Tuesday, June 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

خواتین۔۔۔ ڈپریشن کا زیادہ شکار ہوتی ہیں

ڈپریشن ایک نسل سے دوسری نسل تک بھی منتقل ہوسکتا ہے۔۔ ڈپریشن مخالف ادویات یا بذریعہ گفتگو علاج کا انحصار مریض کی علالت کی شدت پر ہے۔۔ عام طورپر بذریعہ گفتگو علاج ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں استعمال ہوتا ہے

طاہرہ انعام

اس ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانوں کو دوسرے بڑے مسائل درپیش ہیں ان مسائل میں ایک بڑا مسئلہ ڈپریشن کا بھی ہے۔ اس میں وقتاً فوقتاً اُداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عموماً یہ علامات ایک سے دو ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ اُداسی کی کوئی ٹھوس وجہ بھی ہوسکتی ہے اور نہیں بھی۔ اس دورانیے میں اپنے عزیز واقارب سے رجوع کرسکتے ہیں جوکہ اکثر اوقات سودمند ثابت ہوتا ہے۔ اگر اْداسی کی علامات برقرار رہیں، روزمرہ کی زندگی متاثر ہونے لگے اور عام تدابیر سے آفاقہ نہ آئے تو ڈپریشن کہلاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ڈپریشن ایک عام بیماری ہے اور کسی بھی وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مسئلے کا شکار ہوسکتی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد حضرات اپنے اندرونی دباؤ کا اظہار سگریٹ پی کر، غصہ کر کے کر لیتے ہیں جبکہ خواتین کے فرائض مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں، دیگر کاموں کے علاوہ گھریلو امور بھی انجام دینا ہوتے ہیں، ان میں بچوں کے مسائل، کام کی زیادتی اور دیگر عوامل مل کر ڈپریشن میں اضافے کی بڑی وجہ بنتے ہیں جبکہ دیہاتی خواتین کے مقابلے میں شہری خواتین میں ڈپریشن کی اوسط شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔
ڈپریشن کی علامات
ڈپریشن کی شدت اور دورانیہ معمولی اْداسی سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ مثلاً اکثر اوقات میں اْداسی، دل برداشتہ ہونا یا تفریح میں کمی، فیصلے کرنے میں مشکلات، جسمانی تھکن، بے چینی اور چڑچڑاپن، بھوک میں کمی اور وزن کا گھٹنا (بعض افراد میں بھوک اور وزن کا اضافہ) نیند میں کمی اور پہلے سے جلد جاگنا، خوداعتمادی میں کمی، دن کے خاص پہر میں زیادہ علامات مگر یہ ضروری نہیں کہ ایک مریض میں یہ تمام علامات موجود ہوں، عموماً چار سے پانچ علامتیں ڈپریشن کی تشخیص کرتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم ڈپریشن کی نشاندہی نہیں کرسکتے جس سے روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو مصروف کرنے کی کاوش میں ڈپریشن سے ہماری جدوجہد جاری رہتی ہے۔ ان تدابیر سے ہم مزید پریشانی اور تھکن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ڈپریشن کی ظاہری علامات سر یا جسمانی درد اور نیند میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔
ہر فرد کا تجربہ دوسرے فرد سے مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً ناامیدی، قریبی شخص یا چیز کا کھو جانا، ناکامی، تنہائی اور خاص طور پر بڑھاپے کی تنہائی بھی ڈپریشن کی وجہ بنتی ہے۔ کچھ لوگوں میں ڈپریشن کا بظاہر کوئی سماجی سبب یا وجہ نہیں پائی جاتی مگر پھر بھی وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات موذی اور تکلیف دہ امراض ڈپریشن کا باعث بن سکتے ہیں، مثلاً سرطان، قلبی امراض اور دیگر بیماریاں وغیرہ ڈپریشن ایک نسل سے دوسری نسل تک بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر والد یا والدہ کو ڈپریشن لاحق ہے تو بچوں میں 8 گنا زیادہ خطرہ ہے، مقابل اس کے جس فرد کے خاندان میں ڈپریشن نہ ہو۔
15 میں سے ایک فرد کو ڈپریشن کے ساتھ انسومینیا (دیوانہ پن) ہوتا ہے، ماضی میں اس بیماری کو مینک ڈپریشن کہا جاتا تھا لیکن اب اس کا نام پولرآفکٹیوڈس آرڈر ہے۔ دیوانے پن میں مریض غیرمعمولی طور پر خوش اور پھرتیلے ہوتے ہیں اور وہ ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جو عام حالات میں نہیں کرتے۔ اس بیماری میں عورتوں اور مردوں کی شرح برابر ہے، یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ڈپریشن کسی کمزوری کی علامت نہیں یہ مضبوط انسان کو بھی نڈھال کرسکتا ہے۔
