Saturday, November 23, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

تبت سے امریکا کا چین پر حملے کی تیاری

اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقی سے منسلک مفادات کے تحفظ کیلئے پُرعزم اقدامات کریں گے، چین
قاضی جاوید
امریکی سی آئی اے پلان کے تحت دلائی لامہ امریکا پہنچ چکے ہیں۔ جس کے بعد امریکا تبت پلان میں تیزی آچکی ہے۔ امریکا اور چین دونوں کے مفاد تبت میں ہیں اسی لئے دلائی لامہ امریکا میں نئے دلائی لامہ کا اعلان یا اس کے مل جانے اطلاعات بھی بہت جلد دنیا کو دیں گے۔ لیکن یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ دلائی لامہ کو اگر امریکا جانا ہی تھا تو روانگی سے صرف دو دن قبل ایسی کیا ضرورت پیدا ہوگئی یا کی گئی کہ تبت سے متعلق امریکی کانگریس میں بل کی منظوری کے بعد امریکی قانون سازوں کا دھرم شالہ کا دورہ اور دلائی لامہ سے ملاقات کرائی گئی۔ اس کے کیا مقاصد ہیں، اس بارے میں امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی بل چین کی حکومت کے لئے امریکی حکومت کی جانب سے ایک پیغام ہے جو تبت کی آزادی کے مسئلے پر ہماری سوچ کی وضاحت کرتا ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن جلد ہی اس قانون پر دستخط کر دیں گے، جسے تبت ایکٹ کہا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا اس لئے کر رہا ہے کہ وہ تبت سے چین پر حملے کرنا چاہتا ہے، اس سلسلے میں بھارت اور نیپال کی سرزمین بھی استعمال کرسکتا ہے۔
بھارتی علاقے ہما چل پر دیش میں قائم دھرم شالہ میں جہاں 1959ء سے جلاوطن تبتی حکومت قائم ہے، امریکا کا کہنا ہے کہ امریکی قانون سازوں کے دورے سے تبت کے آزاد ی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو توقعات پیدا ہوئی ہیں۔ سینٹرل تبت انتظامیہ کے ترجمان تنزین لیکشے نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام تبتیوں کے لئے خوشی کا لمحہ ہے۔ ہم سب بہت خوش ہیں اور بل کی منظوری کے بعد یہ دورہ بہت اہم ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ یہ بل جلد ہی قانون بن جائے گا۔ سات رکنی امریکی وفد کی قیادت کانگریس مین مائیکل میک کول نے کی۔ ان کا بل کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ تبتیوں کے حق خودارادیت کے لئے امریکی حمایت کی تصدیق کرتا ہے۔
دھرم شالہ بھارت کے ہمالیائی علاقے میں واقع ہے جہاں 1959ء سے اپنی جلاوطنی کے بعد دلائی لامہ قیام پذیر ہیں۔ دلائی لامہ تبتیوں کے روحانی پیشوا کہلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ تبت کے لئے زیادہ خودمختاری کی جدوجہد کررہے ہیں۔ چین دلائی لامہ کو علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چین کے درمیان مذاکرات 2010ء سے منقطع ہیں۔ دلائی لامہ تبتیوں کے روحانی پیشوا ہونے کے باوجود تبت میں پائے جانے والے بدھسٹ کے مذہبی گروپس تیرا وعدہ 56 فیصد، مہایانہ 38 فیصد کی حمایت سے محروم ہیں۔ دلائی لامہ کو بدھسٹ کے وجریانہ شاخوں کے فرقے کی حمایت حاصل جن تعداد بدھسٹ میں صرف 6 فیصد ہے۔ اس خطے پر چین کی نظر کیوں ہے، اس سلسلے میں نے مقامی اخبار میں 30 دسمبر 2020ء چھپنے والے کالم میں لکھا تھا کہ:
”ماؤزے تنگ“ کا کہنا تھا کہ تبّت ایک ہاتھ کی مانند ہے جس کی انگلیاں اس کے دریا ہیں اور ہتھیلی اس کی سرزمین، اس لئے ہتھیلی پر جس کا قبضہ ہوگا وہی علاقے کا راجا ہوگا۔ بیجنگ نے اس راج کو قائم رکھنے کے لئے اپنی فوج کی مدد سے 1951ء میں تبّت کو پُرامن طور پر آزاد کروایا تھا لیکن علاقے کے بہت سے شہری چین کی مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان کے مذہبی استحصال اور ان کی تہذیب کو ختم کرنے میں ملوث ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق تبّت کے شہریوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور کسی بھی غیرچینی شناخت کی علامتیں سامنے آنے کی صورت میں جیل اور بدسلوکی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ غیرچینی شناختوں میں دلائی لامہ کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
