تاریخ میں صرف ایک حکمران کا ذکر ملتاہے، جس کی بابت بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت کا ”خدائی حق“ حاصل تھا اور وہ حکمران اسلام کے نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں
علامہ محمد اقبالؒ
بادشاہوں کے ”خدائی حق“ کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود بادشاہت کا ادارہ۔ دونوں ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ اس اصول کے مطابق مشرق و مغرب دونوں جگہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ”بادشاہ اپنے اختیارات براہِ راست خدا سے حاصل کرتا ہے“۔ بظاہر یہ عقیدہ مشرق کی ایجاد معلوم ہوتا ہے، جسے عیسائیت کی ابتدا کے بعد مغرب میں درآمد کیا گیا۔ اس تصور کے منطقی نتیجے میں دو اور اصول پیدا ہوتے ہیں:
پہلا اصول یہ ہے کہ بادشاہ، زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے، اس لئے وہ رعایا کی ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اس کا فرمان ہی قانون ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرسکتا ہے، اس کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ انگریزی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ”بادشاہ غلطی نہیں کرسکتا“۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسی الٰہیاتی تقدس کی باقیات میں سے ہے، جسے بادشاہ کی ذات سے مخصوص کردیا گیا تھا۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ بادشاہت اسی ایک خاندان تک محدود رہے گی، جسے مقدس شمار کیا جائے گا۔
بادشاہت کے اسی ”تقدس آمیز“ تصور کی بنا پر ازمنہ وسطیٰ (Middle Ages) کی عیسائی دُنیا میں بادشاہوں کو تاج پوشی کے وقت مذہبی اداروں کی طرف سے ”اصطباغ“ (Baptism) دیا جاتا تھا۔ شیکسپیئر (م: 1616ء) بادشاہ رچرڈ دوم کی زبان سے یہ الفاظ کہلواتا ہے: ”دنیا کی تمام تخریبی قوتیں مجتمع ہو کر بھی اصطباغ شدہ بادشاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں“۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ انگلستان میں سترہویں صدی کی خانہ جنگی میں کس قدر کشت و خون ہوا، یہ سب اسی اصول پر لوگوں کے سیاسی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ شاہ پسندوں کا خیال تھا کہ ”تمام عیسائی بادشاہوں، شہزادوں اور حاکموں کو اقتدار منجانب اللہ حاصل ہوتا ہے“۔ (اس کے برعکس) جمہوریت پسندوں کا خیال تھا کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“۔ بادشاہ چارلس اوّل کا پھانسی پانا، اس موخرالذکر اصول کے حامیوں کی جیت تھی۔ ”انقلابِ فرانس“ (1789-1799) نے آخرکار بادشاہوں کے خدائی حق کا تصور بالکل پاش پاش کردیا۔ اگرچہ ہر مغربی ملک میں شاہ پسندوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں یہ نظریہ اب بھی مقبول ہے۔
بہرطور، اب سوال یہ ہے کہ اِن ”خدائی حقوق“ کے بارے میں بادشاہوں کے دعوے یا اس اصول کے حامی عوام کا اعتقاد کہاں تک حق بجانب ہے اور انھیں اس دعوے کا استحقاق کس قدر ہے؟ اس مسئلے پر نظر ڈالتے ہی خیال آتا ہے کہ اس میں خدائی کی بات تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لئے عام انسانی ذرائع استعمال کیے۔ ان کے پاس آزادی کے مطالبوں کا گلا گھونٹنے کے لئے پولیس اور جیل خانے موجود تھے۔ نیز دوست اور ہمدرد خریدنے کے لئے بے اندازہ دولت تھی۔ ان لوگوں نے مادی ذرائع استعمال کرکے انسانوں پر حکومت کی۔ اگر کسی اور شخص کو بھی یہ سہولتیں مہیا کردی جائیں، تو وہ بھی حکومت کرسکتا ہے۔ اس میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ کوئی آدمی جس میں اُلوہیت کا شائبہ بھی موجود نہ ہو، بس ذرا سی عقل رکھتا ہو، اسے فوج، خزانہ اور جملہ شاہی لوازمات فراہم کردیجیے، وہ ایسا ہی بادشاہ بن جائے گا جیساکہ خود اعتقادی اور تقدس کے ہالے میں گھرا کوئی اور بادشاہ ہوتا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سادہ لوح انسانوں پر محض طاقت کے بل پر حکومت کی ہے نہ کہ خدائی حق کے زور پر۔ ان مادی وسائل کے علاوہ بادشاہ عوام پر اپنا رعب داب قائم رکھنے کے لئے نفسیاتی طریقے بھی استعمال کرتے تھے۔ خدا کی نیابت کے یہ دعوے دار، خدا ہی کی طرح عام لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ عام لوگوں کی نظروں سے دُور رہیں۔ مغل بادشاہ اپنے محلّات کے جھروکوں سے کبھی کبھی عوام کو اپنا درشن دیا کرتے تھے، اور اس کا خاص نفسیاتی اثر ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں بھی کئی بادشاہ اپنی رعیّت سے آزادانہ میل جول نہیں رکھتے بلکہ بالکونی سے اپنی ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ اپنے آپ کو رُعب و جلال کے لبادے میں چھپائے رکھیں۔ وہ اس عام نفسیاتی اصول پر عامل ہیں کہ لوگوں سے بہرحال کچھ فاصلہ برقرار رکھنا چاہئے۔ ان باتوں میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ اگر کسی خدائی خوار کو بھی یہ مواقع اور ذرائع میسر آجائیں تو وہ بھی ایسا ہی کچھ کرسکے گا بلکہ شاید اس سے بہتر۔ یہ تو وہی مصنوعی انسانی طریقے ہیں، جنہیں سبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں اُلوہیت کا کوئی دخل نہیں۔
