Friday, October 18, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

چین تائیوان کی آزادی کو ”بزور طاقت“ روکنے کیلئے تیار

تائیوان کے دفاع کی خاطر فوجی طاقت کا استعمال بھی ہماری نگاہ میں ہے، امریکی صدر جوبائیڈن
زاویہئ نگاہ رپورٹ
چین کے وزیردفاع ڈونگ جون نے خبردار کیا ہے کہ ان کی فوج تائیوان کی آزادی کو ”بزور طاقت“ روکنے کے لئے تیار ہے تاہم انہوں نے امریکا کے ساتھ بات چیت بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ سنگاپور میں ہونے والی سالانہ سیکیورٹی کانفرنس میں دیئے گئے یہ بیانات دونوں امریکا اور چین کے دفاعی عہدیداروں کے درمیان ڈیڑھ سال میں پہلی بار براہ راست بات چیت کے بعد سامنے آئے۔ وزیر دفاع ڈونگ نے شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ تبادلہ خیال اور تعاون کے لئے تیار رہے ہیں لیکن اس کے لئے دونوں کو سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مزید تبادلہ خیال کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری دونوں افواج کے درمیان اختلافات ہیں۔ ڈونگ جون اور امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن نے فورم کی میزبانی کرنے والے پُرتعیش ہوٹل میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک ملاقات کی۔ اس ڈائیلاگ جس میں دنیا بھر کے دفاعی حکام نے شرکت کی اور حالیہ برسوں میں اسے امریکا اور چین کے تعلقات کے عکاس کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ملاقات کے بعد آسٹن نے کہا کہ امریکا اور چین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت آنے والے مہینوں میں دوبارہ شروع ہوجائے گی، جبکہ بیجنگ نے دونوں ممالک کے درمیان مستحکم سیکیورٹی تعلقات کو سراہا۔
اس سال شنگریلا ڈائیلاگ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایک ہفتہ قبل چین نے خودمختار تائیوان کے اردگرد فوجی مشقیں کیں ہیں اور تائیوان کے صدر لائی چنگ تی کی حلف برداری کے بعد امریکی حمایت یافتہ جزیرے کو جنگ کے متعلق خبردار کیا ہے۔ بیجنگ نے انہیں ”خطرناک علیحدگی پسند“ قرار دیا ہے۔ ڈونگ نے فورم سے خطاب میں کہا کہ چینی پیپلز لبریشن آرمی ہمیشہ مادر وطن کے اتحاد اور دفاع میں ایک ناقابل تسخیر اور طاقتور قوت رہی ہے۔ یہ تائیوان کی آزادی روکنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ثابت قدمی اور طاقت استعمال کرے گی کہ وہ اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کوئی تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی جرأت کرے گا اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا اور اسے تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور چین جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے رابطے بڑھا رہے ہیں، امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے بھی گزشتہ ماہ بیجنگ اور شنگھائی کا دورہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان اہم توجہ ملٹری ٹو ملٹری ڈائیلاگ کی بحالی پر مرکوز ہے، جو ممکنہ تنازعات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لئے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
چین نے 2022ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے کے ردعمل میں امریکا کے ساتھ فوجی رابطے ختم کر دیئے تھے۔ گزشتہ برسوں میں امریکی فضائی حدود میں مار گرائے مبینہ چینی جاسوس غبارے، تائیوان کی اس وقت کی صدر سائی انگ وین اور پیلوسی کے جانشین کیون میک کارتھی کے درمیان ملاقات اور تائی پے کے لئے امریکی فوجی امداد جیسے معاملات کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
چین ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک بالخصوص فلپائن کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات اور آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں جنگی جہازوں اور لڑاکا طیاروں کی باقاعدگی سے تعیناتی پر بھی برہم ہے۔ بیجنگ سمجھتا ہے کہ یہ اس پر قابو پانے کے لئے دہائیوں سے جاری امریکی کوششوں کا حصہ ہے۔ گزشتہ نومبر میں چینی صدر شی جن پنگ اور جوبائیڈن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں فریقین نے تائیوان، جاپان اور بحیرہ جنوبی چین میں فوجی کارروائیوں پر اعلیٰ سطح کے فوجی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ تائیوان پر چین کے ممکنہ قبضے کے مقابل فوجی طاقت کا استعمال بھی ہماری نگاہ میں ہے۔ جریدہ ”ٹائمز“ کے لئے انٹرویو میں جوبائیڈن نے کہا کہ ہم نے چین کے صدر شی جن پنگ کو ”کھلے الفاظ“ میں بتا دیا ہے کہ امریکی پالیسی تائیوان کی خودمختاری کی حمایت نہیں کرتی اور ہم اس پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر چین نے تائیوان کی حیثیت کو یکطرفہ شکل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو کیا امریکا جزیرے کا دفاع کرے گا یا نہیں؟ بائیڈن نے کہا کہ اس صورتِ حال کا انحصار اس وقت کی شرائط پر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صلاحیت کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے علاقائی ساجھے داروں کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر تائیوان پر قبضہ کیا جاتا ہے تو امریکی فوجیوں کی جزیرے میں تعیناتی کا احتمال موجود ہے یا نہیں؟ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ احتمال بھی ہماری نگاہ میں ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا قبضے کی صورت میں جاپان اور فلپائن کی امریکی بیسوں سے حملہ کیا جائے گا؟ جوبائیڈن نے کہا کہ اس بارے میں میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ اس بارے میں بات کرنے پر آپ مجھ پر تنقید کریں گے اور اس تنقید میں آپ حق بجانب ہوں گے۔
واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنی زمین کا حصّہ قرار دیتا ہے تاہم تائیوان 1949ء میں جمہوریہ چین کے قیام سے ہی عملاً خودمختار ہے۔ چین کے مرکزی حصّے اور تائیوان کے درمیان سرد جنگ کے بعد شروع ہونے والی علیحدگی تاحال برقرار ہے۔ چین ”واحد چین“ پالیسی کے ساتھ عالمی ممالک کے تائیوان کو بحیثیت ایک ملک کے تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خلاف ہے۔ چین، تائیوان کی اقوام متحدہ اور یورپی یونین جیسی عالمی تنظیموں میں شرکت کی بھی سختی سے مخالفت کرتا اور اسے تسلیم کرنے والے ممالک پر تائیوان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی شرط لگاتا ہے۔

مطلقہ خبریں