سکینہ بہت ایمان دار عورت ہے، ضرورت مند تھی اس لئے میں نے رکھ لیا۔۔
عرشمہ طارق
’’بیٹا! دیکھو دروازے پہ کون ہے۔‘‘ اماں نے سلام پھیر کر اپنی بہو سے کہا۔
’’کوئی مانگنے والی ہے، کچھ دے دلا کر چلتا کریں، میرے سر میں درد ہو رہا ہے، میں لیٹنے جارہی ہوں۔‘‘ بہو نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! ایسے نہیں کہتے، بھوکے کو کھانا کھلانا تو ثواب کا کام ہے، تم رہنے دو میں دیکھ لیتی ہوں۔‘‘
’’ہاں بھئی آپ ہی دیکھیں۔‘‘ یہ کہہ کر بہو نے کمرے کی راہ لی۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اماں جی پوچھا۔
’’سکینہ نام ہے میرا۔‘‘ اس نے بچیوں کے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے بتایا۔
’’سکینہ! تم کوئی کام کیوں نہیں کرتیں؟ اس طرح بچیوں کو ساتھ لے کر گھر گھر جاکر ہاتھ پھیلاتی ہو، اُن پر کیا اثر پڑے گا۔‘‘
’’اماں جی! کوئی کام ہی نہیں ملتا اور میں پڑھی لکھی بھی نہیں ہوں۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں مایوسی تھی۔
’’ارے بھئی تم صحت مند ہو، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں، اللہ کا شکر ادا کرو۔ مجھے صفائی اور کپڑوں کی دھلائی کے لئے ایک کام والی کی ضرورت ہے، میری بہو کی طبیعت بھی آج کل ٹھیک نہیں ہے، تم چاہو تو کل سے آجانا۔‘‘
’’ہاں ہاں اماں جی! کیوں نہیں میں تو خود کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’اماں! یہ آپ نے کسے کام پر رکھ لیا۔‘‘ شام کو بیٹا گھر آیا تو ماں سے استفسار کیا۔
بہو بیگم بھی ساتھ تھیں یقیناً انہوں نے ہی میاں کو بتایا ہوگا۔
’’آج کل کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، پتا نہیں کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے۔‘‘ بیٹے نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’بیٹا! تم فکر نہ کرو، میں نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہے۔‘‘ ماں نے بیٹے کو تسلی دی۔
’’اماں جی! یہ پیسے صاحب کی جیب سے نکلے ہیں کپڑے دھوتے وقت۔‘‘ سکینہ نے اماں کو پیسے دیتے ہوئے کہا۔
ایک دن جھاڑو لگاتے ہوئے اسے سونے کی بالی ملی ’’اماں جی یہ آپ کے بیڈ کے نیچے سے ملی ہے۔‘‘
’’ارے ہاں! یہ میری ہے کل گر گئی تھی مجھے مل نہیں رہی تھی، شکریہ سکینہ۔‘‘
یہ کہہ کر اماں نے اسے انعام کے طور پر کچھ رقم دے کر کہا ’’اپنے اور بچیوں کے لئے کپڑے خرید لینا۔‘‘
’’سکینہ! تم نماز اور قرآن پڑھتی ہو؟‘‘ اماں جی نے تلاوت کے بعد قرآن پاک کو جزدان میں رکھتے ہوئے پوچھا۔’’
’’اماں جی! قرآن پاک تو میں نے بچپن میں ایک ملانی جی سے پڑھنا شروع کیا تھا، پھر اماں کے انتقال کے بعد گھر کی ساری ذمے داری میرے اوپر آگئی تو جی آگے پڑھ ہی نہ سکی۔ ہاں نماز پڑھتی ہوں لیکن اس میں بھی بہت ساری چیزیں مجھے نہیں آتیں۔‘‘سکینہ نے شرمندگی سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں، میں تمہیں قرآن پاک پڑھاؤں گی اور نماز کا صحیح طریقہ بھی سکھاؤں گی، اس اجر بھی بے حساب ہے۔‘‘ اماں جی نے اس کی شرمندگی دور کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
شام کو اماں جی نے اپنے بیٹے سے کہا ’’بیٹا! تم بلاوجہ پریشان ہو رہے تھے، سکینہ بہت ایمان دار عورت ہے، ضرورت مند تھی اس لئے میں نے رکھ لیا۔ بہو کو بھی کام میں سہولت ہوگئی۔ میں نے کئی مرتبہ اس کو آزمایا ہے اس نے کبھی بے ایمانی نہیں کی۔ جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح سب انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے، مجھے اس میں سچائی نظر آئی تھی اس لئے میں نے اللہ پر بھروسہ کرکے اسے کام پر رکھ لیا ورنہ وہ بے چاری نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی رہتی اور بیٹا کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔‘‘