اس پوری صورتِ حال میں بھارت ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اس نے ایک طرف امریکا کو کھلی چھوٹ دی ہے کہ وہ دلائی لامہ سے مل کر جس قدر چاہیں چین کو دھمکیاں دیتے رہیں۔ لیکن پانچ سال پہلے جب جلاوطن حکومت کی 60 ویں سالگرہ کا جشن ہو رہا تھا تو انڈین حکومت نے سبھی وزرا اور افسروں سے کہا تھا کہ اس جشن کی تقاریب سے دُور رہیں۔ اس سے پیغام یہ دینا تھا کہ بھارت چین کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں چاہتا۔ چین نے امریکی قانون سازوں کی دلائی لامہ سے ملاقات پر تنقید کی ہے۔ چین تبت کے روحانی رہنما کو علیحدگی اور تقسیم پسند قرار دیتا ہے۔ اس دورے سے قبل گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس نے ایک بل کی منظوری دی تھی جس میں بیجنگ اور تبت کے جلاوطن رہنماؤں کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی اور ساتھ ہی یہ کہا گیا تھا کی تبتی رہنما اپنے علاقے کے لئے مزید خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور چین سے ان سے ملاقات کر چاہئے۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ 2010ء میں منقطع ہوگیا تھا۔
بیجنگ نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو کانگریس کے منظور کردہ بل پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چین اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقی سے منسلک مفادات کے تحفظ کے لئے پُرعزم اقدامات کرے گا۔ نئی دہلی میں قائم چین کے سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں بیجنگ کے خدشات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ دلائی لامہ گروپ کی چین مخالف علیحدگی پسند معاملات پر چین کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا احترام کرے اور دنیا کو غلط سگنلز بھیجنا بند کرے۔ امریکی وفد کے قائد میک کول نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ چین دلائی لامہ کے جانشین کے انتخاب پر اثرانداز نہ ہو۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب کہ چین کا کہنا ہے کہ اسے دلائی لامہ کے جانشین کی منظوری کا حق حاصل ہے۔
تبتی روایت کے مطابق دلائی لامہ اپنی موت کے بعد دوبارہ جنم لیتا ہے۔ موجودہ اور 13ویں دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ وہ 103 سال تک زندہ رہیں گے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امکان یہ ہے کہ ان کا جانشین بھارتی سرزمین سے ملے گا۔ جلاوطن تبتیوں کو خدشہ ہے کہ چین تبت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے کسی شخص کو جانشین نامزد کرنے کی کوشش کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ امریکی عہدے دار کی نئی دہلی میں دلائی لامہ سے ملاقات پر چین کیوں برہم ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ جلاوطن انتظامیہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ دلائی لامہ کے نمائندوں اور چینی حکومت کے درمیان باضابطہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر 2010ء میں ختم ہوگئی تھی۔ تبتیوں کی جلاوطن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزادی کا نہیں بلکہ چین کے اندر خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جلاوطن حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جلاوطن انتظامیہ کسی علیحدگی پسند تحریک کی نمائندگی نہیں کرتی۔ دلائی لامہ 1959ء میں چین سے فرار ہو کر بھارت چلے گئے تھے۔ ان کا قیام ہمالیہ کے علاقے محل نما دھرم شالہ میں ہے اور وہ تبت کے حوالے سے اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرتے رہے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان ہلکی پھلکی جنگ کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ امریکا مودی کو اس بات پر تیاری کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ چین سے ٹکرائے اور اس سلسلے میں 2020ء میں لداخ ارونچل پردیش کے اردگرد کے علاقوں میں شدید ٹکراؤ اور جنگ کا سماں برقرار رہا ہے لیکن بھارت اپنے آپ کو چین سے بچاتا رہا۔ اس کے برعکس بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف جنگ کی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ تیسری بار کامیابی کے بعد بھی مودی نے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں مودی نے پھر اعلان کیا ہے وہ پاکستان پر حملے کے احکامات جاری کرچکا ہے۔ لیکن یہ بات شاید اس کے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان سے ٹکراؤ اس کے لئے بڑی لڑائی بھی بن سکتی ہے۔

مطلقہ خبریں