نصرت مرزا
بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ پُرامن مقاصد کے لئے کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ دھماکہ دراصل خطہ میں بالادستی کے حصول کی صدیوں پرانی خواہش کا مظہر تھا، پوکھران کے بعد مئی 1998ء میں پانچ ایٹمی دھماکہ کئے اور اب وہ 300-400 ایٹم بم بنانے کا پروگرام بنائے بیٹھا ہے۔ وہ فرانس، روس، قزاقستان، کینیڈا، منگولیا، ارجنٹینا، نمبیا سے 4914 ٹن یورینیم حاصل کرتا ہے جس سے بھارت 6 سے 10 ایٹم بم ہر سال بنا سکتا ہے اور ایٹمی آبدوز کے لئے ایندھن کا حصول کرنا چاہتا ہے تاہم عالمی ارضی سیاست کی بے رحم کھیل نے چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے یہ غضب ڈھایا کہ امریکا نے اُس کے ساتھ 2005ء میں سول ایٹمی معاہدہ کیا جو 2008ء میں کانگریس کی منظوری سے روبہ عمل ہوچکا ہے، اس سے ساری دنیا میں یہ خبر پھیلی کہ امریکا بھارت کی یکطرفہ طرفداری کررہا ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان میں سخت اضطراب پیدا ہوا، جواب میں پاکستان کو کوشش کرنا پڑی کہ خطہ میں توازن رہے اور بھارت بالادست قوت نہ بن جائے،، پاکستانیوں کا یہ عزم پاکستان کے قیام سے تاحال جاری ہے، بھارت نے جمہوریت کے نام سے برصغیر کے مسلمانوں پر حکمرانی کا خواب دیکھا تو دوقومی نظریہ سامنے آیا اور یوں ہندوستان کی تقسیم ہوئی، ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بھارت کو دیدیا، اگرچہ بعد میں بھارت نے اقوام متحدہ سے اپنے نام کو انڈیا کہلوانے کی اجازت نامہ لے لیا مگر پاکستان میں اب بھی اسے بھارت ہی لکھا جاتا ہے۔
بھارت کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ کو دیکھا جائے تو 1948ء میں انڈین اٹامک انرجی کمیشن بنا اور برطانیہ نے اس کی مدد کی اور کینیڈا نے اس کو سرکس ایٹمی ری ایکٹر فراہم کیا جبکہ بھاری پانی امریکا نے دیا، جس کو وہ ترقی دیتے ہوئے پوکھران تک پہنچا اور پھر مئی 1998ء اور اب 300-400 ایٹم بم بنانے کے عمل میں داخل ہوچکا ہے، ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ امریکا نے عالمی ارضی سیاست کے حوالے سے اُس کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں استثنیٰ دلا دیا اور اس کا سول اور ملٹری پروگرام ایک دوسرے سے مدغم ہوگیا ہے، اس لئے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کتنا ایٹمی مواد سول ذرائع سے افزودہ کررہا ہے اور کتنا مواد ملٹری ایٹمی ری ایکٹروں سے، جوکہ عالمی ادارۂ برائے ایٹمی توانائی کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ بھارت کو استثنیٰ کے حصول میں رکاوٹ نہ ڈالنا جنرل پرویز مشرف کی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی تھی، وہ اس زعم میں تھے کہ ہم بہرحال ایٹمی طاقت ہیں، بھارت کو ایٹمی طاقت مانا جارہا ہے تو وہ پاکستان کو بھی مان لیں گے جو غلط سوچ تھی، امریکا پاکستان کے ایٹمی ڈراوا کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ سخت امتیاز سے کام لے رہا ہے، بھلا ہو چین کا کہ وہ بھارت کے ایٹمی سپلائرز گروپ کی ممبر شپ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، وگرنہ وہ اس گروپ کا ممبر بن چکا ہوتا ہے اور پاکستان دنیا میں تنہا رہ جاتا، اس گروپ میں شمولیت اس لئے ضروری ہے کہ اس طرح دنیا ہمیں ایٹمی قوت مان لے گی اور دوسرے ایٹمی معاملات میں جو دنیا بھر میں تحقیق ہورہی ہے اس سے پاکستان سے استفادہ حاصل کرسکے گا۔ اب ایٹمی سپلائرز گروپ جو 48 ممالک کا ایک کلب ہے وہ بھارت کے ایٹمی دھماکہ کے بعد اسلئے بنا تھا کہ اب کسی ملک کو عین ممکن ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ملک نہیں بننے دے گا۔ مگر پاکستان ایٹمی ملک پھر بھی بن گیا، یورپ پاکستان کو ایٹمی مشین اور آلات رقم کے عوض سپلائی کرتا رہا، شاید اُن کا یہ خیال ہو کہ پاکستان وہ استعمال نہیں کرسکے گا۔ مگر پاکستان نے ضرورت کے مطابق کچھ چیزیں منگوائیں اور کچھ خود بنائی، چنانچہ کہوٹہ کی لیبارٹری مکمل ہونے کے بعد ایٹمی افزودگی کا کام شوع ہوا تو اس میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شنید ہے کہ کچھ دیر چلنے کے بعد سینٹری فیوج پھٹ جاتے تھے، چنانچہ مقامی لاہوروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ مسئلہ حل کردیا کہ دو دھاتیں ایک جیسی حدت کے ساتھ شامل نہیں ہورہی ہیں جو ایک کمزور رہ جاتی ہے چنانچہ اس کمی کو دور کیا گیا تو سینٹری فیوج نے مکمل طور پر کام کرنا شروع کردیا۔ تاہم یہ بات مصدقہ نہیں ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہوں گے جو کہ کہوٹہ پلانٹ کو درپیش آئے ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ چاغی اور خاران میں جنرل ضیا الحق کے سمدھی لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین گورنر بلوچستان 1985ء کے لگ بھگ ایٹمی دھماکہ سرنگ کا کام مکمل کرچکے تھے۔
