اپنے ماہرین اور قابل اساتذہ کی رہنمائی سے پاکستان کو مشکلات سے نکال لیں گے، گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ، ملک دفاعی اعتبار سے محفوظ ہے، وقت آنے پر سیکنڈ اسٹرائیک کیپیبلٹی کا اظہار کریں گے، جنرل (ر) خالد احمد قدوائی، ہمیں بدعنوانی کو روکنے کیلئے سیاسی، عدالتی و انتظامی ریفارم کی ضروت ہے، سابق گورنر اویس احمد غنی، نہرو نے کہا تھا پاکستان 6 ماہ میں ختم ہوجائے گا لیکن ہم پوری طاقت کے ساتھ آج بھی بھارت کے سامنے کھڑے ہیں، سابق سفیر علی سرور نقوی، آئین و قانون کی حکمرانی ہی میں ہمارے مسائل کا حل ہے، بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل، عالمی طاقتیں مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں پاکستان میں خصوصاً بلوچستان نشانہ ہے، ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار بلوچستان ہے، دیگر مقررین
رپورٹ: سید زین العابدین
بیوٹم یونیورسٹی کوئٹہ میں بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کی جانب سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کی سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی میں حائل رکاوٹوں کے سدباب کے عنوان سے ہونے والے سیمینار میں گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ، ایس پی ڈی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ خالد احمد قدوائی، سینئر سفیر علی سرور نقوی، بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل، سفیر قاضی خلیل اللہ، جامعہ کراچی کے سید جعفر احمد، سابق گورنر اویس احمد غنی، محفوظ علی خان، ڈاکٹر ثنااللہ پانیزئی، سابق سفیر آصف درانی اور ڈاکٹر جہانزیب بلوچ نے خطاب کیا۔
اس موقع پر گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑنے کہا کہ اس سیمینار میں شرکت کرنے سے انہیں عالمی اور ملکی حالات کو سمجھنے میں مدد ملی، شرکاء کی تجاویز پر متعلقہ حلقے سنجیدگی سے غور کریں گے، سیاسی و معاشی ترقی کے لئے ہم آہنگی ضروری ہے، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والی نسلیں غیرمحفوظ ہوں گی۔
سیمینار میں جنرل ریٹائرڈ خالد احمد قدوائی نے کہا کہ پاکستان کو سیاسی، سماجی، معاشی، ماحولیاتی تبدیلی اور دفاعی چیلنجز کا سامنا ہے، تمام ادارے مل کر ان مسائل سے ملک کو نکال لیں گے، ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت موجود ہے جو تمام مسائل و مشکلات سے نکلنے کی رہنمائی کرتی ہے، پاکستان کو اپنی تزویراتی اہمیت اور دشمن کی عیاری کا ادراک ہے، وقت آنے پر 27 فروری 2019ء سے بھی زیادہ سرپرائز دیں گے۔
سابق گورنر بلوچستان و خیبرپختونخوا اویس احمد غنی نے کہا کہ ہمیں اپنے سیاسی نظام کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا، اٹھارویں آئینی ترمیم نے صوبوں کو بہت بااختیار کردیا ہے جبکہ صوبوں کی لوکل گورنمنٹ کو اختیارات نہیں ملتے جس سے انتظامی بحران پیدا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو سرداروں اور وڈیروں نے اسٹیٹس سنبل بنا دیا ہے حالانکہ یہ ادارے عوام کے حقوقِ کے تحفظ اور قانون سازی کے لئے ہوتے ہیں، گورننس کے فقدان نے مزید تباہی پھیر دی، جمہوری حکومتوں سے مارشل لاء ادوارِ میں گورننس بہتر رہی ہے۔
سابق سفیر علی سرور نقوی نے کہا کہ گزشتہ 75 سالوں میں ہم سے کوتائیاں ہوئیں مگر ہم نے اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں، تقسیم ہند پر نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان 6 ماہ میں ختم ہوجائے گا لیکن یہ جھوٹ ثابت ہوا، ناکامی یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بن سکے جس کے باعث ہمیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل نے پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ 23 مارچ 1956ء کو پہلا آئین بنا، 1962ء میں عبوری آئین کی تشکیل ہوئی، اپریل 1973ء میں قانون ساز اسمبلی نے پہلا متفقہ آئین دیا مگر بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوسکا، جنرل ضیاء الحق نے اسے معطل کردیا پھر 1989ء سے 1999ء تک کے جمہوری دور کے بعد جنرل مشرف کا دور آجاتا ہے، ہماری عدلیہ انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیتی ہے، آئین کی اس توقیری کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکیں۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مقالے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی ہوجاتی تو آج ہم ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں ہوتے، 1958ء سے نادیدہ قوتوں کی مداخلت نے ملک کی سمت کا تعین نہیں ہونے دیا، مشرقی پاکستان کے سانحہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا گیا، آئین و انصاف کی بالادستی کے راستے سے ہی ترقی کی منازل پر پہنچیں گے۔
