انجمن آرائیاں ہوتی تو ہیں
حُسن میں رعنائیاں ہوتی تو ہیں
چاہتیں لیتی تو ہیں اپنا خراج
عشق میں رسوائیاں ہوتی تو ہیں
آئی پھر ہنگامہئ ماضی کی یاد
ذہن میں پَرچھائیاں ہوتی تو ہیں
میں زمیں وہ آسماں کیا کیجئے
پستیاں اُونچائیاں ہوتی تو ہیں
عکس مستقبل بہت دھندلا سہی
ہاں مگر تنہائیاں ہوتی تو ہیں
ٹیس تو اٹھتی رہے گی عمر بھر
زخم میں گہرائیاں ہوتی تو ہیں
ہم نہیں کہتے زمانہ ہے بُرا
کچھ نہ کچھ اچھائیاں ہوتی تو ہیں
کیوں نا ساحرؔ کا سحرؔ ہو ہم خیال
تلخیاں، تنہائیاں ہوتی تو ہیں
حبیب سحرؔ