Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغان اثاثے اور امریکی صدر کا فیصلہ

امریکا نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنے کی منظوری دیدی ہے، امریکا ان اثاثوں کو دو حصوں میں برابر تقسیم کرے گا، بائیڈن نے ان منجمد اثاثوں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں
ڈاکٹر رابعہ خان
امریکا نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکا ان اثاثوں کو دو حصوں میں برابر تقسیم کرے گا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے 11 فروری 2022ء کو ان منجمد اثاثوں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں۔ نیویارک کے فیڈرل ریزرو فنڈ میں افغانستان کے 7 ارب ڈالر موجود ہیں جنہیں جوبائیڈن انتظامیہ نے منجمد کر رکھا ہے۔ یہ اثاثے اس وقت منجمد کئے گئے تھے جب طالبان نے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ طالبان مسلسل مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے ملک کے منجمد اثاثے بحال کئے جائیں۔ صدر جوبائیڈن کے حالیہ فیصلے پر قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے ٹویٹ میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا ”چوری“ ہے اور ”انسانی اور اخلاقی انحطاط“ کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے موقف دیا ہے کہ غیرملکی بینکوں میں افغانستان کے زرمبادلہ کے منجمد ذخائر میں سے 3.5 ارب ڈالر افغان عوام اور 3.5 ارب ڈالر نائن الیون متاثرین کے خاندانوں کو دینے کا امریکی فیصلہ دیکھا ہے۔ پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ یہ اثاثے افغان قوم کی ملکیت ہیں اور امریکا پورے کے پورے اثاثے افغانستان کو واپس کرے۔ ترجمان کے بقول افغان فنڈز کے استعمال کا طریقہ کار افغانستان کا خودمختار فیصلہ ہونا چاہئے۔ پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل بین الاقوامی برادری پر زور دیتا آ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں رونما ہونے والے انسانی المیہ سے نمٹنے اور افغان معیشت کی بحالی میں مدد فراہم کرنے کے لئے فوری طور پر کارروائی کرے کیونکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو فوری طور پر غیرمنجمد کرنے سے افغان عوام کی انسانی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ ترجمان نے کہا کہ افغان عوام کو اس وقت شدید معاشی اور انسانی مسائل کا سامنا ہے اور عالمی برادری کو ان کے مصائب کے خاتمے کے لئے اپنا اہم اور تعمیری کردار جاری رکھنا چاہئے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ یہ منجمد اثاثے افغان ملکیت تھے اور ہیں، اس رقم کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق بھی صرف افغانوں کو ہے، ہم چاہتے ہیں افغانوں کی مدد کی جائے کیونکہ افغانستان کے لوگوں کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ کابل میں افغانستان کے شہریوں نے اثاثوں کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کے امریکی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کابل کی مرکزی عیدگاہ کے باہر اکٹھے ہوئے۔ مظاہرین نے امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے امریکا سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افغان شہریوں کی ہلاکت کا معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔ دوسری جانب امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے مالی مشیر تورک فرہادی نے کہا ہے کہ یہ اثاثے افغان عوام کے ہیں، طالبان کے نہیں، بائیڈن کا فیصلہ یکطرفہ ہے اور بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ادھر امریکا میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل ک گ لمین نے اپنی ٹویٹ میں امریکی فیصلے کو سنگدلی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان حکومت نے افغانستان میں 40 سالہ جنگ کے متاثرین کو امداد دینے کے منصوبے کی منظوری دی ہے، امارت اسلامی کے نائب ترجمان بلال کریمی کا کہنا تھا کہ امداد شہدا کے خاندانوں، معذور افراد اور یتیموں کے علاوہ سابق حکومت اور سیکورٹی فورسز کے جنگ سے متاثرہ افراد کو بھی ملے گی، افغانستان کے نائب وزیراطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق اقوام متحدہ کے لئے کام کرنے والے 2 غیرملکی صحافیوں کو رہا کردیا گیا ہے، صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والے دیگر افغان شہری بھی رہا کردیئے ہیں، صحافیوں کو شناختی کارڈ اور اجازت نامے نہ ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اگست کے مہینے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کئی ملکوں اور عالمی اداروں نے افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کردیا تھا۔ ان منجمد اثاثوں کی مجموعی مالیات دس ارب ڈالر بنتی ہے اور ان میں سے سات ارب ڈالر صرف امریکی شہر نیویارک میں موجود ہیں۔ طالبان نے بارہا امریکا اور غیرملکی حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فنڈ جلد از جلد جاری کئے جائیں تاکہ وہ افغانستان کی بدحالی معیشت کو سہارا دے سکیں اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔ طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا ”مسائل“ کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لئے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کی حکومت بھی ان خدشات کا اظہار کرتی رہتی ہے کہ اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے، جس کا براہ راست پاکستان پر اثر پڑے گا، افغانستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوجائے گی اور نقل مکانی کرنے والوں کا رُخ پاکستان کی طرف ہوگا، پاکستان پہلے ہی افغان مہاجرین کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، پاکستانی معیشت اور معاشرت مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ 2022ء کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں امریکا سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ یہ اثاثے جاری کئے جائیں اور طالبان سے ماورا عالمی امدادی اداروں کے ذریعے یہ رقم افغان عوام تک پہنچائی جائے۔ لیکن امریکا اور دیگر ملکوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن کے حالیہ فیصلے کے بعد تو ان فنڈز کی بحالی اور افغانستان کو منتقلی کی اُمید تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ افغانستان کے جو اثاثے امریکا میں منجمد کئے گئے ہیں ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ رقوم ہیں جو گزشتہ 20 برس کے دوران میں عالمی سطح پر افغانستان کے عوام کی مدد کے لئے عطیات کی صورت میں دی گئی تھیں۔ امریکا میں 7 ارب ڈالر منجمد ہوئے ہیں جب کہ یورپ اور یو اے ای میں 2 ارب ڈالر منجمد ہیں۔
افغانستان گزشتہ چالیس برس سے طاقتور ملکوں کی باہمی آویزش اور مفادات کی جنگ کا میدان جبکہ اس ملک کے عوام اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے عوام پر ان کے بالائی اور طاقتور طبقات نے بھی مظالم ڈھائے جب کہ غیرملکی طاقتور ملکوں نے بھی مظالم ڈھانے کی نئی تاریخ رقم کردی۔ پہلے کمیونزم اور کیپٹل ازم کی لڑائی میں افغانستان اور اس کے عوام تباہ کئے گئے۔ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہاں آگ و خون کھیلا گیا۔ اب طالبان ایک بار پھر اقتدار میں ہیں۔ پاکستان اپنی بساط اور طاقت کے مطابق افغانستان کی مدد اور سفارتی حمایت کررہا ہے۔ لیکن اقوام اور ملکوں کی عالمی برادری میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی بھی حکمت عملی اور اصول ہوتے ہیں۔ عالمی برادری سے کٹا ہوا کوئی ملک اور اس کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ بلاشبہ افغانستان کے معاملے میں امریکا اور یورپ کی پالیسی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ظلم پر مبنی ہے لیکن افغانستان کے حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی پر بھی نظرثانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ ان کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی اولین ذمے داری ہے۔ اپنے مسائل، مشکلات، کوتاہیوں، کم فہمیوں اور ناکامیوں کا ذمے دار دوسروں کو قرار دینا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ اپنے آپ کو ٹھیک نہ کرنا اور دوسروں کو کہنا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں، ریاستیں اور حکومت اس پالیسی سے نہیں چلتیں۔ طالبان اقتدار میں ہیں تو انہیں اپنے عوام کا ہر حال میں بوجھ اٹھانا ہے، اقتدار حقوق و فرائض سے مشروط ہوتا ہے، حکمران پر بھی فرائض عائد ہوتے ہیں، ان فرائض میں عوام کے جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ، روزگار اور کاروبار کی آزادی، نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات اور امتیاز سے پاک آئین اور قانون، یہ ایسے فرائض ہیں جنہیں ادا کرنے کے لئے غیرملکی امداد کی ضرورت نہیں ہے، یہ لکھنے اور عمل کرنے کے فرائض ہیں۔ افغانستان کے حکمرانوں کو اس حوالے سے کام کرنا چاہئے، جب افغانستان کے عوام سکھ کا سانس لیں گے تو پوری دُنیا کو پتہ چل جائے گا اور افغانستان پر دولت اور سرمایہ کی بارش برسنا شروع ہوجائے گی۔

مطلقہ خبریں