Saturday, November 23, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سونے کی چڑیا امریکا کے پھندے میں۔۔

انڈیا، امریکا کے پھندے میں پھنستا چلا جارہا ہے، لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے اور انڈیا ایک دفعہ پھر غلامی کے جوڑے میں جتنے جارہا ہے
نصرت مرزا
لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے اور انڈیا ایک دفعہ پھر غلامی کے جوڑے میں جتنے جارہا ہے۔ بھارت کی غلامی کی تاریخ طویل ہے، وہ تقریباً ایک ہزار سال غلام رہا، پہلے مسلمانوں کے مختلف خاندان 850 سال تک حکمرانی کرتے رہے جس میں مغلوں کا دورِ حکومت طویل ترین تھا جو ساڑھے تین سو سال پر محیط رہا، اس کے بعد دو سو سال برطانیہ پورے ہندوستان پر حکمرانی کرتا رہا، یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم 1914ء سے 1919ء تک اور دوسری جنگ 1939ء سے 1945ء تک چلی، اس دورانیہ میں انگریزوں کی حکمرانی تو کمزور ہوگئی اور امریکا نے 1945ء کی جنگ میں حصہ لینے سے پہلے برطانیہ کو اِس بات پر راضی کرلیا تھا کہ وہ اپنی کالونیوں کو آزاد کردے گا، چنانچہ برصغیر میں آزادی کا عمل 1947ء میں مکمل ہوا اور انڈیا اور پاکستان کی آزاد ریاستیں معرضِ وجود میں آگئیں۔ بھارت کے ہندوؤں سے انگریز نے مل کر مسلمانوں کے پاکستان کو آزادی کے پہلے دن سے ہی مشکل میں ڈالے رکھا۔ وہ مسلمانوں کو غلام بناکر اپنی 850 سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے اسی لئے مسلمانوں نے دوقومی نظریہ پیش کیا اور اپنے لئے ایک علیحدہ ملک پاکستان کے نام سے حاصل کرلیا۔ پاکستان مسلمانوں کی خوابوں کی سرزمین تھا مگر پھر انڈیا، سوویت یونین، رشیا اور امریکا نے مل کر پاکستان کے مشرقی صوبے کو علیحدہ کردیا، جواباً پاکستان نے روس کو امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں بہت بُری شکست دی، یہاں تک کہ سوویت یونین 15 ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ میں 2005ء میں انڈیا کے چندی گڑھ کے سیمینار میں شریک ہوا، میرے ہمراہ جنرل طلعت حسین اور نجم الدین شیخ بھی تھے، اس وقت میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن سندھ کا کنوینر تھا تو وہاں کی انتظامیہ نے مجھے بطور پاکستانی وفد کے سربراہ کے طور پر مرکزی میز پر بٹھایا، اگرچہ میرے سے سینئر افراد موجود تھے اور میں نے اُن کی نشاندہی بھی کی مگر انہوں نے پھر بھی اصرار کرکے کہا ہم نے آپ ہی کو اس وفد کا سربراہ سمجھتے ہیں۔ اس کانفرنس میں ایک روسی خاتون نے ایک مقالہ پڑھا کہ سوویت یونین نے کیوں اپنی 15 ریاستیں آزاد کردیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے تعاقب میں تھا اور اس نے وادی فرغانہ جو مغلوں کی سرزمین تھی کو اڈہ بنا کر ہمارے لئے گڑبڑ کرنا چاہتا تھا، اگرچہ جنرل طلعت مسعود نے تردید کی اور میں نے بھی کہا کہ بطور مغل ہم پاکستان کی سرزمین کی حدود سے مطمئن ہیں مگر روسی سربراہ وفد کا اصرار تھا کہ وہ درست بات تھی، پاکستان آنے پر سابق اسپائی ماسٹر جنرل حمید گل نے اس کی تصدیق کی کہ ہاں ایسا منصوبہ تھا۔ دوسری طرف پاکستان امریکا کو بھی افغانستان میں اُس کی حمایت کرتے ہوئے ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ افغانستان چھوڑ کر بھاگا اور اب وہاں سے پاکستان کے خلاف انڈیا کے ساتھ مل کر پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی بقا کی جدوجہد طویل ہے۔ 2016ء میں آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہوا اس کے بعد دہشت گردی کے زور کو توڑا، اور پاکستان کی مسلح افواج دُنیا کی واحد فوج ابھر کر سامنے آئی کہ اس نے شہری دہشت گردی کے نظام کو روند ڈالا اور پاکستانی عوام کو چین و سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔ پاکستان آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے میدانِ عمل میں ہے، مشکلات ہیں مگر کسی نہ کسی طرح مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے اور قوم اپنی بقا اور آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے یہ جنگ ا حسن طریقے سے لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج سرگرم عمل ہے اور پاکستان کی سلامتی کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔
