Friday, June 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

یوم تکبیر۔۔ قومی تاریخ کا مضبوط باب۔۔

مئی28 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا

ملک قمر عزیز

پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں پانچ دھماکے کئے۔ جمعرات کا دن تھا اور سہ پہر 3 بج کر 40 منٹ پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان نے ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دُنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ چاغی میں ہونے والے دھماکوں کی قوت بھارت کے 43 کلو ٹن کے مقابلے میں 50 کلو ٹن تھی۔ بھارت نے 11 مئی 1998ء کو فشن (ایٹم بم) تھرمو نیوکلیئر (ہائیڈروجن) اور نیوکران بموں کے دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کیلئے خطرات پیدا کردیئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ جسے روکنے کیلئے پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کرکے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔ پاکستان کے اس اقدام کو امریکا اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی، یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ دوسری طرف بھارت کی معاندانہ سرگرمیوں کی صورتِ حال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کردی تھی، اس طرح پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا تھا، بھارتی وزیرداخلہ اور امورکشمیر کے انچارج ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے کیلئے آزادکشمیر میں داخل ہوجائے جبکہ بھارتی وزیردفاع جارج فرنینڈس نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ بھارتی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کردیا جائے گا۔ یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی تیاریاں تھیں، یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنے حق کا استعمال کیا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دے کر پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا، اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا، اس سلسلے میں عالمی شہرت یافتہ خبررساں رساں ’’اے ایف پی‘‘ نے دہلی سے ایک خبر جاری کی جس میں بھارتی دفاعی ماہرین کی طرف سے واجپائی حکومت کی طرف سے دھماکوں کو ایک جرأت مندانہ اقدام قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت عالمی دباؤ کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ بھارت کے تکبر اور غرور کا یہ عالم تھا کہ اس کے سائنسدانوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ کمپری ہینسو ٹیسٹ بین ٹریٹی (CTBT) بھارت کیلئے نہیں کمزور ممالک کیلئے ہے مگر خدا کو اس ارض وطن پر دشمنان اسلام کے عزائم کی کامیابی کسی صورت گوارا نہ تھی جس کے چپے چپے پر ابھی تک پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں رونما ہونے والے عالمی سطح کے حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنے کا جو خواب دیکھا تھا، بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے نے اسے مستحکم ارادے میں بدل کر رکھ دیا اور اس دن سے وہ پاکستان کو اس منزل تک پہنچانے کی راہ پر ڈالنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہوگئے۔ بھٹو نے 1966ء میں تجدید اسلحہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا لیا تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے، ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے۔ یہ بات قومی مفاد میں نہیں کہ ہمارے پاس بندوق تو موجود ہو لیکن کارتوس نہ ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء سے فرانس کی ایک فرم اور حکومت سے ری پراسیسنگ پلانٹ کے حصول کے بارے میں مذاکرات شروع کر رکھے تھے۔ مشہور عالمی جریدے ’’نیوزویک‘‘ نے اپنے 16 جون 1975ء کے شمارے میں امریکی کانگریس کے ارکان کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان فرانس سے ایٹمی مشینری خریدنے کا معاہدہ کرنے والا ہے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد ملک کے بعض سائنسدانوں کو بلا کر انہوں نے بھارتی سائنسدانوں کے آگے نکل جانے کا احساس دلایا۔ اس وقت ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ خود بھٹو تھے، اس کا چارج انہوں نے 31 دسمبر 1971ء کو خود سنبھالا تھا۔ فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خرید کے معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ 300 ملین ڈالر کے اس منصوبے کے لئے سرمائے کا حصول تھا۔ لیبیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق کی طرف سے بھرپور مالی تعاون کی پیشکش پر انہوں نے غلام اسحاق خان، آغا شاہی، عزیز احمد، اے جی این قاضی اور منیر احمد کو خصوصی مشن پر ان ممالک میں بھیجا۔ یہ 28 مئی 1998ء کا مبارک دن تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا، ان میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی (مرحوم) سرفہرست تھے اور یہ بات تاریخی شواہد کی بنیاد پرواشگاف الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ اگر مجید نظامی اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض بڑے بڑے حاشیہ نشین اور چاپلوس صحافیوں کی ایک کھیپ مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کردیتی مگر یہ مجید نظامی صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے اس حوالے سے ’’نوائے وقت‘‘ کی جاری کردہ استحکام پاکستان تحریک کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔ 21 مئی 1998ء کو وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی، اس ملاقات میں وزیراعظم اور قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے مابین بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، دوران گفتگو دھماکہ کرنے کی صورت میں تمام ممکنہ پابندیوں اور ان کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی بحث و تمحیص ہوئی، بعض دانشور مدیران جرائد نے دبے لفظوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی، ایسے ماحول میں واحد آواز ’’نوائے وقت‘‘ کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی، انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کروا دیںورنہ عوام آپ کا دھماکہ کردیں گے۔ جناب مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے، اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکا آپ کا دھماکہ کردے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں، گویا جناب مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کی طرف سے سر دربار حاکم وقت کو بلاخوف وخطر کھری کھری سنا کر قومی فرض ادا کیا تھا، اس کے بعد جناب مجید نظامی نے 22 مئی 1998ء میں اپنے اداریہ میں لکھا کہ پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دُنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کرکے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے۔ ’’نیوزویک‘‘ نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو اس کی صلاحیت مشکوک سمجھی جائے گی مگر دوسروں کا بھی یہی خیال نظر آتا ہے، ممکن ہے وہ یہ لکھ کر دھماکہ کروانا چاہتے ہوں۔ امریکی حکومت نے 27 مئی کی رات کو اسلام آباد میں متعین امریکی فیر سائمنز ساجونیئر کو وزیراعظم ہاؤس بھیجا جنہوں نے وزیراعظم نوازشریف کو صدر کلنٹن کا اہم پیغام اور بعض تجاویز پیش کیں جبکہ اسی روز سی این این کی واشنگٹن سے ٹیلی کاسٹ ہونے والی ایک خبر کو اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا، اس خبر کی سرخی یہ تھی کہ پاکستان نے دھماکہ کرنے کیلئے ایٹم بم زیرزمین پہنچا دیئے۔ دھماکہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، تیار کئے گئے بنکروں میں کنکریٹ ڈالی جارہی ہے۔28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں جب میاں نوازشریف نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی ومسرت سے جھوم اٹھا، عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے، امریکا نے وزیراعظم نوازشریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کیلئے اپنی کوششیں آخری وقت تک جاری رکھیں مگر وزیراعظم نوازشریف نے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی سے صاف انکار کردیا، دھماکے کرنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے ریڈیو اور ٹیلیویژن پر اپنی تاریخی تقریر کی اور انہوں نے بجاطور پر یہ بات کہی کہ ہم نے بھارت کا حساب بے باک کردیا، بزدل دشمن ایٹمی شب خون نہیں مار سکتا، دفاعی پابندیاں لگیں تو پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا، اقتصادی پابندیاں لگیں تو بھی سرخرو ہوں گے، ایٹمی دھماکے کے فوراً بعد وزیراعظم نوازشریف نے جناب مجید نظامی کو ٹیلی فون پر مبارکباد دی اور انہیں نشان پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ جناب مجید نظامی نے پوچھا کہ مجھے یہ اعزاز کیوں دیا جارہا ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اور ایٹمی دھماکہ کروانے پر آپ کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا جارہا ہے۔

مطلقہ خبریں