Thursday, June 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کبھی نہ ڈوبنے والا شمس۔۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

انہوں نے مراقبہ کو بطور سائنسی طریقہ کار متعارف کرایا اور اس کے جسمانی اور ذہنی فوائد پر تحقیقات کو فروغ دیا

ڈاکٹر تہمینہ عمیر

اللہ کے دوست حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے تصوف اور روحانی علوم کو سائنسی انداز میں پیش کرکے جدید دُنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا، وہ ایک جید صوفی، محقق، مصنف، معلم اور روحانی معالج تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی روحانی علوم کو عام کرنے اور لوگوں کو ان کے باطنی اسرار سے روشناس کرانے میں گزار دی۔ انہوں نے نہ صرف روحانی علوم کو جدید سائنسی اصولوں کے ساتھ جوڑا بلکہ انہیں عام فہم اور سادہ زبان میں پیش کیا تاکہ ہر عام و خاص ان سے استفادہ کرسکے۔ ان کی پیدائش 17 اکتوبر 1927ء کو قصبہ انبیٹھہ پیرزادگان، ضلع سہارنپور، ہندوستان (موجودہ بھارت) میں ایک علمی و روحانی گھرانے میں ہوئی۔ ان کے اجداد کا تعلق اسلامی علوم اور تصوف سے تھا، جس کی بدولت انہیں ابتدائی عمر میں ہی روحانی علوم سے دلچسپی پیدا ہوئی، ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، جہاں انہوں نے قرآن مجید، حدیث، فقہ، اُردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ 12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا، جو ان کے علمی ذوق کی علامت تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے، جہاں زندگی کے کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں ہمدرد دواخانہ میں خدمات انجام دیں اور بعد میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ 1950ء میں انہوں نے ’’آفتابِ نبوت‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا، جس میں ’’روحانی ڈاک‘‘ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کرتے تھے، جہاں لوگوں کے نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل کے لئے رہنمائی فراہم کی جاتی تھی۔ یہی کالم بعد میں ان کی روحانی تعلیمات کا ایک مستند ذریعہ بنا۔ ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا، جب وہ قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قلندر بابا اولیاء، جو سلسلۂ عظیمیہ کے بانی اور روحانی علوم کے ماہر تھے، نے انہیں اپنی روحانی تربیت میں لے لیا۔ اگلے 16 سالوں تک خواجہ شمس الدین عظیمی ان کی صحبت میں رہے اور روحانی علوم کی باریکیوں کو سیکھتے رہے۔ انہوں نے پیراسائیکالوجی، تصوف، مراقبہ، روحانی علاج اور ماورائی علوم میں مہارت حاصل کی اور اپنے مرشد کی نگرانی میں کئی روحانی تجربات کئے۔ 1979ء میں قلندر بابا اولیاء کے وصال کے بعد انہیں سلسلۂ عظیمیہ کی سربراہی سونپی گئی۔ انہوں نے اس روحانی سلسلے کو جدید تقاضون کے مطابق منظم کیا اور اسے دُنیا بھر میں متعارف کرایا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ روحانی علوم اور سائنسی علوم میں تضاد نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ انہوں نے مراقبہ کو بطور سائنسی طریقہ کار متعارف کرایا اور اس کے جسمانی اور ذہنی فوائد پر تحقیقات کو فروغ دیا۔ ان کی تعلیمات کے مطابق مراقبہ ایک ایسا طریقہ ہے جو ذہن کو سکون بخشتا ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو اپنے باطن سے جوڑنے میں مدد دیتا ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ممالک میں انہوں نے مراقبہ ہالز قائم کئے جہاں لوگوں کو ذہنی سکون، خودشناسی اور روحانی ترقی کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 72 سے زائد مراقبہ ہالز، یورپ میں 26، امریکا میں 4 اور مشرق وسطیٰ، روس، چین اور دیگر ممالک میں بھی کئی روحانی مراکز ان کے نظریات کی روشنی میں کام کررہے ہیں۔ انہوں نے 70 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جو تصوف، روحانی علوم، پیراسائیکالوجی، کلرتھراپی اور ماورائی علوم جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کی تحریریں عام فہم زبان میں ہوتی تھیں تاکہ عام لوگ بھی ان سے استفادہ کرسکیں۔ ان کی کچھ کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر بن الاقوامی سطح پر بھی مقبول ہوئیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’احسان و تصوف‘‘، ’’روحانی علاج‘‘، ’’رنگ اور روشنی سے علاج‘‘، ’’ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین‘‘، ’’مراقبہ‘‘ اور ’’قلندر شعور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کلرتھراپی (رنگوں کے ذریعے علاج) پر بھی تحقیق کی اور یہ ثابت کیا کہ مختلف رنگ انسانی جسم اور ذہن پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’رنگ اور روشنی سے علاج‘‘ اسی موضوع پر ایک مستند حوالہ سمجھی جاتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ روشنی اور رنگوں کی توانائی کو استعمال کرکے بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں بھی ان کا کردار نمایاں تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ روحانیت کسی خاص مذہب یا عقیدے کی میراث نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ برطانیہ میں ہر سال ’’آڈمز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور عقائد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ تھا کہ اگر انسان اپنے اندر کی دُنیا کو سمجھ لے تو وہ بیرونی دُنیا میں بھی امن اور محبت کو فروغ دے سکتا ہے۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ان کی تصنیف ’’احسان و تصوف‘‘ ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل کی گئی۔ پاکستان کے مختلف اسکولوں میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کی ’’اسلامیات‘‘ کی نصابی کتابیں بھی انہوں نے تحریر کیں۔ کراچی میں ’’عظیمی پبلک ہائر سیکنڈری اسکول‘‘ کے قیام کا سہرا بھی انہیں جاتا ہے، جہاں کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ روحانی علاج کے سلسلے میں انہوں نے ہزاروں افراد کی بالمشافہ ملاقاتوں، خطوط اور ٹیلی فون کالز کے ذریعے رہنمائی کی اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کے طرزِفکر کو مثبت بنانا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ جب تک انسان مثبت طرزِفکر اختیار نہیں کرے گا، وہ نہ اپنی ذات میں سکون حاصل کرسکے گا اور نہ ہی دوسروں کے لئے نفع بخش ثابت ہوسکے گا۔ 21 فروری 2025ء کو وہ اس دُنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن ان کی تعلیمات آج بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے مراقبہ ہالز، تحقیقی کام اور روحانی پیغام آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی کتابیں آج بھی دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں اور ہزاروں افراد ان کے طریقہ کار کے مطابق اپنی روحانی اور ذہنی تربیت کر رہے ہیں۔ خواجہ شمس الدین عظیمی ایک ایسا سورج تھے جو کبھی غروب نہیں ہوتا، ایک ایسی روشنی تھے جو کبھی مدھم نہیں پڑتی۔ ان کا نام اور کام رہتی دُنیا تک لوگوں کے دلوں میں جلتے چراغ کی طرح روشن رہے گا۔

ہر رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدّعی کے واسطے دار و رسن کہاں

مطلقہ خبریں