جب تلک مستیاں نہیں ہوتیں
میری سانسیں رواں نہیں ہوتیں
وصل میں سب گوارا ہوتا ہے
ہجر میں شوخیاں نہیں ہوتیں
عاشقی کے نئے دفاتر میں
آج کل بھرتیاں نہیں ہوتیں
زندگانی کی لاٹری میں دوست
سوچ لے پرچیاں نہیں ہوتیں
اب مری جیب میں سکوں کے لئے
نیند کی گولیاں نہیں ہوتیں
ہجر وادی عجیب ہے جس میں
سردیاں گرمیاں نہیں ہوتیں
ہم فقیروں کی آہ ہوتی ہے
جاہلا! جھولیاں نہیں ہوتیں
تم مری بات مان لیتے اگر
ایسی بربادیاں نہیں ہوتیں
مجھ پر اب مہربان مستحسنؔ
شعر کی دیویاں نہیں ہوتیں
———
مستحسنؔ جامی