سابق سفیر قاضی خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کے تانے بانے سیاسی عدم استحکام سے جا ملتے ہیں، ترجیحات کے فقدان، بُرا طرز حکمرانی اور بدعنوانی ہماری مشکلات کا سبب ہیں، نظام احتساب کا نہ ہونا بدعنوانوں کے حوصلے کا باعث ہے، بڑھتا مالی خسارہ برآمدات میں کمی کی وجہ سے ہے، ہمیں زراعت، صنعت، سروسز اور آئی ٹی کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔
سابق سیکریٹری اور بینکار محفوظ علی خان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس دینے کا رحجان انتہائی مایوس کن ہے، ملکی اخراجات 9579 بلین روپے سے زیادہ ہیں اور ٹیکس وصولی صرف 4600 روپے رہی تھی، خسارے میں رہنے والے سرکاری اداروں کا بوجھ 3930 بلین روپے تک پہنچ گیا ہے، پنشن کی ادائیگی مسلہ بن رہی ہے، دوسرے ملکوں کی طرح اس کا میکینزم بنانا پڑے گا، مہنگائی کی شرح 35 فیصد تک پہنچنے سے کم آمدنی والوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، حکومت کو ریلیف فراہم کرنا ہوگا۔
سابق سفیر آصف درانی نے عالمی حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ چین اور امریکا کے درمیان تناؤ کے اثرات پاکستان پر واضح ہیں چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے سے تقریباً 5 بلین لوگ منسلک ہیں، چین نے اپنے 80 ملین لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالا، چین کی بھارت سے تجارت 2019ء میں 90 بلین ڈالر تھی جو 130 بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ اے کےیواے ایس اور کیویو اے ڈی چین کر کنٹرول کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، ملٹری انڈسٹریل کاملیکس کے رحجان سے عالمی تناؤ بڑھ رہا ہے۔
سیمینار میں ڈاکٹر ثناء اللہ پانیزئی نے دنیا میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کے پاکستان پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف .05 ہے مگر دس متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پاکستان 8 ویں نمبر پر ہے، ہمیں غیرمتوقع بارشوں کا سامنا ہے، درجہ حرارت بڑھنے سے ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، ہمارے پاس انڈس ریور اور پنجاب کے دریا ہیں، اس کے مقابلے میں افغانستان کے پاس صرف دریائے کابل ہے جس پر وہ بھارت کے تعاون سے 21 ڈیمز کی تعمیر کررہا ہے جبکہ ہم پانی کے ذخائر کے اضافے کے لئے کچھ نہیں کررہے، پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہورہا ہے، اس کے بیشتر اضلاع خشک اور صحرائی ہیں، مون سون کے علاقے ژوب، شیرانی، موسیٰ خیل ہیں، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں زیرزمین پانی نیچے ہوتا جارہا ہے، شدید بارشوں کے باوجود پانی کو محفوظ بنانے کا نظام نہیں ہے جبکہ بینکاک جہاں سال میں 7 سے 8 ماہ بارش ہوتی ہے وہ پانی ذخیرہ کرنے کے جدید طریقے اپنا رہے ہیں۔
ڈاکٹر جہانزیب بلوچ نے کلونیل ازم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی سامراج نے اس کا آغاز کیا اب آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کے ذریعے غریب اور کمزور ملکوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے، اس وقت ہمیں مالی مشکلات کا سامنا ہے، ہماری تزویراتی اہمیت کے باعث بھی عالمی طاقتیں ہم پر دباؤ ڈال رہی ہیں، اس کے سدباب کے لئے ہمیں ریفارم کی ضرورت ہے۔
سیمینار میں موجود بیوٹم یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے سربراہ، اساتذہ اور طلبا نے مقررین سے سوالات بھی کئے۔ سیمینار میں کراچی سے سینئر تجزیہ کار اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا، کوہلو یونیورسٹی کے وائس چانسلر، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شریک ہوئے۔ اختتام پر گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ کو شیلڈ اور بی ٹی ٹی این کا لوگو پیش کیا گیا جبکہ گورنر نے جنرل ریٹائرڈ خالد احمد قدوائی، علی سرور نقوی، ڈاکٹر سید جعفر احمد، بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل، قاضی خلیل اللہ، دیگر مقررین اور کوہلو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت مختلف شخصیات شیلڈز پیش کیں۔