Thursday, November 21, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

کتاب ”عالمگیریت کے خدوخال“

مصنفہ ایک اسلامی اسکالر ہیں، اس لئے اُن کی ہر تحریر میں اسلام کا نکتہ نظر جھلکتا ہے
میر افسر امان
آج جو کتاب ”عالمگیریت کے خدوخال“ میرے سامنے، تبصرے کے لئے موجود ہے، وہ محترمہ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق صاحبہ (اُمِ سارہ) کی تصنیف ہیں۔ آپ اسلامی اسکالر ہیں۔ آپ کو 2011ء میں کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کی گئی۔ آپ نے اپنی کتاب ”اخوت اور رواداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی، صدر مملکتِ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو کراچی گورنر ہاؤس میں ایک تقریب میں پیش کی۔ آپ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں، آپ شاعرہ ہیں، آپ ذاکرہ ہیں، آپ سارہ فاؤنڈیشن کی بانی ہیں۔ آپ اقرا یونیورسٹی میں پڑھاتی رہی ہیں۔ آپ سابق رکن قومی اسمبلی شہید علی رضا عابدی کی والدہ ہیں۔ آپ جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد، شعبہ علم و ادب قلم کارواں کے روزانہ رات دس بجے، لہروں کے دوش پر، مختلف موضوعات پر منعقد ہونے والے، پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہو کر ہماری رہنمائی فرماتی ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ اخلاق صاحبہ سے ہماری شناسائی جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد شعبہ علم و ادب، قلم کارواں کے ہفت روزہ آن ایئر پروگرامز میں ہوئی۔ مجھ پر بحیثیت سیکریٹری شعبہ علم ادب قلم کارواں کے پروگراموں کے نظامت ذمہ داری ہے۔ ایک پروگرام میں ڈاکٹر صبیحہ اخلاق صاحبہ نے اپنی کتاب ”اخوت اور رواداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں“ کا ذکر کیا تو میں نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے یہ کتاب چاہئے۔ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق نے ایک کتاب کے بجائے تین کتابیں کوریئر سروس سے عنایت کردیں۔
اچھا! میرا ایک طریقہ رہا ہے کہ جو بھی کتاب مجھے پسند آتی ہے اور میری ذاتی لائبریری کا حصہ بنتی ہے، تو میں اُسے بغور مطالعہ کرکے اُس پر تبصرہ لکھ کر ابلاغ کی غرض سے اخبارات کی زینت بناتا رہتا ہوں۔ اس طرح کرتے کرتے سو سے زیادہ کتابوں پر تبصرے لکھے، جو اخبارات میں شائع بھی ہوئے۔ ایک کتاب ”کتابیں اپنے آباء کی“ بھی شائع کی جس میں ان میں سے کچھ تبصرے شامل ہیں۔
مصنفہ ایک اسلامی اسکالر ہیں، اس لئے اُن کی ہر تحریر میں اسلام کا نکتہ نظر جھلکتا ہے۔ کتاب ”عالمگیریت کے خدوخال“ ایک ریفرنس بک ہے۔ معلومات کا خزانہ ہے۔ یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ اس کتاب میں درجن بھر پی ایچ ڈی حضرات نے تعریفی کلمات لکھ کر اس کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ جن حضرات کو عالمگیریت سے دلچسپی ہے اُنہیں اس کتاب میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔
اس کتاب کو مصنفہ نے چار ابواب، عالمی معاشرے کا تصور، مذہبی، گروہی اور نظریاتی مسائل، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل اور تہذیوں کا تصادم میں تقسیم کیا ہے۔ مصنفہ نے ہر باب میں اپنی تحقیق کے ثبوت میں، اپنی شاعری کی کتاب ”زندانِ ذات“ سے شاعری کا بھی استعمال کیا ہے۔ ان کی کتاب کے شروع میں ہی مصنفہ کی ایک غزل کا مصرع پڑھ کر مجھے اپنی مرحومہ والدہ یاد آ گئی۔ وہ مصرع ہے ؎
”گھر کی نانی دادی نے پکوان پکانے چھوڑ دیئے“
ہماری والدہ صاحبہ رات سونے سے پہلے، ہمارے صبح کے ناشتے کے لئے مکی کی روٹی پکا کر رکھا کرتی تھیں۔ ہم صبح ناشتے میں رات کی پکی مکی کی روٹی کو بسکٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ کتاب میں اپنے موضوع کو واضع کرنے کے لئے پر تقریباً تیس فیصد انگریزی میں موجود، مواد کو بھی پیش کیا ہے، جس میں مغربی دانشورں کی تحقیقات بھی شامل ہیں۔ انگریزی مواد کا اُردو ترجمہ پیش کیا، مگر اس کے نیچے اپنے تبصروں کو مختصر رکھا۔ اگر تھوڑی مزید شریع کردی جاتی تو بہتر ہوتا۔ پیش لفظ میں عالمی معاشرے کو پہیے کی ایجاد سے جوڑا۔ پرانی تہذیبوں کا ذکر کیا۔ نئے معاشرے میں یہودیوں کا امریکا کے انتخاب کا بھی ذکر کیا۔ جسے اقبال ؒنے بھی اس انداز میں پیش کیا تھا:۔
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے
مصنفہ نے عالمی معاشرے کو قرآنی معاشرہ کہا ہے۔ لکھتی ہیں ”قرآن میں جہاں جہاں ”یا ایہاالناس“ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے وہاں عالمی معاشرے سے ہی خطاب ہے۔ دوسرے باب میں سورۃ شوریٰ کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسلامی معاشرہ ہی عالمی معاشرہ ہے۔ سارے انبیاء ایک ہی پیغام لے کر آئے۔
کتاب میں ہر تحقیق کے حوالے دیئے ہیں۔ اس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی باب کے صفحہ 67 پر لکھتی ہیں ”انسانی دماغوں کو کسی نئے سانچے میں ڈھالنا ایک بہت سست ردعمل ہے۔ یہ معجزہ صرف پیغمبر اسلامؐ کے دست مبارک پر رونما ہوا کہ 23 سال کے مختصر عرصے میں جزیرہ نما عرب اور آس پاس کے علاقوں میں رہنے والوں کے دل ودماغ اور تہذیب وتمدن میں ایسا انقلاب آیا، جس نے چند دہائیوں میں سرحدوں کو پار کر کے عالمگیریت اختیار کرلی“ اسی باب میں ہندوؤں کے ذات پات کے فاسد عقیدے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر اس کتاب میں دیئے گئے حوالوں کا ذکر کیا جائے تو پہلے باب میں 26، دوسرے باب میں 70، تیسرے باب میں 91، چوتھے باب میں 35 حوالے دیئے ہیں۔ دوسرے باب کے صفحہ 96 میں دنیا کی 21 زبانوں کا جدول دیا ہے۔ دنیا کی دس بڑی زبانوں کے ذکر میں، ہماری سوچ کے مطابق مسلمانوں کی زبان ”اُردو“ دنیا میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں دوسرے نہیں تو تیسرے نمبر کی بڑی زبان ضرور ہے۔ شاید اُسے شامل کرنا رہ گیا ہے۔ تیسرے باب میں اسلام کے ظہور کا ذکر کیا ہے۔ قرون وسطی میں مغرب تاریکی ڈوبا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں راقم نے اپنی زیرطبع کتاب ”رہنمائے ملت اسلامیہ“ میں ثابت کیا ہے کہ مغرب کے تازہ ترقی اسپین کے مسلمانوں کی شاندار عالمی ترقی کی مرہون منت ہے۔ جسے آج کل مسلم دنیا مغرب اور امریکا جاتے ہیں۔ اسی طرح مغربی قومیں اسپین میں آکر تہذیب وتمدن سیکھتے تھے۔ باب چہارم میں بھی مختلف تہذیبوں کا حوالے دے کر اسلام کو اُن پر فوقیت دی ہے۔ صفحہ 217 پر لکھتی ہیں۔ موت پر واویلا اور سوگ منانا ہر تہذیب میں الگ الگ رنگ رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات جن معاشروں میں پُراثر طریقے سے رائج ہیں وہاں موت کو زندگی کا حصہ سمجھ کر اور ایک نئی دنیا میں انتقال کے تصور کو قائم کرتے ہوئے مردہ کو عزت سے رخصت کیا جاتا ہے“ اس باب میں مصنفہ نے موجودہ زمانے میں تہذیوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ملحدانہ تہذیب، مشرکانہ تہذیب، مادّی تہذیب اور اسلامی تہذیب۔ ساری تہذیبوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے، آخر میں اسلامی تہذیب کی خوبیاں بیان کی ہیں۔
کتاب ”عالمگیریت کے خدوخال“ 5 سال کے عرصے میں لکھی گئی۔ ایک شہید کی ماں ہوتے ہوئے اور دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ”مشرقِ وسطیٰ کے ایلان اور ساحل سمندر“ پر اپنے تاثرات نظم کی شکل میں لکھے ہیں ؎
یہ کون ہے جو ساحل پہ اوندھا پڑا ہے؟
اکیلا، تنہا، ننھا سا بچہ
اس کے ماں باپ کہاں ہیں؟
یہ ٹیڈی بیئر جیسا ساکت جسم
ہم اپنے تبصرے کو مصنفہ کے ہی ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں مصنفہ نے کہا:۔ ”زیرِنظر کتاب اکیسویں صدی کے اولین دہائیے یعنی 2004ء سے لے کر 2009ء کے درمیان لکھی گئی۔ کچھ موسم خشک سالی اور بے ثمری کے عالم میں گزرے گئے۔ ایک خلش تھی، ایک کانٹا تھا جو قلب میں پیوست تھا کہ یہ کام کسی نہ کسی حالت میں دنیا کے سامنے آنا چاہئے تاکہ راقم الحروف کی عرق ریزی عوام الناس کے کام آسکے“۔

مطلقہ خبریں