تاہم بھارت بالادستی کے عزائم شروع سے موجود تھے جو کبھی کم نہیں ہوئے، دونوں ممالک کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد ہونا تو چاہئے تھا کہ مل جل کر رہنا سیکھ لیتے مگر بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈوکٹرائن بنا کر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے کی کوشش میں 20 بلین ڈالرز خرچ کئے۔ پاکستان مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بھارت کے اس ڈوکٹرائن کو ناکام بنانے کے لئے ٹیکٹیکل ہتھیار بنانے پڑے جو امریکا، روس، چین کے بعد پاکستان کے پاس ہیں اور جس نے بھارت کا منصوبہ کو بے اثر کردیا۔
بھارت کو کسی کل چین نہیں ہے اور ہر وقت بالادستی کے چکر میں رہتا ہے، جس نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور امریکا کی سرپرستی اس کو خراب سے خراب تر کررہی ہے، اس کی وجہ سے ایٹمی پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، ایٹمی عدم پھیلاؤ کی پالیسی بُری طرح ناکام ہورہی ہے، بھارت کے پاس یورینیم کی کانیں ہیں اور اس کو مزید ایٹمی مواد فراہم کیا جارہا ہے، جو پاکستان کے لئے تو کیا عالمی امن کے لئے سخت خطرہ کا باعث ہے۔ اس کا ملٹری پروگرام بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، اس نے دو ایٹمی آبدوزیں بنا لی ہیں مگر اُن کو چلانے میں احتیاط اُن کے پاس موجود نہیں ہے اور وہ بھارت نے ابھی ایٹمی آبدوز ایری ہانت کو نقصان پہنچا دیا ہے، اس کی مرمت کے لئے روس نے اُن کو کروڑوں ڈالر کی مانگ کی ہے۔ بھارت اس کے علاوہ حرارت سے پیدا شدہ ایٹم بم بنا رہا ہے جو ایٹم بم سے زیادہ تباہ کن ہے، وہ ایک ایٹمی شہر بنگلور کے قریب تعمیر کررہا ہے۔ اُن کی وزارت دفاع نے اپنی مسلح افواج کے لئے اسلحہ خریدنے کے لئے ایک خطیر رقم کی منظوری دیدی ہے، جس میں ساڑھے ساتھ لاکھ نئی رائفلز، 16 ہزار ہلکی مشین گنیں اور دیگر سامان جس کی مالیت 15,935 کروڑ روپے ہے، جو اسلحہ وہ کشمیر میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا اُن علاقوں میں جہاں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے گوادر پاکستان اور چاہ بہار کی بندرگاہ اور چین کے اڈے پر نظر رکھنے کے لئے اومان کی بندرگاہ ’’دقم‘‘ میں اپنی افواج کی موجودگی کا معاہدہ کرلیا ہے۔ ایک طرف بھارت کی ایٹمی پروگرام غیرمحفوظ ہے اور دوسری طرف اُس کی مسلح افواج تربیت اور احتیاط کرنے میں کمزور ہے جو خود بھارت کے لئے بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے اور خطے کے امن کو مکمل تباہ کرنے کے تو وہ در پے ہے، ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان اپنی سی کاوشوں میں جُتا ہوا ہے کہ وہ بھارت کے ناپاک عزائم سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے اور اُس کے ہر جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرلے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے مگر پاکستان اس کے لئے عملی اقدامات اٹھا رہا ہے، حتیٰ الامکان اُس کو مضبوط بنا رہا ہے، پاکستان نے جنرل راحیل شریف کے عہدہ کی معیاد پوری ہونے سے ذرا پہلے ایک مال بردار جہاز کو روانہ کرنے کا اعلان یہ دیکھنے کے لئے کہا کہ بھارت کا اس پر کیا ردعمل ہوسکتا ہے اور اس کا مناسب انتظام پہلے سے کرلیا، چنانچہ بھارت نے ایک آبدوز اس راہداری کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھیجی، اُس کی آبدوز کو پانی سے اوپر آئی تو ہمارے جہاز اس کو حصار میں لینے کیلئے موجود تھے، تین روز تک اس آبدوز کو عملاً قید رکھا، پھر اس آبدوز کو جانے دیا۔ یہ بھارت کی بڑی ناکامی تھی۔ سورہ انفعال کے عین مطابق کہ اپنے گھوڑے تیار رکھنا چاہئے تاکہ دشمن سرحد کے اس پار خوفزدہ رہے۔