے ہیں۔ مودی کے احمقانہ الزامات سے خود بھارتی سیکیورٹی نظام پر سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات کہ واقعہ بھارتی وقت کے مطابق ایک بجکر پچاس منٹ سے 2 بجکر 20 منٹ تک جاری رہتا ہے اور 2 بجکر 30 منٹ پر اس کی ایف آئی آر بھی درج ہوجاتی ہے جبکہ پولیس کو پہنچنے میں تقریباً چار منٹ لگے، پولیس کے پہنچنے سے پہلے سرحد پار دہشت گردوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہوگئی جو انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہ سب اقدامات مودی سرکار کے فالس فلیگ آپریشن کی قلعی کھول دیتے ہیں کہ مودی سیاسی مقاصد کیلئے کس طرح اپنے ہی بے گناہ شہریوں کو قتل کرواتے ہیں۔ چونکہ بھارت کے بڑے صوبے بہار میں رواں سال انتخابی دنگل لگے گا، مودی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ماضی میں بھی اپنے ہی شہریوں کا قتل عام کروا چکے ہیں، پلوامہ سے قبل گجرات میں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کروانے کا عمل سیاسی مقاصد کیلئے ہی تھا۔ بہرحال مودی کی سفاکیت دُنیا کے سامنے آچکی ہے، اب بھارت میں رہنے والے ہوش مند مودی کے اصل چہرے کو پہچانیں ورنہ مستقبل میں بھی مودی کے ہوس اقتدار کی بھینٹ بھارتی عوام چڑھیں گے۔ پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی حکومت کے دھمکی آمیز اور احمقانہ اقدامات کا نقصان خود بھارت کو ہورہا ہے، پاکستان نے جوابی اقدام کے طور پر اپنی فضائی حدود بھارتی طیاروں کیلئے بند کردی ہے، نتیجتاً بھارتی طیاروں کو 2 گھنٹے کا اضافی سفر کرنا پڑ رہا ہے، یومیہ 70 سے 100 پروازیں اَپ ڈاؤن کرتی ہیں، تجارت بند ہونے کا نقصان بھی بھارت کو ہوگا کیونکہ بھارتی مضوعات پاکستان زیادہ آتی ہیں جبکہ پاکستان سے کم سامان بھارت جاتا ہے، اگر نریندر مودی سرحد پر محاذ کھولتے ہیں تو انہیں ماضی کے تجربات یاد رکھنے چاہئیں، دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں، زیادہ نقصان بھارت ہی کا ہوگا۔ بھارت کے سرحدی اختلافات چین اور بنگلادیش سے بھی شدید ہیں، لہٰذا دونوں ملک اس تناؤ کی صورتِ حال میں دہلی سرکار سے حساب کتاب کرسکتے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کو ٹاپ فائیو اکنامی کا ہدف بھی حاصل کرنا ہے، ایسے اہداف جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ مودی جذبات میں بہک کر اتنے آگے نہ نکلیں جہاں سے واپسی میں سبکی بھی ہو اور نقصان بھی زیادہ ہو۔ مشرق وسطیٰ کا معاملہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے، اسرائیل تمام تر ہتھکنڈے استعمال کرکے بھی حماس سے اپنے قیدی چھرا نہیں سکا، غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اُس ملبے پر بھی بمباری کی جارہی ہے، ایسے موقع پر فلسطینی صدر کا بے بسی کا بیان حماس اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑ دے کیونکہ اس کا خمیازہ فلسطینی حکومت اور عوام بھگت رہے ہیں۔ محمود عباس کا بزدلی کا بیان انتہائی افسوسناک ہے، انہیں غزہ اور مختلف علاقوں کے مظلوموں کے حوصلے سے ہمت و جرأت کا سبق لینا تھا، نہتے فلسطینیوں اور حماس کے جنگوؤں کی مثالی استقامت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے تھا لیکن وہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کے الفاظ ادا کررہے ہیں، اگر وہ صدر کی حیثیت سے کچھ کر نہیں سکتے تو استعفیٰ دیں اور فلسطینی عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع فراہم کریں جو ان کی ترجمانی کرنے کا حق ادا کرسکے۔ نیتن یا ہو کے جنگی جرائم کے خلاف عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کیلئے فلسطینی حکومت کچھ نہیں کرسکی ہے۔ معصوم فلسطینیوں کی قربانیوں اور اسرائیل کے ظلم و ستم کو آشکار کیا ہے تو مظلوم ماؤں نے کیا ہے جو اپنے بچوں اور جوانوں کی شہادتوں کے بعد بھی ڈٹی ہوئی ہیں اور ظلم کے دستور کو نہ ماننے کی صدا بلند کررہی ہیں۔ حماس کی استقامت کے ساتھ یمن کے حوثیوں کی جرأت بھی مثالی ہے، وہ کم وسائل کے باوجود اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ غزہ پر بمباری بند کی جائے، تو وہ بھی اپنی حربی کارروائیاں ختم کردیں گے، دوسری صورت میں اُن کا جہاد جاری رہے گا۔ مشرق وسطیٰ کے امن سے ہی ایران امریکا کے درمیان جاری ایٹمی مذاکرات کا نتیجہ بھی جڑا ہے۔ پہلا مسقط کی میزبانی اور ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوئے تو مشرق وسطیٰ پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ دوسری صورت میں میدانِ جنگ فلسطین سے نکل کر اطراف کے ملکوں میں پھیل جائے گا۔ شام اگرچہ ترکیہ کے زیراثر امریکی خطوط پر آگیا ہے لیکن یہ عارضی ہوگا، شام میں ایران کی پراکسی برقرار ہے ختم نہیں ہوئی ہے صرف خاموشی سے ایک طرف ہوگئی ہے۔ طیب اردگان جس قسم کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں اس کے سارے فوائد گریٹر اسرائیل کے ہدف کو مل رہے ہیں۔ ڈیڑھ سالہ جنگ کے دوران ترکیہ نے اسرائیل سے تجارت بھی جاری رکھی، اگرچہ یہ سب کجھ ملک کی معاشی مجبوری ہے اور امریکا کا دباؤ بھی ہے۔ اس کے باوجود کچھ جرأت اور درمیانی راستہ استنبول بھی نکال سکتا تھا لیکن اس کی ساری توجہ شام کے مطلوبہ سیٹ اپ کو لانے میں تھی، اب جبکہ مقصد پورا ہوچکا ہے تو اسرائیل کے خلاف بھی کچھ کرنا چاہئے۔ ترکیہ کے عوام طیب اردگان کی پالیسی کی زیادہ دیر حمایت نہیں کریں گے۔