کچھ معتدل حیات کا موسم ہوا تو ہے
آنچل کسی کے دوش پہ پرچم ہوا تو ہے
پہلی سی اب مزاج میں شوخی نہیں رہی!
لہجہ کسی کی بات کا سرگم ہوا تو ہے
مری شبیہ کا عکس بھی شاید دکھائی دے
گوشہ کسی کی آنکھ کا پُرنم ہوا تو ہے
محسوس کر رہا ہوں کئی روز سے کمی
نالہ شبِ فراق کا کچھ کم ہوا تو ہے
تنہائیوں میں یاد بھی رہتی ہے ساتھ ساتھ
لیکن خیالِ یار بھی ہمدم ہوا تو ہے
اُڑتی سی اک خبر ہے کہ وہ بھی اُداس ہے
اس کو بھی میری ذات کا کچھ غم ہوا تو ہے
جلتا ہوں سَر سے پیر تک اپنی ہی آگ میں
کچھ حسرتوں کے زخم کا مرہم ہوا تو ہے!
کوئی تو ایسی بات تھی جو دل میں چبھ گئی
جس کا ملال آپ کو محرمؔ ہوا تو ہے
==============
رفیع یوسفی محرمؔ
================