Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عزل

حوصلہ دیتے اشارے سے الگ ہونے لگا
میں ترے دھوپ کنارے سے الگ ہونے لگا

کیا ملا ہجر حویلی کی لپائی کر کے
سوکھے گارے کے تغارے سے الگ ہونے لگا

اس افق پار بلاوے کی کرن دمکی تھی
عہد باندھے ہوئے تارے سے الگ ہونے لگا

خواہشِ نفع میں کیا سانس شماری کرتا
روز کے بڑھتے خسارے سے الگ ہونے لگا

اپنی ہی ذات میں چھپنے کا عمل دیکھنا تھا
جیتنے والے سے، ہارے سے الگ ہونے لگا

تیری کشتی سے یونہی سا تھا تعلق میرا
اب میں تنکے کے سہارے سے الگ ہونے لگا

میں مداراتِ دل و جاں میں لگا ہوں طاہرؔ
نفس کے پھولے غبارے سے الگ ہونے لگا


قیوم طاہرؔ


مطلقہ خبریں