ربانی حقِ حکمرانی ان تمام مادی اور نفسیاتی ڈھکوسلوں سے بالاتر ہونا چاہئے۔ اسے نہ مال و دولت کی ضرورت ہو، نہ سنگینوں کی حاجت۔ لوگوں میں رُعب و جلال کے باطل اوہام پیدا کرنے کے لئے اسے نفسیاتی بیساکھیوں کا سہارا بھی نہ لینا پڑے۔ یہ اقتدار تو فوج، خزانہ، جیل اور پولیس کے بغیر ہی قائم ہونا چاہئے۔ صرف ایسا حکمران ہی بجاطور پر اس امر کا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اسے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ہی حکمران تھے۔ ان کے پاس لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ وہ صرف ایک یتیم لڑکے تھے، جو ہرطرف پھیلی ہوئی بدی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تن تنہا ڈٹ گئے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو زیر کرنے کے لئے آپؐ کی اپنی فوج ہوتی، فوجیں آپؐ کے خلاف صف آرا تھیں۔ ایک پوری قوم آپؐ کے خلاف مسلح ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ لوگ انہیں بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر تلے ہوئے تھے، اور پھر انجامِ کار یہی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع فرماں ہوگئے۔ درحقیقت یہ ہے عوام پر حکومت کا خداداد حق!
اسلام کے نبیؐ برحق کے پاس دولت بھی نہ تھی کہ اس کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنا معتقد بناتے۔ آپؐ تو (مادی زبان میں) غریب آدمی تھے، جنہیں بعض اوقات کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑتی تھی۔ عرب کے حکمران بننے کے بعد بھی آپؐ کھردری چٹائی پر سوتے تھے۔ اس طرح آپؐ کی پشت پر کھجور کے پتوں کے نشانات پڑ جاتے تھے۔ ایک بے کس اور مظلوم انسان سے ترقی کرتے کرتے آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے حکمران بن گئے۔ پھر بھی نہ آپؐ کو پولیس کی حاجت ہوئی، نہ جیل کی۔ دراصل یہی وہ حکمران تھے، جن کی بابت بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے کسی فوق الفطرت حق کی بناپر حکومت کی۔ اس لئے کہ آپؐ نے عام بادشاہوں کا سا اقتدار قائم کرنے والا کوئی ایک طریقہ بھی استعمال نہ کیا۔ نہ آپؐ کے پاس سلطنت کے تحفظ کی خاطر کوئی مستقل فوج تھی، نہ آپؐ کا ذاتی حفاظتی دستہ تھا، نہ کوئی خزانہ تھا، نہ پولیس تھی اور نہ کوئی جیل۔ ایسی کوئی چیز بھی تو نہ تھی۔
بجائے اس کے آپؐ لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لئے انہیں کسی اُلوہیت آمیز رنگ میں اپنی طرف ملتفت کرنے کی کوشش کرتے، رسولِ پاکؐ نے لوگوں کے دلوں کو اس شائبے سے پاک رکھنے کے لئے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جو آپؐ کے بس میں تھا۔ آپؐ نے ایسے لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی جو پتھر کے اَن گھڑ بتوں کی پوجا کرتے اور ان کی بابت اُلوہیت کے عقائد رکھنے کے عادی تھے۔ آپؐ کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا بھی کچھ مشکل نہ تھا، لیکن رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی باتوں سے بالاتر تھے۔ آپؐ نے لوگوں کے سامنے، جو بخوشی آپؐ کی پرستش کرنے کو بھی تیار ہوجاتے، صرف یہ دعویٰ کیا کہ ”میں تو صرف تمہاری طرح ایک انسان ہوں“۔
ان دنیاوی بادشاہوں کے برعکس جو عوام کے دلوں میں اپنے فوق الفطرت مقام کا عقیدہ پیدا کرنے کے لئے سو سو جتن کرتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے دلوں پر ہرممکن طریقے سے یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف انسان ہیں اور بس۔ آپؐ نے جان بوجھ کر بطورِ حفظ ماتقدم، اس بات کو کلمہ کا جزولاینفک قرار دیا کہ ”محمد اللہ کے رسولؐ ہیں“ مبادا آئندہ چل کر ان کے نام لیوا عقیدت کے جوش میں انہیں خدائی کے درجے تک پہنچا دیں، جیساکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شخصیت اور اختیار کے بارے میں لوگوں کے تمام شکوک و شبہات واضح الفاظ میں دور کردیئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے آگے یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں خزانوں کا مالک ہوں یا غیب کا علم رکھتا ہوں“۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے (ابراہیم) کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گرہن لگ گیا، تو لوگوں نے سمجھا کہ شاید خدا اظہارِ غم کررہا ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً اُن کے اوہامِ باطلہ کو یہ کہہ کر رَد کردیا کہ ”انسان کی موت و حیات کے ساتھ مظاہر قدرت کا کوئی تعلق نہیں“۔ قرآن مجید ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیوں کر لوگوں کو ہرممکن طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپؐ کی ذات میں کوئی مافوق الفطرت بات موجود نہیں۔ جب ایک نابینا بوڑھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے آیا اور آپؐ نے اُس سے بے اعتنائی برتی تو خدا کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی۔ بجائے اس کے کہ آپؐ اسے چھپاتے، آپؐ نے اسے قرآن مجید میں اللہ کی مرضی کے مطابق تمام آنے والے وقتوں کے لئے محفوظ کردیا۔ کوئی دنیاوی صاحب ِ اقتدار شخص اپنے خلاف کسی بات کو، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اس طرح مشتہر نہیں کرتا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے بے تکلّفانہ انداز میں عام لوگوں سے میل جول رکھتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں دوسروں سے بالاتر ہونے کی کوئی امتیازی علامت موجود نہ تھی۔ عوام کے ساتھ آپؐ کا ربط ضبط ایسا تھا کہ جب کوئی اجنبی مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع میں آتا، تو اسے دریافت کرنا پڑتا کہ ”تم میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں؟“۔ آپؐ بطور حکمران اپنے کپڑے سینا، اپنے جوتے مرمت کرنا، اپنی بکریوں کا دودھ دوہنا، اپنے گھر کی صفائی کرنا اور امورِ خانہ داری میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا، اپنی کسرِشان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب کھانا پکانے کا وقت آیا تو ہر شخص نے اپنے اپنے حصے کا کام سنبھال لیا۔ رسولِ پاکؐ بھی اس کام میں شریک ہوئے اور لکڑیاں چن لائے۔ جب آپؐ کے پیروکاروں نے کہا کہ آپؐ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں، تو آپؐ نے واضح طور پر جواب دیا کہ آپؐ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہی چاہئے۔
ایسا تھا یہ سب سے طاقتور حکمران، جو دنیا نے کبھی دیکھا! وہ حکمران جس کا حکم صرف جسم پر نہیں دلوں پر بھی چلتا تھا۔ وہ حکمران جس کی کوئی فوج تھی نہ کوئی محل اور نہ خزانہ۔ اور نہ ان لاتعداد وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ کہ جسے دنیاوی حکمران لوگوں کو مطیع کرنے کیلئے اختیار کرتے ہیں۔ آپؐ لوگوں سے ہرممکن طور پر بے تکلف ہوتے اور اپنی شخصیت تمام ممکنہ اوہامِ باطلہ سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے، پھر بھی آپؐ حکمران تھے۔
آپؐ کے پیروکار آپؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ دنیا کے کسی اور بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی۔ آپؐ کے ایک پیروکار کو جب اس امر کا علم ہوا کہ جنگ میں آپؐ کا ایک دانت شہید ہوگیا ہے، تو اس نے اپنے تمام دانت خود توڑ ڈالے۔ جب کسی جنگ کے خاتمے پر مدینہ کی ایک عورت نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیریت دریافت کی، تو اسے بتایا گیا کہ اس کا شوہر شہید ہوگیا ہے۔ اس اندوہ عظیم سے بے پروا ہو کر اس نے دوبارہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیریت پوچھی۔ اسے بتایا گیا کہ جنگ میں اس کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے۔ اس نے اپنا وہی سوال پھر دہرایا۔ اسے جواب ملا کہ اس کا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے۔ اس نے زور دے کر پوچھا: ”رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟“ جب اسے بتایا گیا کہ آپؐ خیریت سے ہیں تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ اس صورت میں تمام غم قابلِ برداشت ہیں۔
تاریخ میں صرف ایک حکمران کا ذکر ملتاہے، جس کی بابت بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت کا ”خدائی حق“ حاصل تھا اور وہ حکمران اسلام کے نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں پر حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ملوکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دنیا کے اس عظیم ترین حکمران کا پیغام اپنے پیروکاروں کے لئے صرف اس قدر تھا:
”میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں