Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

مسعود اختر۔۔ بھلائے نہ جا سکیں گے

محمد ارشد لئیق
نامور اداکار مسعود اختر اپنی زندگی کا حقیقی رول ادا کرنے کے بعد 5 مارچ 2022ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ شائقین کے لئے یہ خبر یقینی طور پر باعث رنج و افسوس تھی۔ وہ ایک ورسٹائل اداکار تھے اور زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے۔ مسعود اختر کا مکالموں کی ادائیگی اور اداکاری کا ایک خاص اسلوب تھا۔ مسعود اختر نے 1960ء کی دہائی میں فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا اور جلد ہی اسٹیج کے مشہور اداکاروں میں شمار ہونے لگے۔ ان کے فن کو نکھارنے میں نذیر ضیغم نے بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ فلم کے ساتھ ٹیلی ویژن کے درجنوں ڈراموں میں بھی کام کیا، حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005ء کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ چند ماہ قبل ان کے بیٹے کا بھی انتقال ہوگیا تھا اور یہ صدمہ ان کے لئے کسی ناگہانی سے کم نہیں تھا۔
آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں تو ان کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں۔ (یہ باتیں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتائیں)
”میں نے اپنے اسکول سینٹر ماڈل لوئر مال کے اسٹیج ڈرامہ ”رات کے بعد“ میں شہزادہ سلیم کا کردار ادا کرکے اپنی زندگی کی پہلی پرفارمنس پیش کی۔ اس کے مصنف مرزا مقبول بیگ بدخشانی تھے جبکہ ہدایات عشر رحمانی نے دی تھی۔ ڈرامہ مغلیہ دور کے اصلاحی پلاٹ پر مبنی تھا۔ اس میں ڈاکٹر انور سجاد، نذیر حسینی، حامد رضا، جمشید اقبال اور مشاہد حسین شریک تھے۔ اس ڈرامے نے میری فنکارانہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا اور ایک اعتماد عطا کیا۔ اسکول کے بعد کسی ہال میں پہلا کمرشل ڈرامہ وائی ایم سی اے ہال میں ”ڈرامہ 16 سال بعد“ پیش کیا تھا۔ جس میں میں نے ایئرفورس کے پائلٹ کا کردار ادا کیا۔ اس کے ہدایت کار آیزک سمسن تھے۔ اسٹیج ڈراموں کے ساتھ ساتھ قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ جسٹس جاوید اقبال ہمیں پڑھاتے تھے۔ لا کالج کے پرنسپل سردار اقبال موکل تھے۔ اس دور میں لا کالج پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس شاہراہ قائداعظم کے عقب میں اورینٹل کالج کے ساتھ ہی واقع تھا۔ ان دنوں الحمرا آرٹس کونسل کا بہت شہرہ تھا جس کا نام پاکستان آرٹس کونسل تھا۔ یہ کونسل حکومت پنجاب کی سرپرستی میں 1948ء میں وجود پذیر ہوئی۔ اس کے پہلے چیئرمین جسٹس ایس اے رحمان اور سیکریٹری امتیاز علی تاج تھے۔ یہاں پہلی مصوری کی نمائش عبدالرحمن چغتائی نے کی جس کا افتتاح 10 دسمبر 1949ء کو اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے کیا۔ پہلے اس کی سرگرمیاں مصوری کی نمائشوں تک محدود ہیں۔ کچھ عرصہ بعد امتیاز علی تاج، اظہار کاظمی، رفیع پیرزادہ، نعیم طاہر، صفدر میر اور مہر نگار سرور نے ڈراموں کا آغاز کردیا۔ اس کے ساتھ ہی آرٹس کونسل کی بلڈنگ میں گراؤنڈ فلور ہال کو ایک منی تھیڑ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس میں کم و بیش 135 سے ڈیڑھ سو تک کرسیاں قطار اندر قطار لگا دی گئیں۔ اسٹیج اور پردوں کا اہتمام کیا گیا اور اسٹیج ڈراموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔“
مسعود اختر اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے تھے: ”ہم سب فنکار آپس میں ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے۔ سب چار چار آنے ڈال کر پیسے جمع کرتے اور تمام ڈرامہ ٹیم کے لئے کھانا منگواتے تھے اور ہر روز ایک فنکار بازار جا کر کھانا خرید کر لاتا۔ اس سلسلے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ ہم سب فنکار صبح 11 بجے آرٹس کونسل آ جاتے اور ڈرامے کا شو ختم ہونے کے بعد گھروں کو جاتے۔ اگر ڈرامہ نہ بھی ہوتا پھر بھی الحمرا آرٹس کونسل بروقت پہنچ جاتے۔ ایک عرصہ تک پیدل ہی سفر کرتے رہے۔ میری رہائش اسلامیہ پارک مزنگ میں تھی جبکہ اداکار نذیر حسینی کی رہائش اچھرہ میں تھی۔ میں گھر سے لا کالج اور پھر کالج سے آرٹس کونسل پیدل جاتا تھا۔ ڈرامہ کے اختتام پر رات واپسی پر میں اور نذیر حسینی مرحوم باتیں کرتے ہوئے مزنگ چونگی تک پیدل آتے پھر ہمارے راستے جدا ہو جاتے لیکن دونوں اپنے گھروں کو پیدل ہی جاتے۔“
وہ کہا کرتے تھے: ”ایک مرتبہ ایک فنکار معروف ہدایت کار شباب کیرانوی کو آرٹس کونسل میں اپنا ڈرامہ دکھانے کے لئے لانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس ڈرامے میں میرا کردار بھی بڑا پاور فل تھا۔ انہوں نے پورا ڈرامہ دیکھا اور جو فنکار انہیں لایا تھا اسے کاسٹ کرنے کی بجائے مجھے اپنی فلم ”سنگدل“ میں کام کرنے کی آفر کردی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے بینک میں نوکری کر لی ہے۔ میرے لئے وہاں سے چھٹی لینا مشکل ہے یہ سن کر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں اپنی آئندہ آنے والی تین فلموں میں کاسٹ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جتنی تنخواہ بینک سے لیتے ہو اس سے کہیں زیادہ معاوضہ ملے گا۔ میں نے کہا کہ تین فلموں کے بعد میں کیا کروں گا۔ انہوں نے پورے یقین سے کہا کہ اس دوران تمہیں کئی اور فلموں میں کام مل جائے گا اور اگر نہ ملا تو جب تک میں تمہیں اتنا ہی معاوضہ دیتا رہوں گا۔ معلوم نہیں شہاب صاحب کو مجھ میں کیا نظر آیا۔ یہ بہت بڑی آفر تھی میں نے فوراً قبول کرلی۔ یہ مغربی پاکستان میں ندیم کی پہلی فلم تھی۔ ان کے ساتھ دیبا ہیروئن تھیں جبکہ سیکنڈ ہیروئن میں صاعقہ میری ہیروئین تھیں۔ رنگیلا نے بہترین مزاحیہ کردار ادا کیا تھا۔ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔
مسعود اختر کی شادی کا قصہ بھی بہت زبردست تھا۔ اس بارے میں وہ بتاتے تھے: ”پھر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا، میں فلم ”سنگدل“ کی مری میں شوٹنگ کررہا تھا۔ شیڈول کے مطابق دو دن بعد شباب اسٹوڈیو لاہور میں دوسری شفٹ کی شوٹنگ تھی۔ اس دوران ہم مری کی شوٹنگ ختم کرکے لاہور آنے کے لئے چل نکلے۔ دوران سفر میں نے ہدایت کار شباب کیرانوی اور ان کے بیٹے نذر شباب کو کھانے کی دعوت دی کہ وہ میرے ساتھ میرے آبائی گھر گوجرانوالہ چلیں۔ میرے بے حد اصرار پر دونوں مان گئے کیونکہ شوٹنگ تیسرے دن تھی۔ ہم گوجرانوالہ پہنچے، کھانا کھایا تو والد صاحب نے مجھے روک لیا۔ رات کو معلوم ہوا کہ کل میری شادی ہو رہی ہے۔ والد صاحب نے مجھے دولہا بننے کا حکم دے دیا۔ وہ بڑی جلالی طبیعت کے بزرگ تھے۔ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم انکار کرتے۔ ویسے بھی اگلے دن آرام کا دن تھا۔ شوٹنگ ہمارے ولیمہ والے روز تھی۔ میں نے لاہور میں اپنی شوٹنگ کا ذکر نہیں کیا، خاموشی سے دلہا بنا دلہن بیاہ کر گھر آ گئے۔ دوسرے دن صبح تڑکے اٹھا اور خاموشی سے کسی کو اطلاع دیئے بغیر شباب اسٹوڈیو لاہور پہنچ گیا اور یہاں بھی کسی سے ذکر نہیں کیا کہ کل میری شادی تھی اور آج ولیمہ۔ بڑے اطمینان سے فلم کی شوٹنگ کرتا رہا بعد میں معلوم ہوا کہ دوسری طرف مجھے غائب پا کر تمام خاندان اور سسرال والے پریشان ہوگئے کہ دلہا کہاں گیا۔ کچھ لوگ والد صاحب کی جلالی طبیعت کو الزام دینے لگے کہ لڑکے کی مرضی کے خلاف زبردستی شادی کا یہ انجام ہوا ہے۔ کچھ کہنے لگے دولہا کو دلہن پسند نہیں آئی اس لئے وہ ولیمہ والے دن فرار ہوگیا ہے۔ والدین اور بہن بھائی میرے سسرال والوں کو مختلف تاویلیں دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دلہن الگ پریشان یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ میرا دولہا کہاں غائب اور کیوں فرار ہوگیا ہے، اس کا پریشانی سے بُرا حال تھا، وہ اپنے والدین بہن بھائیوں اور سہیلیوں کو کیا جواب دے۔ میں رات کو گھر پہنچا تو سب کی جان میں جان آئی۔ طرح طرح کے سوالات ہونے لگے۔ میں نے اطمینان سے جواب دیا میرے کیریئر کی پہلی فلم ہے۔ اس کے بعد اس ادارے کی دو فلمیں اور ہیں اس لئے ہمارا جانا ضروری تھا اگر آپ لوگوں کو بتا دیتا تو مجھے کسی نے جانے نہیں دینا تھا۔ لیکن والد صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ انہوں نے ولیمے کی رات ہی میری دل کھول کر پٹائی کی تو ماں بہن بھائی اور دیگر عزیز و اقارب آڑے آ گئے۔ والد صاحب مجھے گھر سے نکالنے کا رسک بھی نہیں لے سکتے تھے۔ یہ شادی اور ولیمہ بھی ناقابل فراموش واقعہ بن گیا۔“
مسعود اختر ایک دفعہ فلم میں اپنے کردار کی وجہ سے جان سے بھی جانے لگے تھے۔ ایک پٹھان نوجوان نے ان پر حملہ کردیا تھا: ”کالام میں ایک فلم کی شوٹنگ کررہا تھا کہ وہاں دو گاڑیوں پر کچھ نوجوان آئے اور انہوں نے فنکاروں کے ساتھ تصاویر بنوانے اور آٹو گراف لینے کی خواہش کی جسے فنکاروں نے خوش دلی کے ساتھ پورا کردیا۔ اس عمل کے دوران ایک نوجوان مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چائے کا وقفہ تھا، اس دوران وہ نوجوان میری میز کے سامنے کرسی پر پڑے جارحانہ انداز میں براجمان ہوگیا۔ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا پھر اچانک کاربین نکال لی اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا، اس سے میں عموماً شکار کرتا ہوں۔ پھر وہ ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ لاتے ہوئے اور کاربین کا رخ میرے چہرے کی طرف کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں کبھی کبھی بندے کا شکار بھی کر لیتا ہوں۔ یہ سن کر میرے لئے چائے پینا دشوار ہوگئی۔ میں حیران و پریشان تھا کہ یہ نوجوان کون ہے، اسے مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ میں نے نہایت نرم لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب آخر میرا قصور کیا ہے۔ میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ مجھے جان سے مارنے پر تل گئے ہیں۔ اس نے دانت چباتے ہوئے کہا کہ ہم صرف دھمکیاں نہیں دیتے گولی بھی مار دیتے ہیں۔ اب تم بالکل معصوم بن کر پوچھتے ہو کہ میرا قصور کیا ہے۔ فلم ”آنسو“ میں تم نے چلتی ٹرین میں فردوس کے ساتھ جو سلوک کیا، جو شیطانی حرکت کی وہ بھول گئے۔ پر ہمیں یاد ہے اور آج تم مجھے مل گئے ہو یہ سن کر میری جان میں جان آئی اور میں ہنس دیا اور اسے بتایا کہ نوجوان وہ جھوٹ موٹ کا ایک ڈرامائی منظر تھا میں حقیقی زندگی میں ایک شریف انسان ہوں، پھر میرے ساتھیوں نے بھی اسے سمجھایا کہ اداکاری میں یہ سب کردار اور واقعات مصنوعی ہوتے ہیں۔ دوستی، دشمنی، عزت کرنا، اسے خراب کرنا، قتل تشدد اور غارت گری مصنوعی ہوتا ہے۔ ڈرامہ ہوتا ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب سب ساتھیوں نے اسے فن اداکاری اور اس کی ضروریات کے بارے میں سمجھایا اور اس کے ساتھیوں نے بھی اسے سمجھایا تو اسے علم ہوا کہ یہ محض اداکاری تھی۔ ہمیں بھی احساس ہوا کہ ایسے بھی سادہ نوجوان ہیں جو اس طرح سوچتے اور سمجھتے ہیں۔“
ایک اور دلچسپ واقعہ بھی انہوں نے سنایا: ”ایک مرتبہ اداکارہ نیئر کمال کے ساتھ رومانوی سین عکس بند کراتے ہوئے بڑی دلچسپ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ معروف ٹی وی پروڈیوسر فضل کمال کی زیرہدایات مجھے نیئر کمال کے ساتھ رومانس کرنا تھا۔ سیٹ پر موجود کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ بھئی نیئر کے ساتھ ذرا دھیان سے رومانوی کردار ادا کرنا وہ پروڈیوسر فضل کمال کی محبت ہیں اور ان کی عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی، سین میں میں نے نیئر کمال کا ہاتھ بھی پکڑنا تھا۔ دوسری طرف فضل کمال بار بار کٹ کرا کے بُری طرح جھلا گئے۔ یہ عمل جب پانچویں مرتب ہوا تو انہوں نے انتہائی غصہ کی حالت میں میرے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔ میرا دل اور بھر آیا میں باقاعدہ رونے لگا۔ بعد میں فضل کمال نے مجھے پاس بلا کر کہا کہ یار تم بھی عجیب انسان ہو تمہیں نہیں معلوم کہ اداکاری جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا نام ہے۔ پھر کئی مرتبہ نیئر اور فضل کمال اس واقعہ کو یاد کرتے اور مزہ لیتے رہے۔“
مسعود اختر کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کی یادیں کبھی ختم نہیں ہوں گی اور وہ اپنے مداحوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

مطلقہ خبریں