اس کے برعکس بھارت کی ایک دفعہ پھر آزادی سخت خطرے میں پڑ گئی ہے، امریکا نے اُس کو اپنے شکنجے میں بُری طرح جکڑ لیا ہے، اس کی پاکستان کی بالادستی کی خواہش اور عالمی طاقت بننے کی تمنا کی وجہ سے انڈیا، امریکا کے بچھائے ہوئے جال میں گھرا نظر آتا ہے۔ امریکا نے بھارت کو چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) میں الجھا کر رکھ دیا ہے، انڈیا کو اپنے ساتھ ایک معاہدہ Quadrilateral security dialogue (کواڈ) جو ایک فوجی معاہدہ ہے، چین کو گھیرنے کے لئے شامل کرلیا ہے۔ اس معاہدہ میں جاپان، آسٹریلیا، انڈیا اور امریکا شامل ہیں۔ جس کے تحت بھارت نے اپنے تمام بحری اڈے اور بحری بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی اجازت امریکا کو دے دی ہے اور اُن میں دو ممالک کے جہازوں کے درمیان رابطہ کاری کے لئے ایک نظام لگا دیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی زبان سمجھ سکیں۔
امریکا اور انڈیا کے درمیان اب تک چار معاہدات پہلے اور ایک معاہدہ جو 22 جون 2023ء کو ہوا ہے جس کا تعلق خلائی معاملات سے ہے، دوسرے معاہدات میں
(جی ایس اوایم آئی اے) یعنی جنرل سیکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ
(ایل ایس اے) یعنی لاجسٹک سپورٹ ایگریمنٹ
(سی آئی ایس ایم او اے) یعنی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی میمورنڈم ایگریمنٹ اور
بی ای سی اے یعنی بیک ایکسچینج اینڈ کو آپریشن فار جیواسٹیکل (جغرافیائی) انٹیلی جنس اور 22 جون 2023ء کو خلائی پالیسی پر معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اُن کا پرائیویٹ سیکٹر بھی اس میں شامل ہوگا اور خلائی معیشت اور ایکسپورٹ کنٹرول کی تعینات کاری کرے گا اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر امریکا سے انڈیا کی طرف یا دونوں جانب کی جائے گی۔
دوسری طرف روس، انڈیا کے پیچھے پڑا ہوا ہے، وہ بھی انڈیا کو سونے کی چڑیا سمجھتا ہے اور اپنا تیل اور ملٹری ہارڈویئر انڈیا کو بیچتا ہے اور روس، انڈیا کے اس قدر قریب ہے کہ اپنے اور چین کے درمیان انڈیا کو استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کا جب بیان دیکھتے ہیں تو چین کے ساتھ انڈیا کا نام بڑے پُرجوش سے لیتا ہے، یہ بات رشین ٹی وی آر ٹی کے پروگراموں یا کسی ایک پروگرام کو دیکھیں تو یہ منظر دیکھنے کو مل جائے گا۔ روس یہ سمجھتا ہے کہ چین جس پالیسی کو لے کر چل رہا ہے وہ نہ صرف امریکا کو پیچھے چھوڑے گا بلکہ روس سے بھی آگے نکل جائے گا۔ ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ چین نے روس کا اس وقت ساتھ دیا جب امریکا نے روس کے تیل کی فروخت کو یورپ میں ممنوع قرار دے دی تھی اور بھارت اس سے تیل 1953ء کے معاہدہ کے تحت پہلے سے خرید رہا تھا تو چین کو سراہنے کے بجائے وہ یہ کہتے تو نظر آئے کہ بھارت نے بھی ہماری مدد کی۔ اب ایسی صورت میں جب بھارت امریکا کی گود میں جا کر بیٹھ گیا ہے تو بھارتی یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے امریکا کو اپنی گود میں بٹھا لیا ہے۔ بھارت اگرچہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ امریکا سے آگے نکل گیا ہے، وہ ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ گیا ہے اور ٹیکنالوجی میں اُن کی پیش رفت اچھی خاصی ہے تو ایسی صورت میں نہ امریکا کی گود میں بیٹھیں گے اور نہ ہی روس کی بلکہ اپنی راہ خود متعین کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ وہ دانائی کے اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ ایسا توازن برقرار رکھ سکیں یا اُن کی ذہن کی استعداد بلند ہوگئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال میں نہ صرف بچا سکیں بلکہ دُنیا بھر کے دباؤ سے نکل کر اپنی راہ متعین کرسکیں۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ ضرور اٹھے گا کہ کیا جو لوگ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور جو ہندوتوا کے فلسفہ پر عملدرآمد کرانے میں لگے ہیں وہ اپنے ذہن کو اتنا وسیع کرسکتے ہیں جیسا کہ امریکا کا جنہوں نے دُنیا بھر کے اذہان جمع کئے اور پھر اُن کے ذریعے عالمی طاقت بنا اور انہوں نے سو سے زیادہ دانش گاہیں بنائیں اور ہر ایک سے استفادہ حاصل کیا، دُنیا پر بالادستی کا مقام حاصل کیا، وہ طاقت کے مرکز کو یوریشیا سے امریکا لے کر چلے گئے اور ہٹلر اور اسٹالن کے درمیان گفتگو کاری کو فیل کیا جو عالمی طاقت کے مرکز یوریشیا میں رکھنا چاہتے تھے۔ دشمنی اور جنگ ہورہی تھی مگر اندرونی طور سے جرمنی اور روس کے رہنما کو یہ فکر بھی تھی کہ طاقت کا محور یوریشیا سے براعظم امریکا منتقل نہیں ہونا چاہئے مگر امریکا کی دانشمندی تھی کہ اس نے اُن کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
