Tuesday, December 3, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا اور روس کی یوکرین میں یکساں پالیسی

روس یوکرین پر قبضہ تو کرسکتا ہے مگر اُس کو برقرار نہیں رکھ سکتا کیونکہ اُس کے پاس افرادی قوت نہیں ہے
نصرت مرزا
عجیب بات نہیں دُنیا کی دو بڑی طاقتیں ایک ہی اسٹرٹیجی ایک ہی ملک کی جنگ میں اپنائے ہوئے ہیں۔ روس اور امریکا دونوں ہی یوکرین کی جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں، دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں، وہ جانتے ہیں کہ روس یوکرین پر قبضہ تو کرسکتا ہے مگر اُس کو برقرار نہیں رکھ سکتا کیونکہ اُس کے پاس افرادی قوت نہیں ہے۔ دوسرے یوکرین کو مکمل تباہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یوکرین روسی عیسائیت کے مذہبی مقامات کی آماجگاہ ہے، پھر روس یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایک بڑی جنگ ہو تو اُس کے شہریوں کی زیادہ اموات ہوجائیں گی جس سے وہ بچنا چاہتا ہے، چوتھے روس امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے وسائل کو زیادہ تعداد میں استعمال کرنے کا موقع دینا چاہتا ہے کہ زیادہ اخراجات کریں اور اپنی معیشت پر بوجھ ڈالیں، اتنا کہ وہ ناقابل برداشت ہوجائے، اس کے پاس تیل کی بڑی مقدار موجود ہے اور دوسرے ممالک تیل کی کمی کا شکار ہیں، وہ طویل جنگ میں مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں، اِس کے علاوہ اسلحہ کی تعداد اور اُس کی ٹیکنالوجی اور اُس کی کارکردگی کا بھی مشاہدہ کرنے کے بعد اُن کو تباہ کرسکتا ہے یا پھر اُن پر قبضہ جما سکتا ہے۔ روس کے علم میں یہ بات بھی ہوسکتی ہے جو بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ ان ممالک میں یوکرین کو اسلحہ کی سپلائی کے معاملے میں اختلافات ابھر کر سامنے آ جائیں کیونکہ یوکرین یہ اسلحہ مفت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ان ممالک کی فیکٹریاں یوکرین کی فوری ضرورت پوری کرنے میں مشکلات کا شکار ہورہی ہیں، ایک تو یہ کہ اسلحہ یوکرین کے ضرورت کے وقت تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور دوسرے یہ کہ اُن کی حکومتوں کی طرف سے اُن کو اسلحہ کی تیاری میں رقم درکار ہے، اس کے حصول میں رکاوٹیں ہیں تاہم امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے 105 ارب ڈالرز کی رقم یوکرین کو دی جا چکی ہے، جس میں امریکا کی طرف سے 46.56، یورپی یونین کی طرف سے 29.84، جرمنی کی طرف سے 8.15، برطانیہ کی طرف سے 7.15، پولینڈ کی طرف سے 3.26 بلین، نیدرلینڈ کی طرف سے 2.7، ڈنمارک کی طرف سے 1.71، کینیڈا کی طرف سے 1.63، سوئیڈن کی طرف سے 1.62 اور فن لینڈ کی طرف سے 1.21 بلین ڈالرز دیئے جاچکے ہیں، اس میں کچھ اسلحہ کی قیمت ہے اور کچھ نقد رقم دی گئی ہے، امریکا مزید 500 ملین ڈالرز مزید دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ امریکا کے اتحادیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، کچھ ممالک کا ذکر کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ ایشیا میں جاپان، جنوبی کوریا، عرب ممالک، نیوزی لینڈ، فلپائن اور دیگر ممالک کاایک جم غفیر امریکا کے اتحادی ہیں، پاکستان کو بھی شاید طوعاً و کرہاً امریکا کی طرف جھکنا پڑے گا۔ یوکرین کے وزیرخارجہ کا دورۂ پاکستان اِس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے جبکہ روس اکیلا ہے اور چین بھی روس کا کھل کر ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ دوسری طرف روس امریکا کے ڈالرز کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے اس میں چین اس کا ہم رکاب ہے مگر دوسرے ممالک ایران، ترکی، پاکستان اور سعودی عرب بھی دوسری کرنسیوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں یا مال کے بدلہ میں مال کے حصول میں دلچسپی لے رہے ہیں، اگر پیٹرو ڈالر کا لین دین ختم ہوجائے تو امریکا کو تباہ ہونے میں وقت نہیں لگے گا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس کئی رُخی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ مزید برآں روس میں جو بغاوت ہوئی تھی اب وہ نہ جانے صحیح تھی یا صرف وہ ایک کھیل تماشا تھا یا کسی پالیسی کا حصہ ہے، امریکا میں جیسے بلیک واٹر ہے ایسی دوسری شکلیں ہیں۔ وہ امریکا کی وفادار ہیں، یہاں تک کہ داعش بھی تو سوال یہ ہے کہ ویگنا روس سے بغاوت کرسکتا ہے؟ بغاوت کرنے والا ویگنار کا سربراہ بیلاروس میں جا کر پناہ لے لیتا ہے، ایسا یوں نہیں ہوسکتا کہ یہ ڈرامہ اس لئے رچایا گیا ہو کہ ویگنار جس کے 25 ہزار افراد جنگ اور گوریلا جنگ کے ماہر ہیں، وہ دوسرے ممالک میں جا کر انتشار پھیلائیں، جو ممالک اس کا ہدف ہوسکتے ہیں وہ فن لینڈ، پولینڈ اور دوسرے قریبی ممالک اس قسم کی مشکلات کا شکارہوسکتے ہیں جو کبھی سوویت یونین کا حصہ رہے ہیں، اس کے برعکس امریکا کھلے عام ایک پالیسی کا داعی ہے کہ وہ دُنیا کی بالادست قوت ہے اور وہ اس قوت کو برقرار رکھنے کے لئے ہرممکن کوشش کرے گا۔ اس نے 2010ء میں پہلے ہی اپنے ایک کالم میں ذکر کردیا تھا اور پھر 2014ء میں برملا اظہار کرلیا کہ امریکا کی بالادستی کو چیلنج ہوگیا ہے اور ان چیلنجوں کا خاتمہ ضروری ہے اور امریکا کی واحد سپر طاقتی کو برقرار رکھنے کے لئے امریکا کی اشرافیہ نے فیصلہ کیا کہ دُنیا کے عالمی نظام میں امریکی بالادستی کو پھر سے بحال کرنے کے لئے وہ چار اقدامات کریں گے، پہلے وہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالیں گے، مبادا یورپی یونین امریکا کے لئے خود ایک چیلنج نہ بن جائے، چنانچہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا۔ دوسرے وہ ایشیائی اور افریقی افرادی قوت کو امریکا اور مغربی ممالک سے نکالیں گے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تیسرے دُنیا بھر میں مہنگائی کو اتنا بڑھائیں گے کہ وہ عوام کے لئے ناقابل برداشت ہوجائے اور چوتھے ایک عالمی جنگ جو محدود ہو اور جس پر قابو میں رکھا جاسکے، جو اس وقت یوکرین میں جاری ہے اور چین کو تائیوان اور جنوبی بحر چین میں مصروف رکھا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ چین کو دباؤ میں رکھے ہوئے ہے، نہ چین جنگ چاہتا ہے اور نہ امریکا، البتہ امریکا چین اور روس کو فوجی اتحاد کو پنپنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ چین اور روس اگرچہ ڈالر کے معاملے میں ایک جیسی رائے رکھتے ہیں، وہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے بانی ارکان میں سے ہیں، اُس کو بھی مضبوط کررہے ہیں، تیسرے وہ ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں، چین روس کا تیل خرید رہا ہے اور اس پر معاشی بوجھ ڈالنے کی امریکی پالیسی کو کسی حد تک ناکام بنا دیا ہے، امریکا نے مغربی ممالک پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ روسی تیل نہ خریدیں تو چین روس کی مدد کو آیا۔ واضح رہے کہ روس کی 80 فیصد معیشت تیل کی سپلائی پر انحصار کرتی ہے۔ چین اور روس، امریکی عالمی بالادستی کے خلاف ہیں مگر اس کے باوجود وہ امریکا کے خلاف یک جان و قالب نہیں ہوئے اور مکمل اتحادی بھی نہیں بنے، جس سے امریکا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یوکرین ایسی صورتِ حال میں ہمارا خیال تھا کہ اگر اس جنگ نے طول پکڑی تو پھر ہائبرڈ جنگ کا میدان بن جائے گا، چنانچہ روسی اس جنگ سے دوچار ہیں، پھر روسی فوج میں وہ یکسوئی نظر نہیں آتی جو ایک فوج میں ہوتی ہے کیونکہ اس نے کئی عشروں سے کوئی جنگ نہیں لڑی اور نہ ہی اتنی مشقیں کرسکے جو اُن کو مستعد رکھتی۔ ایسی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ مسلح افواج تعیش پسند ہوجاتی ہیں اور مشرق وسطیٰ کی فوجوں کی طرح ہوجاتی ہیں، اگرچہ اس وقت تو مشرق وسطیٰ اور عرب فوجوں نے جان پکڑی ہیں اور جنگ کرنے کا تجربہ بھی حاصل کرچکے ہیں، گمان یہ ہے کہ روس کی فوج میں یکسوئی اور یکجہتی نہیں جو اس جنگ کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس امریکا اپنی افواج کو کسی نہ کسی جنگ میں جھونکتا رہتا ہے اور اُن کو حالت ِجنگ میں رکھتا ہے۔ امریکا اور اُس کے اتحادی یوکرین کو جدید ٹینک، ایئرڈیفنس سسٹم، لڑاکا گاڑیاں، طویل فاصلے پر مار کرنے والی توپیں اور دیگر ہتھیار فراہم کرکے روس کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ روس اُس کو کیوں بہت ہلکا لے رہا ہے، کوئی بڑا حملہ کرکے معاملے کو ختم کیوں نہیں کردیتا۔ اس پر امریکی دانشور کہہ رہے ہیں روس نے اس جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کئے، دوسرے امریکی دانشور کہہ رہے ہیں کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی جبکہ چینی کہتے ہیں کہ یہ ہم ہیں کہ جنہوں نے روس کو ایٹمی اسلحہ کے استعمال سے باز رکھا۔ جنگ کا کھیل انتہائی خراب ہوتا ہے، یہ کسی بھی وقت کوئی بھی رُخ اختیار کرسکتا ہے، اس لئے امریکا اور روس کو چاہئے کہ انسانیت کی فلاح کے لئے اس کھیل سے باز آجائیں۔

مطلقہ خبریں