عثمان انصاری
پاک بحریہ کی کاوشیں وطن عزیز اور تمام علاقائی ممالک کی تجارت کے لئے سودمند ہیں
پاکستان نیوی کی کوششوں سے سمندری صورتحال پُرسکون ہے اور ہر قسم کی جہازرانی آزادانہ طریقے سے ہورہی ہے، سیکورٹی کے اعلیٰ معیار کی بدولت نہ صرف سمندر میں دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ ہوا ہے بلکہ دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے
پاک بحریہ بحر ہند کی ایک طاقتور اور تجربہ کار بحری قوت ہے جوکہ بحر ہند میں امن اور باہمی تعاون کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔ انفرادی سطح پر پاک بحریہ بحر ہند کے شمال میں بحیرہ عرب میں امن و استحکام کی سب سے بڑی ضامن ہے۔ بحیرہ عرب کو اس وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ یہ سمندر خلیجی اور عالمی ممالک کے درمیان توانائی اور تجارت کا اہم راستہ ہے۔ علاقائی امن و استحکام کو یقینی بنانے میں پاک بحریہ کی کاوشوں میں اہم ترین چیز دیگر بحری افواج کے ساتھ مشترکہ تعاون ہے، اس سلسلے میں پاک بحریہ کثیرالملکی ٹاسک فورس سی ٹی ایف-150 اور سی ٹی ایف-151 کی اہم رکن ہے، ان دونوں ٹاسک فورسز کا مقصد بحیرہ عرب میں میری ٹائم سیکورٹی، دہشت گردی اور بحری قزاقی کی روک تھام کرنا ہے۔ یہ ٹاسک فورسز اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان میں 30 مختلف ممالک شامل ہیں جو اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دے رہے ہیں۔ پاک بحریہ کی ان ٹاسک فورسز میں شمولیت خطے میں امن کے استحکام میں ایک اہم ترین کاوش ہے اور پاک بحریہ ان سرگرمیوں میں مسلسل اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک بحریہ علاقائی امن و استحکام کو کس قدر اہم تصور کرتی ہے، انہی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ایما پر پاک بحریہ کو ان ٹاسک فورسز کی کمانڈ کا تجربہ متعدد بار حاصل ہوا ہے جوکہ پاک بحریہ کی خطے کے لئے خدمات کا ثبوت ہے، اگرچہ یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہے تاہم پاکستان نیوی کے کردار اور مشترکہ کوششوں کی وجہ سے سمندروں میں صورتِ حال پُرسکون ہے اور ہر قسم کی جہاز رانی آزادانہ طریقے سے ہورہی ہے لہٰذا یہاں یہ مناسب ہوگا کہ اس پورے منظرنامے میں پاکستان نیوی کی کاوشوں پر روشنی ڈالی جائے۔
ستمبر 2001ء میں افغانستان جنگ کے دوران بحیرہ عرب میں بھاری بحری قوت صف بستہ نظر آئی تاکہ اس آپریشن میں مدد فراہم کی جاسکے، تاہم ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ کسی بھی دہشت گرد کو فرار ہونے اور سمندری راستے سے ممکنہ طور پر خلیجی ممالک یا اس کے اطراف میں پہنچنے سے روکا جاسکے۔ اکتوبر 2002ء میں فرانسیسی رجسٹرڈ آئل سپر ٹینکر ٹمبرگ پر ہونے والے حملے نے (ٹمبرگ یمنی پورٹ آف عدن میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا) علاقائی جہاز رانی کو درپیش خطرات اور اس طرح عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کو پوری طرح آشکار کردیا جوکہ اس حملے کا اصل مقصد بھی تھا، اگر بحری گزرگاہوں اور بندرگاہوں کو محفوظ نہیں بنایا گیا اور سمندروں میں بحری جہازوں کا تحفظ یقینی نہیں بنایا گیا تو عالمی معیشت کو اس کا شدید نقصان پہنچے گا۔ اس طرح بحیرہ عرب اور اس کے اطراف کے پانیوں کو خصوصاً خطرے کی زد میں تصور کیا جاتا تھا کیونکہ خلیجی ممالک کو جانے والے توانائی اور تجارتی راستے یہیں سے نکلتے ہیں، اس لئے پورے خطے کو محفوظ بنایا جانا ضروری تھا تاہم یہ کسی بھی طرح کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس خطے کی وسعت کے باعث کوئی بھی نیوی تن تنہا اس کی نگرانی اور حفاظت کرنے کی اہل نہیں تھی۔ دراصل امریکی نیول ٹاسک فورس کے طور پر وجود میں آیا لیکن 2002ء میں یہ ایک کثیرالقومی بحری قوت میں تبدیل ہوگیا جو بنیادی طور پر امریکی، نیٹو کے چند یورپی اتحادیوں اور جاپان پر مشتمل تھی۔ پاکستان نیوی نے 2004ء میں سی ٹی ایف-150 میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت سے اس کا ایک اہم ترین رکن ہے، پاک بحریہ ایک وسیع علاقے کی نگرانی کی ذمہ دار ہے جہاں سے جہاز رانی کے مصروف ترین راستے گزرتے ہیں (دنیا کے ایک تہائی خام تیل کی ترسیل انہی راستوں سے ہوتی ہے)۔ یہ علاقہ 2 ملین مربع میل سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں خلیج عمان، خلیج عدن، بحیرہ احمر اور شمالی بحیرہ عرب شامل ہیں۔ اس خطے سے مکمل واقفیت کے سبب پاکستان نیوی سی ٹی ایف-150 کا اہم ترین حصہ ہے۔ سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل محمد ذکاء اللہ کے گزشتہ دورہ بحرین کے دوران امریکی نیول فورسز سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر نے اس حقیقت کا واضح الفاظ میں اعتراف کیا۔ باہمی دلچسپی کے امور بشمول دوطرفہ بحری اشتراک اور بحر ہند میں سیکورٹی کے معاملے سمیت مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے امریکی کمانڈر نے پاکستان نیوی کے افسرون اور جوانوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا اور علاقائی سیکورٹی اور استحکام کے قیام میں پاک بحریہ کے کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے اس ضمن میں بیشتر کامیابی کو خطے میں پاک بحریہ کی مسلسل موجودگی سے منسوب کیا جس نے خطے میں آزادانہ جہاز رانی کے لئے محفوظ ماحول برقرار رکھا۔ سیکورٹی کے اعلیٰ معیار کی بدولت نہ صرف سمندر میں دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ ہوا بلکہ دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
صومالی بحری قزاقوں کی جانب سے پہلے پہل ہورن آف افریقہ کے اطراف اور بعدازاں بحرہند میں حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں ایسے واقعات سے نمٹنے کا مطالبہ سامنے آیا جس کے نتیجے میں 2009ء میں ایک خصوصی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں آیا۔ پاک بحریہ نے اپنے کارہائے نمایاں اور خطے کے امن و استحکام کے لئے پاکستان کی ناگزیر حیثیت کو تسلیم کرانے کے لئے ٹاسک فورس 151 میں فوری شمولیت اختیار کی اور ٹاسک فورس کی کمانڈ کرنے والی خطے کی اولین بحری قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور اس کے بعد بھی وہ کئی مواقع پر یہ اہم ذمہ داری ادا کرتی رہی ہے۔ پاک بحریہ نے دھیرے دھیرے بحری قزاقوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانا شروع کردیا جس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تجارتی راہداری جس کا گزر باب المندب سے خلیج عمان کی طرف ہوتا تھا، محفوظ ہوتا چلا گیا، اس ضمن میں پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان کو اقوام متحدہ کے کونٹیکٹ گروپ برائے بحری قزاقی میں باقاعدگی سے شرکت کی دعوت دی جاتی رہی ہے، اگرچہ دونوں کمبائنڈ میری ٹائم فورسز میں پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کی شرکت اکثر خبروں کی زینت بنی رہتی ہے مگر دونوں فورسز میں پاکستان کی شمولیت کا ایک اہم پہلو اس کے میری ٹائم پیٹرول کرافٹ کی تعیناتی ہے۔ یہ پاک بحریہ کے نسبتاً غیرمعروف اثاثے ہیں جو ایک ہی مشن کے دوران سمندر کے وسیع علاقے کی نگرانی کی اہلیت رکھتے ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے دوران فوری مدد کے لئے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں ایئرکرافٹ کمبائنڈ میری ٹائم فورسزکا اہم اثاثہ ہوتے ہیں جو صحیح صورتِ حال کا پتہ لگاتے ہیں، مدد کی ضرورت پڑنے پر متاثرہ فریق سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور پھر بحرین میں قائم کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے ہیڈ کوارٹرز کو یہ تمام معلومات ارسال کرتے ہیں۔
سمندری نگرانی کے حوالے سے لانگ رینج پی تھری سی اورین پاک بحریہ کا اثاثہ ہیں۔ پی تھری سی یا اس کی دوسری اقسام جو کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے دیگر پارٹنرز تعینات کرتے ہیں، سے مطابقت کے سبب پاکستانی اورین فلیٹ ایک فطری انتخاب ہے۔ کمبائنڈ میری ٹائم فورسز 150 اور 151 کے آپریشنز میں حصہ لینے سے مقامی بحری افواج کی استعداد تربیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے علاقائی بحری افواج کے ساتھ شراکت داری مزید مضبوط ہوئی ہے، اس نقطہ نظر سے پاک بحریہ ایک تجربہ کار بحری قوت گردانی جاتی ہے کیونکہ پاک بحریہ خلیجی ممالک کی کئی بحری افواج کو تربیت دے چکی ہے اور اس کے تربیتی اداروں میں علاقائی بحری افواج کے کئی آفیسرز آج بھی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دیگر بحری افواج کے ساتھ پیشہ ورانہ تجربات کے تبدلے اور مشترکہ آپریشنز کی انجام دہی کے ذریعے پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن کئی علاقائی بحری افواج انفرادی طور پر بحری قزاقی اور سمندری دہشت گردی جیسے جڑواں خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اس سلسلے میں پاک بحریہ کا میری ٹائم مزاحمتی آپریشنز کی انجام دہی کے لئے اسمال بوٹ انٹرڈکشن ڈرلز، سمندر میں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز، ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انجام پانے والے آپریشنز اور بحری جنگی جہازوں کی مہارتوں جیسی صلاحیتوں پر عبور اہم ہے۔ مزید برآں زیادہ سے زیادہ باہمی رابطے حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے اور علاقائی افواج کے ساتھ اشتراک کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، جس کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں اور پاک بحریہ اس سے بھرپور مستفید ہوئی ہے۔ مختصراً یہ کہ پاک بحریہ کی خطے میں مسلسل موجودگی نے اسے سب کے لئے محفوظ بنا دیا ہے، اگرچہ پاکستان کی 90 فیصد تجارت سمندر کے راستے ہوتی ہے تاہم دیگر علاقائی ریاستیں خصوصاً خلیجی ممالک جو اپنی خوراک کا 80 فیصد بذریعہ سمندر حاصل کرتی ہیں بھی یقیناً اس بحری امن سے مستفید ہورہی ہیں۔ یہ صرف پاکستان کے ہی مفاد میں نہیں کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے عزم پر کاربند رہے بلکہ پاک بحریہ کی کاوشوں کی بدولت یہ سب پر واضح ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور بحری امن کو یقینی بنانے کے سلسلے میں عالمی سطح پر کی جانے والی مشترکہ کوششوں کا اہم حصہ ہے، اس تمام منظر نامے میں پاکستان کے کردار کے بغیر کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے مشن کی تکمیل ناممکن دکھائی دیتی ہے۔