ہمارا نکتہ نظر بھارت کے معاملے یہ ہے کہ بھارت یکسو نہیں ہو پایا، وہ اور ان کے حکمران بہت تنگ نظر ہیں، وہ مسلمانوں سے صلح نہیں انتقام لینا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا 25 فیصد ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو کس طرح دبائیں گے۔ ان کے تعصب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ BJP کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی جب حامد کرزئی کے دورِحکومت میں کابل گئے تو انہوں نے غزنی دیکھنے کی خواہش کی کیونکہ محمود غزنوی بت شکن تھا اور اس نے سومنات کے بت کو ٹوڑ ڈالا تھا، واجپائی اس کو نہیں بھولا تھا اور پھر بھارت آکر اتنا کہا کہ غزنی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ مسلمانوں سے انہیں اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو سخت نفرت رہی ہے۔
تاہم اس کے باوجود بھات کامیابی حاصل کرسکتا ہے اگر وہ طاقت کا بے دریغ استعمال کرے، پھر سوال در سوال یہ ہے کہ کیا وہ طاقت کے بے دریغ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جواب اُسے نہیں ملے گا۔ ابھی جو صورتِ حال انڈیا میں ہے وہ اس نے بظاہر ایسی طاقت ضرورحاصل کرلی ہے کہ نریندر مودی اور آر ایس ایس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ تو مسلمانوں میں پروان چڑھ سکی اور نہ ہی سکھوں میں اور نہ ہی عیسائیوں میں اور یہ کہ سکھوں کی جتھہ بندی ان دونوں مخالف قوتوں میں زیادہ ہے مگر انڈیا ان کے لیڈروں کو غیرممالک میں بھی جان سے مار رہا ہے اور وہاں پر اُس کے خلاف کوئی سخت ردعمل نہیں ہورہا ہے۔ اب اگر وہ مسلمانوں کو انتہائی حد تک دبا دیں تو جواباً مسلمانوں کا کیا ردعمل ہوگا جبکہ وہ 25 فیصد ہونے کے باوجود بکھرے ہوئے ہیں اور قوتِ مدافعت سے عاری ہیں اور مشترکہ لائحہ عمل تاحال نہیں بنا سکے ہیں اور اگر جو بنایابھی ہوگا تو وہ منظرعام پر نہیں آرہا۔
ایک تیسری صورتِ حال یہ ہے کہ امریکا، بھارت کے ساتھ معاہدات کرنے کے باوجود اس سے مطمئن نہیں ہے، امریکی دانشور اور کالم نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بھارت قابل بھروسہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں وہ صلاحیت ہے جو امریکی عزائم کا ساتھ دینے کے لئے اور نہ ہی اس کی رفتار ایسی ہے کہ امریکی تیز رفتاری میں اس کا ہم رکاب ہوسکے۔ ایسی صورت میں امریکا پہلا عمل یہی کرتا ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ کسی بھی دوست ملک کی انتظامیہ اور فوج میں پیدا کرتا رہتا ہے۔ بھارت میں بہادر فورس کی کمی تو نہیں۔ گورکھا، راجپوت اور سکھ بہادر ہیں اور مقابلہ کرسکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ فوجی انڈیا کی پالیسیوں سے مطمئن ہیں؟ جواب ہے کہ نہیں، ہر طرف بے اطمینانی ہے یہاں تک کہ فوج میں بھی مالی اور جنسی کرپشن اپنی آخری حد کو چھو رہی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو جنگ انڈیا پیسفک میں لڑی جائے گی اس میں بھارت کیا ایک لنگڑے اتحادی کے طور پر شامل ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو امریکا کا کیا ردعمل ہوگا اور کیا یہ ممکن ہے کہ وہ بھارت کے سیاسی نظام پر قابض ہوجائے مگر خود امریکا میں یہ صلاحیت نہیں جو برطانیہ میں ہے تو کیا وہ اس سلسلے میں برطانیہ کو استعمال کرسکتا ہے۔ کرنے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے کہ مغربی مقالہ کے مطابق جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
البتہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انڈیا نے اپنے سارے بحری اڈے امریکا کے حوالے کردیئے ہیں۔ یعنی امر یکا سمندری علاقہ کو خود سنبھالے گا اور انڈیا کی فوج کا کچھ حصہ یا زیادہ تر حصہ تبت میں چین کو الجھانے کے لئے استعمال کرے گا۔ اس عرصہ میں انڈیا میں شورش کے بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ حتمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی عمل تو ایسے ہیں کہ وہ امریکی پھندے میں پھنس جائے اور ایک دفعہ پھر غلامی کا طوق جنگ کے حاصل کے طور پر پہن لے گا کیونکہ سونے کی چڑیا پہلے ہی صیاد کے دام میں پھنس چکی ہے۔

مطلقہ خبریں