معمولی درجے کی ڈپریشن کا علاج بات چیت کے ذریعے ممکن ہے۔ مریض ماہر نفسیات سے رجوع کرسکتا ہے۔ اگر مریض کی پریشانی ازدواجی مشکلات کی وجہ ہے تو متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر مریض کے افسردگی کی وجہ اپنے عزیز کی موت ہے تو اس ضمن میں مریض ادارے سے بات کرسکتا ہے۔ اگر مریض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے احساسات رشتہ دار یا دوست کے ساتھ نہیں بانٹ سکتا تو ماہر نفسیاتی گفتگو مریض کا بوجھ ہلکا کرنے میں مددگار ہوگا۔ طریقہ علاج یا تدبیر کا تعین مریض کی علالت اور اس کی شدت پر منحصر ہے، بذریعہ گفتگو علاج کچھ عرصہ تک جاری رہتا ہے اور ایک ملاقات کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹے پر محیط ہوتا ہے مگرعلاج کی مدت معالج طے کرتا ہے جس کا انحصار مرض کی نوعیت پر ہوتا ہے، علاج بذریعہ گفتگو سے مریض کو یہ تسلی ملتی ہے کہ وہ تنہا نہیں اور اس کی بات سننے والا موجود ہے جوکہ صحیح سمت دکھاتا ہے۔
ڈپریشن کی ادویات کا استعمال شدید درجے کے ڈپریشن میں ہوتا ہے۔ اگرچہ دوائیاں خواب آور نہیں ہوتیں مگر مریض کو آرام پہنچاتی ہیں، مریض کے مزاج میں بہتری آتی ہے اور مریض کے روزمرہ کے کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکتے ہیں۔ ادویات کے استعمال کے شروع میں مریض کوئی بہتری محسوس نہیں کرے گا کیونکہ ان ادویات کے کام کرنے کا طریقہ دوسری ادویات سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرکے اس سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ ڈپریشن مخالف ادویات صرف اور صرف ڈاکٹر کے مشورے اور ہدایات پر ہی استعمال کرنی چاہئیں، خود سے کوئی دوا ہرگز استعمال نہ کریں، یہ آپ کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ تین سے چار ہفتوں میں ادویات کے باقاعدہ استعمال اور ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرنے سے مریض پر اچھے اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سے مکمل بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ علاج جاری رکھیں تاکہ مرض کی جانب لوٹنے کے امکانات کم سے کم رہ جائیں۔ دوسری تمام ادویات کی طرح ڈپریشن مخالف ادویات کے بھی مضر اثرات ہوتے ہیں مگر یہ اثرات بہت کم درجے کا ہوسکتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ختم بھی ہوسکتے ہیں۔
ڈپریشن مخالف ادویات یا بذریعہ گفتگو علاج کا انحصار مریض کی علالت کی شدت پر ہے، عام طور پر بذریعہ گفتگو علاج ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ادویات زیادہ شدت میں دی جا تی ہیں، جب دوا لینے سے مریض کی طبیعت سنبھلنے لگے تو بذریعہ گفتگو علاج مفید ہوتا ہے اور کسی قسم کے ذہنی خلفشار کو کم کرتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ درمیانے درجے کے ڈپریشن میں بذریعہ گفتگو علاج اور ڈپریشن مخالف ادویات میں کوئی فرق نہیں۔ اکثر ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ ڈپریشن مخالف ادویات انتہائی درجے کی بیماری میں زیادہ کارآمد ہیں۔
ڈپریشن میں مبتلا مریض کی بات سنیں اور سمجھیں، ہوسکتا ہے کہ ایک بات آپ کو کئی مرتبہ سننی پڑے، خود سے کوئی مشورہ نہ دیں جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے، بے شک جواب آپ کو کتنا ہی آسان کیوں نہ لگے۔ کئی دفعہ ڈپریشن کی وجہ کی نشاندہی آسان ہوتی ہے جس کا حل نکالنے میں آپ مریض کی مدد کرسکتے ہیں۔ مریض کے ساتھ وقت گزاریئے اور سہارا دیجئے، ان کو بات کرنے کا مشورہ دیں اور ان کاموں میں ان کی مدد کریں جو وہ آسانی سے انجام دے سکیں۔ ڈپریشن کے مریض کو یہ یقین نہیں آتا کہ وہ بھی ٹھیک ہوں گے۔ آپ کا کام ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور شاید اپنے الفاظ آپ کو کئی مرتبہ دہرانے بھی پڑیں۔ ڈپریشن کے شکار مریض کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اس کو کسی کام میں مصروف رکھنا چاہئے، اس کو لوگوں سے ملنا چاہئے اور لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کو مطمئن رکھنے کی کوشش کریں اور اس کو یہ سمجھائیں کہ وہ اکیلا ایسا شخص نہیں ہے جس کو یہ مسائل درپیش ہیں۔ اس طرح وہ پریشان کن حالات یا مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا، اس کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رکھے۔
مریض اپنے ہر عمل میں توازن قائم کریں، اپنے ذہن کو تروتازہ رکھنے کے لئے اچھی کتابیں پڑھیں، اچھی محفلوں میں بیٹھیں اور اپنے آپ کو کرب و پریشانی میں مبتلا نہ ہونے دیں، اپنے احساسات وجذبات کو زبردستی خود تک محدود نہ رکھیں، اگر آپ کو کوئی دکھ پریشانی ہے تو اس کا اظہار اپنے دوست احباب سے کریں، اس سے آپ کا دکھ درد بٹ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو کوئی مفید مشورہ بھی دیں۔ اگر آپ کا دل کام کرنے کو نہ کرے تو خود پر جبر نہ کریں بلکہ اپنے معمولات زندگی کو ترک کر کے سیروتفریح کریں، انسان کو چاہئے کہ زندگی میں ترتیب اور توازن پیدا کرے تاکہ ڈپریشن سے بچا رہے، ان سب باتوں پر عمل کرکے وہ صحت مند بھی رہے گا اور ڈپریشن میں کمی بھی آئے گی۔

مطلقہ خبریں